[ad_1]
کہاوتیں، ضرب الامثال، تلمیحات اور محاورے کسی بھی زبان کا سرمایہ ہوتے ہیں، اردو اس لحاظ سے خوش قسمت زبان ہے کہ اس کا دامن کہاوتوں، ضرب الامثال، محاوروں اور روزمرہ سے مالا مال ہے۔ دوران گفتگو ایسے بہت سے مقامات آتے ہیں جب طویل اور لمبی گفتگو کے بجائے کوئی کہاوت، ضرب المثل یا محاورہ پوری کہانی بیان کر دیتا ہے۔ کہاوت اردو کا لفظ ہے اور ضرب المثل فارسی کا۔ معنی دونوں کے ایک ہی ہیں۔ کہاوت یا ضرب المثل کے پیچھے کوئی قصہ یا کہانی ہوتی ہے، جو بزرگوں اور بڑوں کی زندگی کا نچوڑ ہوتی ہے۔
البتہ محاورے کے پیچھے کوئی کہانی نہیں ہوتی۔ تحریر اور گفتگو کے دوران کہاوت یا ضرب المثل کا استعمال گفتگو اور تحریر کو موثر بنا دیتا ہے۔ کہاوتوں کو عوام اور خواص دونوں استعمال کرتے ہیں۔ تقریر و تحریر اور مجلسی گفتگو میں ان کا استعمال مطلب برآری میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے ضرب المثل اور کہاوت میں ہلکا سا فرق بتایا ہے۔
ان کے مطابق ’’ ضرب المثل کا تعلق بالخصوص تعلیم یافتہ یا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے ہے جب کہ لفظ کہاوت کا تعلق عوام یا پورے سماج سے ہے۔ کسی جاہل، ان پڑھ، کم تعلیم یافتہ اور دیہاتی شخص کے منہ سے عام طور پر ضرب المثل سننے کو نہیں ملے گی، جب کہ لفظ کہاوت کم تعلیم یافتہ، ان پڑھ، جاہل، گنوار، شیدی، دیہاتی وغیرہ ہر طبقے میں رائج ہے۔‘‘
میں ڈاکٹر شریف قریشی کی بات سے اتفاق نہیں کرتی، محاورہ کے پیچھے کوئی کہانی نہیں ہوتی بلکہ یہ وہ فعل مرکب ہے جو مخصوص معنی میں بلاتغیر اسی ترکیب کے ساتھ بولا جائے جیساکہ اہل زبان بولتے ہیں۔ مثلاً نو دو گیارہ ہونا، غم کھانا، زندہ درگور ہونا وغیرہ۔ کہاوت اصل میں سنسکرت کا لفظ ہے جو اردو اور ہندی دونوں میں مستعمل ہے۔ ہر کہاوت کسی نہ کسی تہذیبی، سماجی، لسانی، تاریخی یا واقعاتی پس منظر کی حامل ہوتی ہے۔
بعض روز مرہ کی گفتگو میں کہاوت کو وہی اہمیت حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو۔ اگر کھانے میں نمک نہ ہو تو وہ بے مزہ ہوگا، گویا لطف کلام کے لیے کہاوتوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ زبان و ادب میں کہاوتیں اور ضرب الامثال موقع و محل کے لحاظ سے نمکینی اور شیرینی دونوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں بذلہ سنجی کے جواہر، دانش مندی کے خزانے اور انسانی تجربات کے بیش بہا گوہر پنہاں ہیں۔ کہاوتیں کسی کارخانے میں نہیں ڈھلتیں، کوئی فرد واحد یا ادارہ انھیں وضع نہیں کرتا، یہ سینہ بہ سینہ اور پھر کتابوں کے ذریعے اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہیں۔
یہ وہ سدابہار پودے اور پھول ہیں جو ہر موسم میں اور ہر جگہ کھلتے اور پنپتے ہیں، یہ ایسے تراشیدہ موتی ہیں جو صدیوں تک تراش خراش کے عمل سے گزر کر رواج اور چلن تراشیدہ ہیروں کی طرح چمکنے لگتے ہیں، لیکن کہاوت اور ضرب المثل کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ اسے موقع محل کے لحاظ سے استعمال کیا جائے۔ شرط یہی ہے کہ ہمیں موقع و محل کے لحاظ سے ایسی کہاوتیں یاد ہونی چاہئیں جن کے استعمال سے لمبی چوڑی تقریر یا تحریر کے بجائے اختصار سے کام چلایا جاسکے۔ ان کے استعمال سے تحریر میں اور گفتگو میں زور پیدا ہوتا ہے۔
آج کے کالم میں بہت سی مانوس کہاوتیں قارئین کی نذر ہیں۔ یہ وہ کہاوتیں ہیں جن کے استعمال سے عبارت اور گفتگو کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ آج ہم ایسی ہی کہاوتوں کو موضوع بنائیں گے جن کے پیچھے کوئی واقعہ یا قصہ موجود ہو۔ ویسے تو ہر کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی قصہ ہوتا ہے لیکن ہماری مراد ان کہاوتوں سے ہے جن کے قصے عوام میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں، جب کہ وہ ان کا استعمال عموماً کرتے ہیں۔
