[ad_1]
اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے۔ تاجدار کائناتؐ نے سنت ابراہیمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقویٰ پر زور دیتا ہے، قربانی اور تقویٰ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عیدالاضحی کے تین دن ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے، جو رویائے صادقہ پر منشائے خداوندی سمجھتے ہوئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش کی تھی۔ خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دِل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے، ’’ نہ اْن ( قربانی کے جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج37)۔ اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مقصود ان جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پرکس قدر یقین رکھتے ہیں، اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقتِ ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں؟ تقویٰ کی صفت اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے اور اسی سے انسان نیک اعمال کو ترجیح دے کر انھیں اختیارکرتا ہے، اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے۔
دنیاوی اعتبار سے قربانی دینے میں غریبوں کا فائدہ ہے، ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنھیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا، قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انھیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانور اسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انھیں بھی کچھ رقم حاصل ہوجائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائش نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے، ان کے چارے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بھی بہت سے مصارف ہیں، اس وجہ سے چمڑے کے کاروبارکو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، مدارس اور دیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کام آتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عید قربان کا مطلب اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو دولت کی نمائش نظر آتی ہے۔ قربانی کا فلسفہ بھی ہمارے ایمان کا جزو ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کا جانور خرید کر لوگوں میں اپنے دولت مند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ جوں جوں مہنگائی کا گراف بڑھتا جارہا ہے معاشرے میں دکھاؤے اور خود نمائی کا گراف بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، اس کی وجہ غربت اور بدحالی ہی سمجھ آتی ہے۔ ایک وہ دور بھی تھا جب لوگ سال بھر پہلے سے جانورکی پرورش اپنے گھروں میں کیا کرتے تھے اور پھر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا کرتے تھے مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔
اب جانوروں کے مقابلہ حسن کرائے جاتے اور جانوروں کی بولیاں لگوائی جاتی ہیں اور جو سب سے زیادہ بولی لگاتا ہے، اس کی پرنٹ میڈیا میں تصویر اور الیکٹرانک میڈیا پر فوٹیج اور وہ بھی اس کے جانور کے ساتھ تاکہ لوگوں کو علم ہو سکے کہ اس شخص نے اس عید قربان پر لاکھوں کے جانورکو قربان کیا ہے۔ عیدالاضحی ہمارا مذہبی تہوار ہے اور اس کو پورے جذبہ ایمانی اور خلوص کے ساتھ منانا چاہیے لیکن ہمیں تو صرف اپنی خود نمائی سے ہی فرصت نہیں۔
اللہ کریم ہمارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ننھے ننھے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، بڑے روٹی کو ترس رہے ہیں اور ان کو صاف پانی تک میسر نہیں جو مکھی اور مچھر کی طرح مر جاتے ہیں اورکوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں، ہمیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کیونکہ ان کو بھی جینے کا حق ہے۔
ان کا بھی خوشیوں پر حق ہے کیونکہ وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ سوچیں کہیں آپ کی قربانی جذبہ ایثار اور خلوص سے تو خالی نہیں اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ عیدالاضحی کا مقصد بھی جذبہ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیزتر چیزکو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہی قربانی ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضی کو ترجیح دی جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ قومیں اپنے اجتماعی رویے سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر چلتی ٹریفک، ہمارے پبلک ٹوائلٹس میں صفائی ستھرائی، ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹاپس پر لائن بنانا، دفاتر میں عوام کے ساتھ ہونے والا سلوک، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہماری حساسیت، قانون کی پاسداری اور دیگر اجتماعی رویے ہماری پہچان ہیں۔ قوم کے اجتماعی رویے میں تہذیب اور بلند اخلاقیات اُس وقت منعکس ہوتی ہیں جب شرحِ خواندگی بلندیوں کو چھو رہی ہو اور اساتذہ کی اخلاقیات بھی اعلیٰ درجے کی ہوں۔
