[ad_1]
16 جون کو ہر سال ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے گھریلو ملازمین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
اس دن کے موقع پر دنیا بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور یہ جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کی صورتحال کیا ہے اور مزید کیا اقدامات کرنے ہیں۔ اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، ڈومیسٹک ورکرز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سیدہ کلثوم حئی
(ڈائریکٹر جنرل محکمہ لیبر پنجاب)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء عجلت میں بنایا گیا۔ اس میں سقم موجود ہے، صرف شکایت کی صورت میں ہی ایکشن لیا جاسکے گا۔ اس قانون میں پہلی مرتبہ ڈومیسٹک ورکرز کو میڈیکل، ویکسینیشن، زچگی کی رخصت، بیماری کی چھٹی، کم از کم اجرت سمیت دیگر حقوق دیے گئے ہیں جو خوش آئند ہے۔اس میں چائلڈ لیبر کی ممانعت کی گئی اور پہلی مرتبہ ڈومیسٹک ورکرز کیلئے نوکر کے بجائے ورکرکا لفظ استعمال کیا گیا۔اس طرح ان کے کام اور کردار کو تسلیم کیا گیا جس سے ان کے وقار میں اضافہ ہوا۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے حوالے سے بڑا مسئلہ چادر چار دیواری کے تقدس کا ہے۔ اس پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے جس کا موثر میکنزم بنانا ہوگا۔ اس ایکٹ کے حوالے سے انتظامی مسئلہ بھی ہے، تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے جس کے بغیر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ ہم اس قانون میں بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مشاورت کے بعد متعلقہ محکمے کو ترامیم کی سفارشات بھجوا دی گئی ہیں، یقینا ان سے بہتری آئے گی۔
پنجاب میں 10 خواتین لیبر انسپکٹرز ہیں، گھروں کی انسپکشن کی لیے این جی اوز کی مدد لی جاسکتی ہے، ہمیں گھروں کی انسپکشن کی اجازت دی جائے، ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے چائلڈ لیبر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، فیکٹریوں، کارخانوں، دوکانوں کے علاوہ گھروں میں بھی چائلڈ لیبر ہو رہی ہے۔ چائلڈ لیبر کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے فیکٹریوں اور گھروں کے باہر ’چائلڈ لیبر فری‘ ہونے کے کارڈز لگائے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے جب تک پیسی کو کنٹری بیوشن یا فنڈ نہیں ملیں گے، تب تک ملازمین کو سوشل سکیورٹی کی سہولیات کیسے دی جاسکتی ہیں؟ ہمیں سوشل سیفٹی نیٹ بنانے کی ضروت ہے۔
ہم آئی ایل او کے تعاون سے پنجاب میں لیبر کورٹس بنا رہے ہیں، قوانین میں جدت لائی جا رہی ہے، انہیں یکساں بناکر سقم بھی دور کیا جا رہا ہے۔ ہم سٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں جس کا اچھا رسپانس ملا ہے، بجٹ سیشن کے بعد جولائی میں ترامیم کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کی جائیں گی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں ملازمت کی کم از کم عمر آئین کے آرٹیکل 25(A) کے مطابق 16 برس کر دی جائے گی۔ ہم چائلڈ لیبرکے تحفظ اور بحالی کیلئے چائلڈ لیبر ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز بنا رہے ہیں جو سٹیٹ آف دی آرٹ ہونگے۔ ان سینٹرز میں رہائش، تعلیم، کھیل، ٹیکنیکل ایجوکیشن، نفسیاتی و بنیادی علاج معالجے کی سہولیات ہونگی، اختیارات ڈی جی لیبر کے پاس ہونگے۔ ہم ملازمت کی رجسٹریشن کرنے جا رہے ہیں۔
حکومت ایمپلائمنٹ ایکسچینج کو باقاعدہ مانیٹر کرنے کیلئے میکنزم بنا رہی ہے۔ لوگ نے خود ہی ایکسچینج بنا رکھی ہیں جو ملازمتوں پر رکھواتے ہیں ۔ ان کا باقاعدہ ڈیٹا اکٹھا کرنے اور غیر رجسٹرڈ کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل کم ہوجائیں گے بلکہ انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں بھی کمی آئے گی۔ چائلڈ لیبر کے معالے میں اب والدین کو بھی ذمہ دار ٹہرایا جائے گا، مالک کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ہمارے ہاں کپیسٹی کا مسئلہ بھی ہے۔
ڈیٹا کولیکشن ایک بڑا چیلنج ہے۔ جب تک ہمارے پاس ڈومیسٹک ورکرز کے اعداد و شمار نہیں ہونگے تب تک ان کیلئے موثر اقدامات کیسے کیے جاسکیں گے۔ اس حوالے سے جلد رجسٹریشن کیمپ لگائے جائیں گے جہاں دیہاڑی دار مزدور ، ڈومیسٹک ورکرز سمیت غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے اپنی رجسٹریشن کرا سکیں گے۔ ہم اپنا نظام ڈیجیٹائز کر رہے ہیں جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
ایاز احمد فاروقی
