[ad_1]
وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی ان خوابوں کے بارے میں بتا رہے تھے جو انھوں نے دیکھے اور مجھے ایم سی پرائمری اسکول بلاک نمبر 14 سرگودھا کے نیک نام استاد کی یاد آ نے لگی جنھوں نے ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھائیں اور فلائیٹ لیفٹیننٹ یونس حسین شہید ستارۂ جرأت کے کارناموں کی کہانیاں سنائیں جو ان کے بھانجے تھے۔ یہ بہت اچھے استاد ہمیں اس وقت ذرا اچھے نہ لگتے جب وہ اپنے کمرے کی واحد الماری کا تالا کھول کر اس میں سے لوٹا نکال کر بیت الخلا کی طرف چل دیتے۔ بچوں کو یہی ضرورت آ پڑتی تو انھیں اپنے کاپیوں کے صفحے پھاڑنا پڑتے۔ یہ واحد وجہ تھی جس کے لیے اسکول جانا ہمیں زہر لگتا۔
یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ دکھ دینے والے اس واقعے کا وفاقی سیکرٹری تعلیم سے کیا تعلق؟ سوال جائز ہے لیکن اس کا جواب نسبتا ًتفصیل طلب ہے۔ دو ایک روز ہوتے ہیں،اولاً برادرم عمار مسعود نے مدعو کیا اورپھر برادر عزیز وسیم عباسی نے باربار یاد دلایا کہ آپ کو پہنچنا ہے اور بروقت پہنچنا ہے۔ اسم ضمیر کو خبر کے ساتھ منسلک کر دینابھی خوب ہے جیسے وی نیوز۔ اس اعتبار سے تو بات درست ہے کہ خبروں کا موضوع اور صارفین انسان ہوتے ہیں یعنی ہم، انگریزی میں جسے وی کہتے ہیں۔
ان بھائیوں نے خبر کے ضمن میں جو کارکردگی دکھائی ہے، وہ الگ موضوع ہے لیکن ایک نیا کام بھی کیا ہے یعنی بات چیت اور تبادلۂ خیال کا ایک پلیٹ فارم بنا دیا ہے جس پر لوگ آتے ہیں، لوگوں کی سنتے ہیں، اپنی سناتے ہی،یوں سننے والے کچھ نہ کچھ سیکھ کر گھر لوٹتے ہیں۔ محی الدین وانی والی نشست میں اس سے بھی بڑھ کر ایک واقعہ ہوا۔
مہوش سدوزئی ایک یونیورسٹی میں سیاسیات کی استاد ہیں اور دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے این جی او چلاتی ہیں۔ اس نشست میں انھوں نے اپنا تجربہ بتایا کہ غریب طبقات خاص طور پر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے والدین کے پاس اکثر اوقات ب فارم جیسی دستاویزات نہیں ہوتیں لہٰذا ان کے بچے اسکول میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ محی الدین وانی نے یہ بات توجہ سے سنی اور کہا کہ یہ شرط سمجھئے کہ ختم ہو گئی۔ انھوں نے یہ وعدہ کیا اور اگلے روزنوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ سرکاری شعبے میں اس قدر تیزی سے فیصلہ سازی اور اس پر عمل درآمدکی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔
وانی صاحب کا یہ کارنامہ تو وہ ہے جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ایک داستان اس کے علاوہ بھی ہے۔ ویسے تو محی الدین وانی کو ہم نے تب جانا جب وہ وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا، یہ ماجرا الگ ہے لیکن اس کے علاوہ وہ کیا ہیں؟ یہ کہانی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سامنے آئی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس حکومت نے گلگت بلتستان میں چیف سیکرٹری کے منصب کے لیے کسی افسر کی تلاش شروع کی۔ حکومت نے جن افسروں کو اس مقصد کے لیے شارٹ لسٹ کیا، وزیر اعظم نے ان کے انٹرویو خود کیے۔ وزیر اعظم نے انھیں مخاطب کیا اور چند سوال پوچھے۔ ایک سوال تو شاید یہی تھا کہ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں ان کی حکومت کی کارکردگی کیسی ہے؟ افسر شاہی ہو یا زندگی کا کوئی دوسرا شعبہ، حکمران کی تعریف کرنا بلکہ اس کی انا کو گنے کا رس پلانا ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اس افسر نے لگی لپٹی رکھے بغیر جو کچھ کہا، اسے سن کر وزیر اعظم نے حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا۔ اس شخص نے کہا کہ حکومت کے سامنے زندگی کے بہت سے شعبے منھ کھولے کھڑے ہوتے ہیں لیکن ان تمام مسائل کا ایک دم حل ممکن نہیں ہوتا، اس لیے ترجیحات بنانی پڑتی ہیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا جاتا ہے۔
