[ad_1]
پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے دسویں ذوالحج کو سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کی جس کا اصل مقصد و دعا اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اللہ کو نہ جانوروں کا خون پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت بلکہ مسلمانوں کا تقویٰ و پرہیز گاری اس عبادت کا اصل مفہوم ہے۔ خالق کائنات لوگوں کے اپنے اعمال سے راضی ہوتا ہے جو نمود و نمائش سے ہٹ کر خالصتاً اس کی رضا و خوشنودی کے لیے کیے جاتے ہیں۔
زندگی کے جملہ معاملات میں بھی ہمیں اللہ کی رضامندی کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے کہ آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ تقویٰ و پرہیز گاری ہے جس نے اللہ کو ناراض کیا وہ دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات نہیں پا سکتا۔ حکمران ہوں یا عوام سب کو اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا بھر کے مسلم حکمران اور عوام عبادات کی اصل روح کو کماحقہ سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی کے حامل ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘
کیا آج دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان باقی دنیا پر غالب ہیں؟ کیا 57 مسلم ممالک ڈیڑھ سو سے زائد دیگر ملکوں پر حاکم ہیں؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں نہیں دیا جاسکتا۔ مسجد حرام کے امام اور حج کے خطیب شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ تقویٰ و پرہیز گاری ہی میں کامیابی ہے، فساد سے دور رہو، ظالم کی پکڑ ہوگی اور باہمی تعاون و مدد کا جذبہ قائم رکھو۔ لیکن آج دنیا میں مسلمانوں نے دین کی اصل روح کو بھلا دیا ہے۔ علامہ اقبال نے سچ کہا کہ :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
ہم نے قرآن کا سبق ہی بھلا دیا۔ اسی لیے مسلم امہ آج مصیبتوں، آلام، پریشانیوں، مصائب اور فسادات میں گھری ہوئی ہے۔ اتفاق و اتحاد کی جگہ نفاق نے لے لی ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا کے ہر خطے میں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک آہ و بکا کا عالم ہے۔ اسرائیل نہتے مظلوم فلسطینی بچوں، ماؤں، بہنوں، جوانوں اور بوڑھوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور 57 ملکوں کے مسلم حکمران ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اصل ظالم یہی ہیں اور اللہ کے ہاں ان کی پکڑ ہوگی۔
اصل عادل حکمران وہ ہوتا ہے جس کی رعایا اس سے خوش اور مطمئن ہوتی ہے، جو ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، جو اپنی رعایا کو انصاف فراہم کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول صادق ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم و ناانصافی پر نہیں۔ آج کے مسلم حکمران ظلم و ناانصافیوں کی جو داستان رقم کر رہے ہیں وہ کل تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔
پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو 75 سالوں سے قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے مخلص، سچے، صاحب کردار، عوام دوست اور عادل حکمران کی تلاش میں ہے، جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کا ازالہ کر سکے، انھیں انصاف فراہم کر سکے، آئین میں دیے گئے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکے، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور جہالت کے اندھیروں کو دورکر سکے اور وطن عزیز کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کر سکے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آنے والے برسر اقتدار تمام حکمرانوں نے عوام کی خوش حالی کے بجائے اپنی ذاتی خوش حالی اور مفادات کا سوچا، عوام کی زندگی میں تبدیلی لائے نہ وطن کی ترقی و خوش حالی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حکمران اور طبقہ اشرافیہ امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔ حکمرانوں کے بینک اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالر جمع ہیں اور بیرون ملک جائیدادیں ہیں، جب کہ ملک اربوں ڈالر کا مقروض اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار اور عام آدمی بدحالی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
2024-25 کے وفاقی بجٹ میں 38 کھرب کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے سبسڈی کی مراعات ختم کردی گئی ہیں اور 450 ارب کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسٹیل مصنوعات، گاڑیاں، کاغذ، کتابیں، کاپیاں، اسٹیشنری، نیوز پرنٹ، مشروبات، ڈرائی فروٹ، بچوں کا خشک دودھ، چمڑے کی مصنوعات، پولٹری فیڈ، ماچس، پھل، سبزیاں اور نہ جانے کیا کیا کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ پٹرولیم، ڈیزل پر 20 روپے لیوی بڑھا دی گئی ہے، بجٹ خسارہ کل بجٹ کا تقریباً نصف کے قریب 8500 ارب ہے جب کہ سود کی ادائیگی کے لیے 19775 ارب درکار ہوں گے۔
اگرچہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بالترتیب 25 فیصد تک اور 15 فی صد اضافہ کیا گیا ہے لیکن دوسری جانب ٹیکس سلیب میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا گیا ہے بجا کہ کم سے کم اجرت 37 ہزار کر دی گئی ہے لیکن آجر حضرات اپنے ملازمین کو یہ اجرت دینے سے بھی گریزاں ہیں۔ ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ سیکٹر بزنس کمیونٹی نے بجٹ پر شدید تنقید کی ہے۔ (ن) لیگ کی اتحادی جماعت پی پی پی نے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بجٹ اجلاس میں صرف علامتی شرکت کی۔
بلاول بھٹو و دیگر اراکین نے بائیکاٹ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں بڑے دعوے سے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔ میں آیندہ دو تین ماہ میں سخت فیصلے کروں گا۔ ہم ترقی کی دوڑ میں ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیں گے، قوم کا پیسہ عیاشی پر خرچ نہیں ہوگا۔ ہم نے مستقبل کا راستہ چن لیا ہے۔ اس قسم کے دعوے اور وعدے حکمران ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ بجٹ کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ عوام کی مشکلات بڑھ جائیں گی، صنعت کار، تاجر اور عام آدمی سب کو نئے مالی سال میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
[ad_2]
Source link