(ڈائریکٹر کنٹری بیوشن اینڈ بینی فٹس، پیسی )
ڈومیسٹک لیبر غیر رسمی شعبہ ہے، اس لیے انہیں سوشل سکیورٹی دینے کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔ ہم رسمی شعبے کے ملازمین کو سوشل سکیورٹی دیتے ہیں جس کے لیے فیکٹری مالکان ورکرز کی کنٹری بیوشن دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کیلئے کنٹری بیوشن کون دے گا؟ پنجاب میں 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنا جس کے تحت غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے گھریلو ملازمین کو ورکرز کا درجہ دیا گیا۔ اس ایکٹ میں انہیں سوشل سکیورٹی دینے کی بات تو کی گئی ہے مگر اس کیلئے کنٹری بیوشن کا کوئی میکنزم نہیں، حکومتی فنڈ کی بات کی گئی ہے۔
حکومت ہمیں ڈومیسٹک ورکرز کیلئے فی الحال کوئی فنڈز نہیں دے رہی۔ ہماری کمشنر نازیہ ثاقب نے آئی ایل او کے وفد سے حال ہی میں ملاقات کی۔ آئی ایل او نے بھی فنڈز نہ دینے کا کہا ہے لہٰذا یسے میں کس طرح انہیں سوشل سکیورٹی دی جاسکتی ہے؟اگر ہمیں فنڈز جاری کئے جائیں، اس کا میکنزم بنا دیا جائے تو ڈومیسٹک ورکرز کو سوشل سکیورٹی دینے کیلئے ہر طرح سے تیار ہیں، انہیں وہی سہولیات دی جائیں گی جو رسمی شعبے کے ملازمین کو دی جاتی ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں تنازعاتی حل کمیٹیوں کی بات کی گئی ہے جو یونین کونسل کی سطح پر ہونگی، وہ کمیٹیاں آگے سفارشات بھیجیں گی۔ ہمارے پاس فیلڈ آفیسرز کی کمی ہے، ہم نئی بھرتیاں کرکے ڈومیسٹک ورکرز کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے۔
محکمہ لیبر میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کو بہتر بنانے کیلئے کام ہورہا ہے، اس حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ ہم نے حکومت کو ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں ترمیم کی سفارش کی ہے، اس میں ملازمین کی کنٹریبیوشن کو لازمی شامل کیا جائے۔ گھر میں انسپکشن کا مسئلہ بھی ہے، چادر چار دیواری کے تقدس کا معاملہ ہے، اس حوالے سے لائحہ عمل بنایا جائے۔ اس میں این جی اوز کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
16 جون کو دنیا بھر میں ڈومیسٹک ورکرزکا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند برسوں سے اس پر زور و شور سے بات ہو رہی ہے۔ خصوصاََ 2019ء میں جب سے پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنا ہے، تب سے ان ملازمین کو بطور ورکر تسلیم کیا گیا ہے، ان کی کم از کم تنخواہ، تحفظ و دیگر حقوق کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حوصلہ افزاء ہے، اس سے یقینا ڈومیسٹک ورکرز کی حالت زار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کے رولز آف بزنس بنا کر عملدرآمد کرے۔ عالمی ادارہ لیبر (آئی ایل او) کا کنونشن 189 ڈومیسٹک ورکرز کو ان کے حقوق دینے اور ایمپاور کرنے کے حوالے سے ہے۔
ہم نے بھی اس کی توثیق کر رکھی ہے، اس کی روشنی میں ڈومیسٹک ورکرز کو ان کے حقوق دینا ہونگے۔ ہمارے ہاں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ لیبر میں بھی خواتین زیادہ ہیں۔ گھروں میں بھی خواتین ورکرز بڑی تعداد میں کام کر رہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہیں۔ خاص طور پر دیہات سے شہروں میں کام کیلئے آنے والی خواتین ان پڑھ ہیں۔ انہیں اپنے بنیادی حقوق کا بھی علم نہیں۔ ان کا استحصال آسان ہے اور اپنی بدترین شکل میں ہو رہا ہے۔
دیہی خواتین میں ڈومیسٹک ورک کا رجحان زیادہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی بڑی آبادی کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈومیسٹک ورک دستاویزی شکل میں نہیں ہے۔ ان کا معاوضہ نقد رقم کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے، ان کی کم از کم اجرت کا مسئلہ بھی ہے لہٰذا اس پر توجہ دینا ہوگی۔ یہ شعبہ شروع سے ہی نظر انداز ہوتا آیا ہے، اسی لیے بہت ساری خراب روایات بن گئی ہیں جنہیں توڑنا قدرے مشکل ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کا بننا خوش آئند ہے مگر اسے 5 سال ہونے والے ہیں، اب تک تو یہاں ڈومیسٹک ورکرز کی حالت بہتر ہوجانی چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے حوالے سے جو بھی رکاوٹیں اور مسائل موجود ہیں انہیں دور کیا جائے۔ آئی ایل او کے مطابق پنجاب میں 80 لاکھ سے ایک کروڑ ڈومیسٹک ورکرز ہیں جو بڑی تعداد ہے۔ ان کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں بچوں کی ملازمت کیلئے عمر کی کم از کم حد 15 برس رکھی گئی ہے جو آئین کے آرٹیکل 25(A) و دیگر قوانین سے متصادم ہے۔ اسی طرح اس قانون میں ’’رخصت زچگی‘‘ 6 ہفتے ہے جبکہ دیگر قوانین میں 90 دن ہے۔
