[ad_1]
دیکھیے، سوچیے، غورئیے تو اپنے پاس باقی تو سب کچھ ہے بلکہ بہت کچھ ہے صرف ایک چیز نہیں ہے، اس ایک چیز کانام لینے سے پہلے ایک تو اکبر الہ آبادی کا وہ مشہورومعروف شعرپڑھئے جو انھوں نے اپنے وقت کی معروف ومصروف طوائف گوہربائی کی فرمائش پر کہاتھا، گوہربائی نے ان سے فرمائش کی تھی کہ میرے بارے میں کوئی شعر کہئے تو اکبرالہ آبادی نے اسی وقت ارشاد فرمایا کہ
خوش نصیب اور یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
شوہر برباد پر ایک اورحقیقہ یاد آیا کسی نے مولانا محمد علی جوہرسے پوچھا کہ آپ کا تخلص جوہر ہے، دوسرے بھائی کاگوہرلیکن سنا ہے کہ آپ کا ایک تیسرا بھائی بھی ہے ان کاتخلص کیاہے؟ مولانا جوہر بولے، اس کاتخلص شوہر ہے کیوں کہ وہ شاعری نہیں کرتے صرف شوہری کرتے ہیں ۔
شوہر لوگ اکثر ’’ شوفر‘‘ بھی ہوتے ہیں اس لیے ایک حقیقہ شوفر کا … ایک شخص جو بس ڈرائیور تھا اس سے کسی نے پوچھا کہ آپ ڈرائیوری کے علاوہ اورکیا کرتے ہیں، بولا کچھ بھی نہیں، آٹھ گھنٹے تو میں مالک کی ’’بس‘‘ میں ہوتا ہوں اور باقی بیوی کے بس میں۔
ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہم پاکستانیوں کو خدا نے باقی سب کچھ دے رکھا ہے صرف ایک چیز کے سوا۔ ایک اورلطیفہ دم ہلانے لگا ہے، اس سے بھی نمٹ لیتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقے کے ایک خان کا قصہ ہے، ایک دن وہ اپنے مداحوں کو بتا رہے تھے کہ بھئی! باقی تو سب کچھ کرتے ہیں ، جم کر سحری کرتے ہیں اوربڑے اہتمام سے افطاری بھی کرتے ہیں، ایک دونمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تراویح بھی کرلیتے ہیں لیکن صرف روزہ نہیں رکھ پاتے تو کیا ہوا؟
ہم پاکستانیوں کے پاس بھی سب کچھ ہے ، ہر ہرچیز کے لیے محکمے ہیں، دفاتر ہیں ،افسر ہیں، نوکر چاکر ہیں، وزیر ہیں مشیر ہیں بلکہ معاون خصوصی بھی ہیں ۔
ایسے میں کیا ہوا اگر حکومت نہیں ہے بلکہ حکومت کے سارے لوازم بھی ہیں وزیروں، مشیروں اور معاونوں کے علاوہ اسمبلیاں ہیں،سینیٹ ہے، کوئی نوہزار نو سو نوے اقسام کی کمیٹیاں ہیں اورسب سے بڑھ کر وہ امرت دھارا جنھیں منتخب نمایندے کہا جاتا ہے ، بھی ہیں، ایسے میں اگر حکومت نہیں ہے تو کیا یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں
اک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اورتو کوئی بات نہیں
ارے ہاں اس عظیم الشان نعمت کاذکر کرنا تو ہم بھول گئے ، جو اس وقت اس ملک میں اتنی زیادہ ہے کہ ہم ڈر رہے ہیں کہ اس کی بہتات سے یہ ملک کسی غبارے کی طرح پھٹ نہ جائے اوروہ نعمت عظمیٰ ہے ، جان بچانے والے ڈاکٹر ، اسپتال ، کلینک اوردوائیں۔
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
اس نعمت عظمیٰ کی بہتات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جہاں جہاں آبادیاں نہیں ہیں لیکن مستقبل قریب وبعید میں آباد ہونے کی امید ہے وہاں بھی دس پندرہ ماہرین آٹھ دس دواؤں کی دکانیں اورایکسرے لیبارٹریاں قائم ہوچکی ہیں۔ ایک بہت پرانا محاورہ ہے کہ ابھی بستی بسی نہیں ہے کہ ڈاکو پہلے آگئے ، اس محاورے بلکہ اس کے ایک لفظ میں تھوڑی سی ترمیم ہونے والی ہے۔
ایک حکایت قربانی کی کھالوں سے متعلق بھی ہے لیکن اسے ہم بیان نہیں کریں گے کہ ابھی ہمیں ’’مرن دا شوق‘‘ نہیں بس اتنا سمجھ لیئجے کہ ہمارے ملک میں جب پہلی قربانی کا اہتمام ہونے جا رہا تھا تو ابھی قربانی کی تقریب ہوئی بھی نہیں تھی کہ کھالوں کے مستحقین نے وہاں خیمے گاڑ دیے تھے۔
یہ بات ابھی تک کسی کی سمجھ نہیں آئی ہے کہ جب یہ ڈاکٹر ، اسپتال کلینک دواؤں کی دکانیں اورلیبارٹریاں نہیں تھیں تو کہیں خال خال کوئی بیمار ہوتا تھا جو سبز چائے، جو شاندے یا کاڑے سے بھلاچنگا ہوجاتاتھا چنانچہ دانا دانشوروں میں ابھی تک یہ سوال بے جواب ہے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی تھی یاانڈہ پیداہواتھا کہ اب اس کے ساتھ یہ سوال بھی شامل ہوگیا ہے کہ پہلے مرض پیدا ہوا تھا یامعالج، پہلے بیماریوں نے انسانوں پر حملہ کیا تھا یادواؤں نے ؟لیکن ایک بات یقینی ہے کہ علاج معالجے کی اس بہتات کی وجہ سے اب کوئی بھی کسی مرض سے نہیں مرے گا بلکہ …خیر چھوڑئیے ۔
ہم بات یہ کررہے تھے کہ پاکستان میں سب کچھ کی بہتات ہے صرف حکومت نہیں ہے اوریہ سب کچھ جو نظر آرہا ہے اسی ایک ’’وجہ‘‘ سے ہے اسی ایک چیز کی کمی نے ہرہرچیز میں بے پناہ ’’برکت‘‘ بھری ہوئی ہے ؎
سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے یہ حالت بھی خوب ہے
’’گینگسٹری ‘‘ کا نام حکومت بھی خوب ہے
[ad_2]
Source link