اگر آپ حقیقت پوچھتے ہیں تو آپ کی حکومت نے بہت سے محاذ کھول دیے ہیں اور کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو رہا۔ اس کے مقابلے میں میاں نواز شریف کی حکومت اس لیے کامیاب تھی کہ ان نے بجلی کی پیداوار، اکنامک کاریڈور اور خارجہ تعلقات وغیرہ کو اپنی ترجیح بنایا۔ اسی سبب سے اس کی کارکردگی آپ کی حکومت سے کہیں بہتر تھی۔ عمران خان نے یہ سن کر معنی خیز انداز میں ہوں کہا اور چیف سیکرٹری کی حیثیت سے ان کے تقرر کی منظوری دے دی۔
گلگت بلتستان میں جا کر دیگر محکموں میں تو انھوں نے جو کیا سو کیا، تعلیم کے شعبے کو خاص طور پر اپنی ترجیح بنایا اور جہاںخالی بلڈنگ دیکھی، اس میں کوئی نہ کوئی تعلیمی ادارہ بنا دیا۔ تعلیم کا معیار بلند کیا۔ فنانشل لٹریسی پر توجہ دی۔ یوں بچوں نے روایتی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی فن سیکھے، اچھی مصنوعات بنائیں اور ان کی مارکیٹنگ بھی سیکھی۔
اب یہی وانی صاحب وفاقی سیکرٹری تعلیم و پیشہ وارانہ امور ہیں۔ اس منصب پر آنے کے بعد انھوں نے اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ ان کا نصب العین یہ ہے کہ سرکاری اسکول کو غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے بہتر ہونا چاہیے لہٰذا اب انھوں نے اسلام آباد کے شہری اور دیہی اسکولوں کا رخ کیا ہے جن کی عمارتیں چند ماہ پہلے بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے پرکشش ہو گئی ہیں۔
نرسری اور پری نرسری کے اسکول اُن اسکولوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو چکے ہیں جنھیں دیکھ کر والدین اپنے بچوں کو بھاری بھرکم فیسوں والے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ اسی طرح شام کے اوقات میں سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتوں کے استعمال کے لیے خاص اقدامات کیے گئے ہیں۔ انھوں نے وہاں ہائی امپیکٹ کمپیوٹر لیبارٹریاں بنا دی ہیں جنھیں دن کے اوقات میں اسکول اور کالج کے طلبہ استعمال کرتے ہیں اور شام میں عام نوجوان یہاں سے مفت تربیت حاصل کرکے روزگار حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
کوئی مضمون چھوڑے بغیر پرائمری اسکول کے بچوں کے بستوں کا بوجھ اور ذہنی دبا ؤکم کر دیا ہے۔ ہائی اسکولوں کے امتحانات میں مینیول چیکنگ ختم کر کے نتائج کو شفاف بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم فیصلہ امتحانی نتائج صرف متعلقہ طالب کو فراہم کرنے کا ہے۔ امتحانی نتائج کے روایتی طریقے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طلبہ ساتھیوں سے مقابلے اور اس ضمن میں مختلف قسم کے سماجی دباؤ کی وجہ ذہنی دبا کا شکار رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے طلبہ بعض اوقات اپنی جان بھی لے بیٹھتے ہیں۔
ہر تعلیمی ادارے ہیں بہترین لائبریری بنا دی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں کی نگرانی کا فول پروف نظام قائم کیا ہے اور اب یہی نظام ترقی کی بنیاد ہے۔وفاقی دارالحکومت کے اسکولوں میں ٹیلی اسکوپ فراہم کر دیے گئے ہیں۔ ان اسکولوں میں ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے والے اسکریبل اور شطرنج جیسے کھیل شروع کر دیے گئے ہیں۔ بچوں کی کیریکٹر بلڈنگ کا باقاعدہ نظام بنایا ہے جب کہ تعلیمی بجٹ میں چار سو فیصد سے زائد اضافہ کر دیا ہے۔
اسی طرح سابق وفاقی علاقوں میں یا بلوچستان کے علاوہ بعض دیگر علاقوں میں دہشت گردی یا کسی بھی وجہ سے اسکول تباہ ہو جائیں تو اسلام آباد سے فوری طور پر ٹیمیں پہنچ کر ہفتہ دس دن میں انھیں ازسر نوتعمیر کر کے تعلیمی عمل بحال کر دیتی ہیں۔
اسلام آباد کے دیہی علاقوں کے طالبات کو لانے کے لیے فری بس سروس شروع کر دی گئی ہے جسے علاقے کی خواتین بھی طبی سہولتوں کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ طلبہ و طالبات کی فطری ضروریات کے لیے جدید ،صاف ستھری اور محفوظ سہولتیں یقینی بنا دی گئی ہیں۔ یہی معاملہ تھا، وانی صاحب نے جس کی تفصیلات بتائیں تو مجھے اپنا پرائمری اسکول یاد آیا اور میرے دل سے اس افسر کے لیے دعا نکلی۔ بات یہ ہے کہ اگر کسی کام کے لیے اہل آدمی کا انتخاب کر لیا جائے تو پھر نتائج اسی طرح اچھے نکلتے ہیں۔
[ad_2]
Source link