حکومت کو اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس میں موجود تضادات اور سقم دور کرنا چاہیے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے مطابق یونین کونسل کی سطح پر تنازعات کے حل کیلئے کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے تاحال یہ کمیٹیاں قائم نہ ہوسکی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس ایکٹ کے رولز آف بزنس ڈرافٹ ہوچکے ہیں، مطالبہ ہے فوری کابینہ میں منظوری کیلئے بھیجا جائے تاکہ اس کے عملدرآمد کا میکنزم بنا کر بہتری لائی جا سکے۔
خواتین ملکی معیشت اور ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان کے اس کردار کو دستاویزی شکل دے، خواتین کی معاشی شمولیت کے حوالے سے باقاعدہ اعداد و شمار جاری کیے جائیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کی صورت میں اس شعبے میں کام کرنے والوں کو بطور ورکر تسلیم کیا گیا ہے، اس میں بھی خواتین کے کردار کو تسلیم کرنا چاہیے۔
جنوبی ایشیاء میں آج بھی پاکستان میں خواتین کی معاشی شمولیت کم ہے، ہمیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ خواتین کی شمولیت اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے، انہیں سازگار ماحول فراہم کرے۔ ڈومیسٹک ورک میں بے شمار کام ہیں لہٰذا ڈومیسٹک ورکرز کی سکل ڈویلپمنٹ پر کام کرنا چاہیے۔ فلپائن نے اسے ایک صنعت کی طرح لیا ، وہاں کے ڈومیسٹک ورکرز مہارت یافتہ ہیں، ان کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے، مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ڈومیسٹک ورکرز کو کھانا پکانے، کپڑے دھونے، استری کرنے، صفائی ستھرائی سمیت دیگر کاموں کی تربیت دینی چاہیے، باقاعدہ کورسز کروائے جائیں۔ ڈومیسٹک ورک میں ایک بڑا مسئلہ چائلڈ لیبر ہے۔
غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی کم عمر لڑکیاں گھروں میں ملازمت کر رہی ہیں، چھوٹے بچے بھی اسی طرح کام کر رہے ہیں۔ حکومت کو چائلڈ لیبر کے تدارک کیلئے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کو ملازم تو تسلیم کر لیا گیا مگر انہیں تاحال سوشل سکیورٹی نہیں مل سکی۔ اس ضمن میں ان کی رجسٹریشن کا آغاز کیا گیا تھا مگر یہ معاملہ رک کیا۔حکومت کو چاہیے کہ ڈومیسٹک ورکرز کو سوشل سکیورٹی دینے کیلئے فنڈ قائم کرے۔ حکومت نے ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا مگر تاحال اس پر عمل نہیں ہوسکااسے یقینی بنایا جائے۔
شہناز اجمل
(صدر ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب)
میں نے بطور ڈومیسٹک ورکر اپنی زندگی میںبہت مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ کبھی کام کے دوران مار کھائی اور کبھی نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ کسی قسم کا کوئی تحفظ نہ تھا۔ ظلم ہوتا تو ماں چپ کروا دیتی کہ گھر کے مردوں تک بات نہ پہنچے۔ اس وقت بولنے کی ہمت نہیں تھی مگر آج عمر کے اس حصے میں جرات آئی ہے جس میں بشریٰ خالق اور ان کے ادارے کا بڑا کردار ہے ۔
میں نے یہ ٹھان لی ہے کہ اب کسی خاتون خصوصاََ ڈومیسٹک ورکر کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دوں گی۔ اسی لیے میں نے پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز کی یونین بنائی اور اپنے جیسی خواتین کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ ہم ان کو آگاہی بھی دے رہے ہیں اور ان کی آواز بھی بن رہے ہیں۔ گھریلو ملازمین کو بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ظلم اور استحصال چار دیواری کے اندر ہوتا ہے لہٰذا حکومت اور عوام کو نظر نہیں آتا۔ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہم مظلوم ورکرز کو حوصلہ دیتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ بیکار نہیں بلکہ سکلڈ ورکرز ہیں، ان کے پاس گھر سنوارنے کا ہنر ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل مذمت ہے کہ خاتون اور مرد ملازم کی تنخواہ میں فرق ہوتا ہے، یہ تفریق کیوں؟ گھریلو ملازمین کے مسائل زیادہ اور تنخواہ کم ہے لہٰذا انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کیا جائے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کیا جائے اور سفری سہولیات بھی دی جائیں۔ حکومت نے گھریلو ملازمین کی کم از کم اجرت 32 ہزار رپے مقرر کی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، اسے یقینی بنایا جائے۔
[ad_2]
Source link