[ad_1]
’’ ابا آپ کو سالگرہ مبارک ہو، اللہ تعالی آپ کو سب کچھ بہترین عطا فرمائے۔‘‘ گزشتہ دنوں عالمی سطح پر منائے جانے والے فادرز ڈے کے موقع پر سوشل میڈیا پر میں نے پوسٹ دیکھ کر مارے حیرت کے پیغام ہی بھیج ڈالا کہ شاید اس عمر میں ان کی اماں نے… علم ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، اس نے اپنے مرحوم والد کو ہی سالگرہ کی مبارک باد دی تھی۔ جانے زندگی میں اس نے کبھی ایسا کہا ہو گا ان کو کہ نہیں کیونکہ اسے، اپنے ابا کے بارے میں شکایتیں کرتے تو میں نے ہمیشہ سنا اور دیکھا تھا۔
شکایت، قسمت اور حالات کا رونا ، انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے۔ بچوں کو والدین سے ، بہن بھائیوں سے، میاں بیوی کو آپس میں اور دیگر رشتہ داروں سے، ہمسایوں سے۔ جب تک انسان زندہ رہتا ہے اور حواس میں ہوتا ہے، تب تک شکایات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
بیویوں کو گلے ہوتے ہیں کہ خاوند ان کی کسی بات کی تعریف نہیں کرتے اور ایک جملہ تو شوہروں کا پسندیدہ ترین جملہ ہوتا ہے کہ میں سارا دن باہر خوار ہوتا ہوں، تم سارا دن گھر پر پڑی رہتی ہو، کرتی ہی کیا ہو آخر؟ اسے پکا ہوا گرم کھانا تیار ملتا ہے، دھلے ہوئے کپڑے ملتے ہیں، گھر لوٹتا ہے تواس کے بعد اسے آرام ملتا ہے مگر ان چیزوں کا اسے علم نہیں ہوتا جب تک کہ یہ سب کام ہونا بند نہ ہوجائیں۔ شوہروں کو بیویوں سے شکایت ہوتی ہے کہ وہ شادی کے سال دو سال کے بعد جب ماں بن جاتی ہیں ، تو اس کے بعد وہ صرف ماں ہی بن جاتی ہیں، شوہروں کو توجہ نہیں دیتیں، انھیں یہ بھول جاتا ہے کہ ماں بن کر عورت کتنے ہی حصوں میں بٹ جاتی ہے۔
گھر میں بات بے بات ایسے گلے شکوے سن سن کر اولاد بھی یہی سیکھتی ہے اور کئی بار والدین کو ان سے سننا پڑتا ہے کہ فلاں کے والد اتنے اچھے ہیں اور ان کے نہیں۔ فلاں بچے کے والدین نے اسے نئے ماڈل کا فون لے کر دیا ہے، اسی عمر میں گاڑی لے کر دی ہے، اسے پیار کرتے ہیں ، چھٹیوں میں بیرون ملک تفریح کے لیے لے کر جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ماں کے خلاف شکایت ہو تو باپ ان کے ساتھ فریق بن جاتا ہے اور باپ کے خلاف ہو تو ماں تائید کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک حکایت ہے کہ کسی کا بیٹا جب جوان ہوا تو وہ بات بے بات باپ کو اس کی کم مائیگی کا احساس دلاتا اور یہی کہتا کہ اس کے باپ نے اس کے لیے آخرکیا ہی کیا ہے۔
