[ad_1]
ہم سب پاکستانیوں سمیت ، عالمِ اسلام اورعالمِ مغرب کو یقین تھا کہ عید الاضحیٰ سے قبل ’’غزہ‘‘ میں مجبور، نہتے اور بیکس فلسطینیوں کے بہتے خون کی ندیاں رُک جائیں گی۔ یہ خواہشات اور توقعات مگر پوری نہیں ہو سکی ہیں ۔
آج 17جون2024 کو پاکستان بھر میں عیدالاضحی منائی جا رہی ہے لیکن ’’غزہ‘‘ میں غریب اور بیچارے فلسطینیوں کوآزادی سے عید الاضحیٰ منانے دی جارہی ہے نہ ہی معاشی اور سماجی طور پر وہ اِس قابل چھوڑے گئے ہیں کہ سنتِ ابراہیمی ادا کر سکیں ۔ اہلیانِ ’’غزہ‘‘کو روٹی ، صاف پانی ، بجلی اور نہائت ضروری ادویات دستیاب نہیں ہیں ۔ صہیونی اسرائیلی افواج نے اہلِ غزہ پر زندگی بتانے کا ہر راستہ بند کر رکھا ہے ۔ ایسے میں کہاں کی عیدالاضحی ؟
ہم آج آزاد پاکستان میں آزاد شہریوں کی حیثیت میں عید الاضحی منا رہے ہیں۔ صاحبانِ توفیق، حسبِ توفیق قربانی کا فریضہ بھی ادا کررہے ہیں ۔ اِن لمحات میں ہمیں اہلِ غزہ کی مجبوریوں اور بیکسیوں کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ صہیونی اسرائیلی خونخوار افواج نے اہلِ غزہ پر زندگی جہنم بنا کر رکھ دی ہے ۔ پچھلے 8مہینے اور10دن کی مسلسل جنگ نے 38ہزار اہلِ غزہ کو شہید کر ڈالا ہے ۔
اِن میں 15ہزار سے زائد معصوم فلسطینی بچے بھی شامل ہیں ۔ 25لاکھ کے قریب بے گھر ہو چکے ہیں ۔ اِس خونریزی کے باوجود صہیونی افواج کا دستِ ستم رک نہیں رہا۔ پندرہ ہزار سے زائد معصوم فلسطینی بچوں کے قتلِ عام کے جرم میں اقوامِ متحدہ نے صہیونی اسرائیل کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں بھی شامل کر لیا ہے ۔ اسرائیل مگر پھر بھی ’’غزہ‘‘ پر ہلاکت خیز حملوں سے باز نہیں آ رہا۔ امریکا سمیت ہر بڑے چھوٹے مغربی ملک اور شمالی امریکا کی ہر اہم یونیورسٹی میں طلبا و طالبات نے اسرائیل کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں اور یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ غزہ پر جنگ بندی کی جائے۔ ڈھیٹ اور سفاک اسرائیل پھر بھی مظالم ڈھانے سے دستکش نہیں ہو رہا۔ اِس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا پشتیبان، امریکا، فی الحال اسرائیل کو پوری طاقت سے غزہ پر حملے روکنے کا حکم نہیں دے رہا ۔
غزہ پر صہیونی اسرائیل کے لاتعداد خونریز حملوں ، غزہ کی مکمل تباہی اور 38ہزار سے زائد اہلِ غزہ کی شہادتوں کا ایک مثبت نتیجہ یہ برآمد ہُوا ہے کہ کئی مغربی ممالک نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا ہے ۔ اِن ممالک میں آزاد فلسطین کا پرچم پوری آن بان شان سے لہرانے بھی لگا ہے ۔ اسرائیل کو اِس کی بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔ اُس کے پیٹ میں بجا طور پر مروڑ اُٹھ رہے ہیں کہ اُس نے تو یہ خواب کبھی نہیں دیکھا تھا کہ غزہ پر حملوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے قہرنانہ اقدامات کے بطن سے یہ نتیجہ بھی نکل آئے گا۔
صہیونی اسرائیل کو اِس بات کا بھی بڑا قلق ہے کہ امریکا اور عالمِ مغرب کی یونیورسٹیوں میں فلسطین اور مظلوم غزہ کے حق میں اسقدر زبردست مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟ اللہ کے مگر اپنے ڈیزائن ہوتے ہیں ۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے جزوی آزاد فلسطین کا یہ منظر ہم سب کو دکھایا ہے ، اگرچہ فلسطین کو ابھی مزید آزاد ہونا ہے ۔ کاش ایسا نہ ہوتا کہ غزہ کے ہزاروں مسلمانوں کو اتنی بھاری تعداد میں اپنی جانوں کی قربانیاں دینا پڑتیں ۔ مگر بجا ہی کہا جاتا ہے: خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!