بدقسمتی سے تاحال ارضِ پاکستان میں یہ دونوں ہی روبہ زوال ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اجتماعی رویے خراب ہیں۔ جب کسی معاشرے میں اجتماعی رویے خطرناک حد تک بگڑ جائیں تو وہاں اخلاقی زوال شروع ہوجاتا ہے ۔عید الاضحی کے مبارک موقع پر نمازِ عید کے بعد ملک کے طول و عرض میں قربانیوں کا عمل شروع ہوتا ہے جو 3 دن تک جاری رہتا ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اٹھنے کا سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہتا ہے۔ اس بار لاہور میں عیدالاضحی کے موقع پر صفائی ستھرائی یقینی بنانے کے لیے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی متحرک رہی، گڑھے کھود کر جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگائی جا رہی ہیں۔
لاہور کینال میں آلائشیں پھینکنے اور اوجھڑیاں دھونے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران 110 افراد پکڑ لیے گئے، 99 کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا جب کہ 11 کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایل ڈبلیو ایم سی کی جانب سے 24گھنٹے لائیو مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم، 291 سروس ڈلیوری کیمپس،105عارضی کلیکشن پوائنٹس اور 5 ڈمپنگ سائٹس فعال رہیں۔
عید قربان کے موقع پر لاہور میں 14 لاکھ ماحول دوست ویسٹ بیگز مفت تقسیم کیے گئے، وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صفائی کے بہترین انتظامات پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ دوسری جانب شہر قائد کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر نے انتظامی امور کی خود نگرانی کی، اور متعدد جگہوںکے دورے بھی کیے، لیکن مجموعی طور پر بلدیہ کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی، بڑے پیمانے پر شکایات سامنے آئیں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں جانوروں کی آلائشیں سڑکوں پر ڈھیرکی صورت میں موجود ہیں، لیکن ان کو اٹھانے کے لیے مشینری اور متعلقہ عملہ نہیں پہنچ رہا،جب کہ عوام ہیلپ لائن نمبروں پر رابطہ بھی کررہے ہیں۔
درحقیقت لوگ اپنے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمے داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لیے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اورگلی، محلے، شہر کی خوبصورتی الگ خراب ہوتی ہے۔ یہ ہمارا وہ اجتماعی رویہ ہے جس نے مسائل پیدا کیے ہیں۔
ہمارے پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ جس کا اطلاق انفرادی و اجتماعی صفائی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صفائی ستھرائی پر مامور ادارے و سرکاری ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے، اگرچہ بنیادی طور پر یہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمے داری ہے کہ عید الاضحی کے موقعے پر صفائی کے انتظامات کو یقینی بنائیں لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
عوام کو چاہیے کہ جس اہتمام سے وہ جانور خریدتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں، قربانی کے لیے قصائی کا بندوبست کرتے ہیں، گوشت بانٹتے اور پکا کے کھاتے کھلاتے ہیں، اسی اہتمام سے قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی انتظام کریں۔ سب جانتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی کوئی چیز ضایع نہیں کی جاتی اور آلائشوں کو مفت میں اٹھا کر لے جانے والے باآسانی مل جاتے ہیں۔ عوام کی طرف سے ذمے داری لینے اور تھوڑی سی کوشش کرنے کی بات ہے۔ سرکاری اداروں پر نہ رہیں، زندگی کے اورکتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں ہم اداروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں کوشش کر کے اپنا اور دوسروں کا بھلا کر لیتے ہیں۔
اسی طرح اس حوالے سے بھی انفرادی کوشش کو اپنا فرض جانیں۔ ہم اس سچائی کو فراموش کرچکے ہیں کہ خالق کائنات کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جاتا ہے۔ عید الاضحی کا تہوار یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ہے، یعنی ہمیں صرف مال و زر ہی خرچ نہیں کرنا ہے، بلکہ اپنے اندر قربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتے رہیں، تاکہ آیندہ آنے والی عید الاضحی پر ہم ایک بار پھر اسی نیک نیتی اور صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کر سکیں۔
[ad_2]
Source link