لے دے کے ساری عمر میں ایک گھٹیا سا گھر ہی بنا سکا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ باپ جب بستر مرگ پر پڑا تواس نے ایک وصیت تیار کروائی ، اپنے بیٹے کے نام ایک خط لکھا اور اسے اس کی ماں کو دیا کہ اس کے مرنے کے بعد جب وکیل اس کی وصیت بیٹے کو دے دے اور وہ اس پر عمل کر لے تو اس کے بعد یہ خط اسے دے دے۔ باپ کے مرنے کے چند دن کے بعد بیٹے نے وکیل سے وصیت کھلوائی، اس میں اس کے والد نے لکھا تھا کہ اس نے جو گھر بنایا تھا، اس کی بنیادوں میں کہیں اس نے ایک خزانہ دفن کیا تھا، اسے اس جگہ کا حتمی یاد نہیں اس لیے اس خزانے کو اسے خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ بیٹے نے مزدور بلوا کر گھر کو گرانا شروع کر دیا، سارا گھر گرا لیا مگر پھر بھی اس خزانے کا کچھ اتا پتا نہ ملا۔
اس نے ماں سے پوچھا کہ اگر اسے اس خزانے کی بابت کچھ اندازہ ہو تو۔ ماں نے بتایا کہ اس کے والد نے اس کے لیے ایک خط چھوڑا تھا جو کہ سارا گھر گرا لینے کے بعد اسے دینا تھا۔ وہ خط ماں نے بیٹے کو دیا ، بیٹے نے بے تابی سے اس خط کو کھولا اور پڑھنے لگا۔ ’’ پیارے بیٹے، تمہیں ساری عمر مجھ سے گلے شکوے ہی رہے، بالخصوص جو چھت میں نے محنت اور مشقت کر کے تمہیں فراہم کی، تمہیں اس پر بھی مجھ سے گلے تھے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ تمہیں اس گھر کو گرا کر دوبارہ بنانے کا موقع دوں۔
میں نے جو گھر بنایا، وہ تمہارے معیار کا نہ تھا اور تمہیں اس پر کوئی خوشی نہیں تھی، اب گھر کو گرا لیا ہے، خود بناؤ تا کہ تمہیں اندازہ ہو کہ گھر کیسے بنتا ہے۔‘‘ بیٹے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا، باپ کے جس احسان کو وہ عمر بھر احسان نہ سمجھا تھا، وہ اب اس کے سامنے مسمار ہوا پڑا تھا اور اسے سالوں اس کو دوبارہ بنانے کی سکت نہ ہوتی۔
باپ ایسا ہی بے نیاز انسان ہوتا ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر اپنی اولاد کے لیے اشیائے ضروریہ اور اشیائے صرف بھی فراہم کرنے والا۔ ایک نوجوان لڑکا جس دن باپ بن جاتا ہے، اسی دن اس کے اندر اس کی اپنی کئی خواہشات دم توڑ دیتی ہیں اور اس کی زندگی کا مقصد اپنی اولاد کو خود سے بہتر زندگی فراہم کرنا بن جاتا ہے۔ وہ کام کرتا ہے اور جو کچھ بھی کماتا ہے اسے اپنی اولاد کو بہتر سے بہترین فراہم کرنے کے لیے جمع کرتا رہتا ہے۔
اس کے بچے عمر کے ساتھ بڑھتے ہیں اور ان کی ضروریات بھی، انھیں ہر سال نئی کتابیں اور بستے چاہئیں، انھیں سال میں کئی بار نئے کپڑے اور جوتے چاہئیں ، باہر کا کھانا کھانے کا شوق ہے، دوستوں کی پارٹیاں اٹینڈ کرنا ہوتی ہیں تو یہ سب کچھ عموماً باپ ہی فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ اولاد کے لیے سب کچھ فراہم کرنے والا، خود اپنی خواہشات کا گلا تو گھونٹتا ہی ہے، اپنی ضروریات کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ خود وہ سال ہا سال نیا کپڑا بناتا ہے نہ نیا جوتا خریدتا ہے، دوستوں کی محفلوں سے کٹ جاتا ہے کہ وہاں کچھ رقم خرچ نہ ہو جائے۔ اللہ تعالی نے دنیا کے ہر ماں اور باپ کو اولاد کے لیے محبت کا بے بہا خزانہ عطا کیا ہے خواہ وہ انسان ہوں، جانور یا پرندے۔
[ad_2]
Source link