مسرت کی بات یہ ہے کہ امریکا اور مغرب کے عوام کا ضمیر زندہ ہے ۔ یہ اُن کے زندہ ضمیر ہونے ہی کا ثبوت ہے کہ پچھلے آٹھ مہینوں سے وہ مسلسل اسرائیل کے خلاف اور مظلوم و مغضوب غزہ کے حق میں نعرے اور بازو بلند کررہے ہیں ۔ اُن کی اِس تگ و دَو نے امریکی اور مغربی حکومتوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ صہیونی اسرائیل کی کھلم کھلا حمائت اور اعانت سے باز آجائیں۔
لاریب امریکا اور مغربی ممالک کے طلبا، طالبات اور عوام اپنے مقاصد میں کامیاب رہے ہیں ۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں بھی غزہ کے لیے جلسے جلوس نکلے ہیں ۔ فلسطین کی حمائت میں نعرے اور بازو بلند کیے گئے ہیں مگر عددی اور شماریاتی اعتبار سے یہ جلسے جلوس امریکا و مغربی ممالک میں نکالے گئے عوامی جلسے جلوسوں سے کم کم ہی محسوس کیے گئے۔ پاکستان (اسلام آباد) میں تو غزہ کے لیے دیے گئے ایک دھرنے پرایک متکبر شخص نے رات کے اندھیرے میں اپنی گاڑی چڑھا دی اور دو نوجوانوں کو شہید کر دیا اور کئی زخمی ہو گئے ۔ ہمارے بھی ہیں ’’مہرباں‘‘ کیسے کیسے !
خوشی اور اطمینان کی خاص بات یہ ہے کہ کئی پاکستانی این جی اوز غزہ کے مجبوروں اور محروموں کی امدادو اعانت کے لیے مسلسل بروئے کارہیں ۔ یہ امداد و اعانت خوراک ، خیموں ، ادویات ، میڈیکل ایکوپمنٹ، پینے کے صاف پانی ، خواتین کے استعمال کی اشیا پر مشتمل رہی ہے۔ پاکستان کی ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ اور پاکستان نژاد برطانوی عبدالرزاق ساجد کی ’’ ا لمصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘اِس ضمن میں پیش پیش دیکھی گئی ہیں ۔
عبدالرزاق ساجد پچھلے آٹھ ماہ کے دوران ذاتی حیثیت میں کئی بار براستہ مصر اور اُردن ’’غزہ‘‘ یا اس کے مضافات میں پہنچے اور اہلِ غزہ میں خوراک ، ادویات ، کپڑے ، خیمے ، پینے کا صاف پانی ، میڈیکل ایکوپمنٹ ، ایمبولنسیں فراہم کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔
اِس سلسلے میں انھیں مصر کے ہلالِ احمر کا تعاون اگر میسر نہ آتا تو شاید اہلِ غزہ کے لیے اُن کی ہر کوشش اکارت اور ناکام ہو جاتی ۔ ساجد صاحب نے غزہ کی سرحد پر ، مصر کی جانب ،جو ایک وسیع کچن بنا رکھا ہے ، یہ اپنی طرز کی منفرد خدمت ہے۔ اِس کچن سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں اہلِ غزہ کو تازہ پکا پکایا کھانا فراہم کیا جاتا ہے ۔وہ غزہ اور مغربی کنارے کے پانچ اہم اسپتالوں کو مالی اورمیڈیکل آلات کی شکل میں متنوع امداد بھی فراہم کررہے ہیں ۔
اِس عید الاضحی کے موقع پر ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین ، جناب عبدالرزاق ساجد، نے اہلِ غزہ کی امداد و اعانت اور خاص طور پر ہزاروں شدید زخمی اہلِ غزہ کی طبّی امداد کے لیے ایک منفرد قدم اُٹھایا ہے۔غزہ اور مصر کے ہلالِ احمر نے بھی ’’المصطفیٰ‘‘ والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد زخمی ،بھوک سے بلبلاتے اور بے آسرا لوگوں کے لیے امداد ارسال کریں ۔
عبدالرزاق ساجد یہ امداد مصر کی ہلالِ احمر اور جورڈن ہاشمی چیرٹی آرگنائزیشن(JHCO)کے تعاون اور توسط سے ’’کریم ابو سالم‘‘ کے راستے ضرورتمندوں تک پہنچا رہے ہیں کہ ’’رفح‘‘ کا بارڈر صہیونی اسرائیلی افواج نے مقفل کررکھا ہے ۔’’المصطفیٰ‘‘ نے عید الاضحی سے قبل کویت کے عالمی شہرت یافتہ قاری ، محترم مشاری راشد العفاسی، کی خدمات حاصل کی ہیں ۔
انھوں نے 9جون اور15جون کو نیو جرسی اور بالٹی مور ( امریکا) اور کئی امریکی مساجد میں پروگرام کروائے ۔قاری جناب مشاری راشد العفاسی کی دلکش اور دلکشا قرأت سننے کے لیے جوق در جوق مسلمان تشریف لائے ۔
العفاسی صاحب کی زبانی کلامِ الٰہی سننے کے لیے لوگوں نے ذوق و شوق سے باقاعدہ ٹکٹ خریدے ۔ٹکٹوں کی شکل میں تقریباً ایک ملین ڈالر کے یہ عطیات ’’غزہ‘‘ کے انتہائی ضرورتمندوں میں تقسیم کیے جائیں گے ۔ عیدالاضحی کے موقع پر ’’المصطفیٰ‘‘ این جی او کی جانب سے یہ ایک عظیم تحفہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اِس خدمت کو قبول و منظور فرمائے ۔
[ad_2]
Source link