(1)۔ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ (یعنی ابھی دلی دور ہے)
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب حصول مقصد ابھی بہت دور ہو، یعنی منزل مقصود ابھی دور ہو۔ یہ وہ جملہ تھا جو حضرت نظام الدین اولیا کے منہ سے نکلا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق بظاہر سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا سے کچھ کہتا سنتا نہ تھا، لیکن باطن میں وہ ان سے ازحد پرخاش رکھتا تھا، اسے دلی میں ان کا وجود گوارا نہ تھا، وہ ان سے حد درجہ عداوت بھی رکھتا تھا، چنانچہ جب وہ بنگال کی مہم سے واپس دلی آرہا تھا تو اس نے ایک قاصد کے ذریعے حضرت نظام الدین اولیا کو یہ پیغام بھجوایا کہ ’’آپ میرے پہنچنے سے پہلے دلی خالی کر دیں اور کہیں اور چلے جائیں اور اپنے مسکن غیاث پور سے بھی ہاتھ اٹھا لیں۔‘‘ جب قاصد یہ پیغام لے کر ان کے حضور پہنچا تو وہ کسی اور ہی عالم میں بیٹھے تھے۔
آپ نے پیغام سن کر فوراً صرف یہ جملہ کہا ’’بابا۔۔۔۔ ہنوز دلی دور است۔‘‘ یعنی ابھی دلی دور ہے۔ سلطان غیاث الدین چونکہ بنگال کی مہم سے کامیاب لوٹا تھا اس لیے اس کے بیٹے جونا خان نے افغان پور میں باپ کے خیر مقدم کے لیے جلدی جلدی لکڑی کا ایک محل تعمیر کروایا اور باپ کو وہاں ٹھیرنے کو کہا، لیکن جوں ہی سلطان اپنے ہاتھی پہ سوار ہو کر محل میں داخل ہونے لگا، محل گر پڑا، ہاتھی مچل گئے اور سلطان غیاث الدین اسی محل کے نیچے دب کر مر گیا۔
(2)۔ ’’ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘‘
آج کی نسل تو جانتی بھی نہیں ہوگی کہ ’’چھینکا‘‘ کیا ہوتا ہے۔ دراصل پہلے جب فریج نہیں تھے تو لوہے کے تاروں سے ایک برتن بنایا جاتا تھا، جو جال نما ہوتا تھا، اس میں تین کنڈے لگے ہوتے تھے اور تینوں کنڈے یکجا کرکے ایک مڑے ہوئے کنڈے میں پھنسا دیے جاتے تھے، خاتون خانہ رات کو دودھ جوش کر کے پتیلی چھینکے میں رکھ کر اسے الگنی میں ٹانگ دیتی تھیں تاکہ دودھ بلّی سے محفوظ رہے۔
ایک دن دودھ کی پتیلی چھینکے میں رکھتے ہوئے چھینکا ٹوٹ گیا، پتیلی کا سارا دودھ فرش پہ گر پڑا جسے گھر میں پلی بلّی نے جلدی جلدی ہڑپ کر لیا، یہ دیکھ کر خاتون خانہ نے برملا کہا ’’اونہہ۔۔۔ ۔بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘‘ یعنی بلی کی قسمت سے چھینکا ٹوٹا اور دودھ گر گیا۔ یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی ایک کا نقصان ہو، لیکن وہی نقصان کسی دوسرے کا فائدہ بن جائے۔
(3)۔ ’’ چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔‘‘
ایک شخص کا کچھ قیمتی مال چوری ہوگیا، وہ فریاد لے کر قاضی شہر کے پاس پہنچا اور سارا حال کہا، قاضی صاحب نے کہا کہ اسے کن لوگوں پہ شبہ ہے، ان کے نام بتائے۔ اس شخص نے چھ سات نام بتا دیے۔ اگلے دن قاضی صاحب نے ان تمام لوگوں کو اپنی عدالت میں بلا کر کھڑا کر دیا، سب کو باری باری دیکھتے رہے، پھر بولے میں دیکھ رہا ہوں کہ چور کی ڈاڑھی میں تنکا ہے۔
یہ سنتے ہی چور نے اپنی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ قاضی صاحب نے ملازم کو اشارہ کیا کہ اس شخص کو پکڑ لو۔ بعد میں اس شخص کا چوری کا مال بھی برآمد ہو گیا۔ یہ مثل اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص قصور وار ہو اور خود کوئی ایسی حرکت کر دے کہ اس کا جرم ثابت ہو جائے۔
(جاری ہے)
[ad_2]
Source link