[ad_1]
نہ آہ کی ٹیسیں تھم رہی ہیں نہ عمر رفتگان دکھوں سے آزاد ہو رہی ہے، کچھ دنوں پہلے ہی تو ہم اپنے عزیز تر لطیفی سروں کے عاشق اور اپنے صحافتی سفرکے راہی ’’ بھاؤ زلف‘‘ کو مٹی ماں کے حوالے کر کے لوٹے تھے کہ پھر سے تمام دوستوں پر میرے سندھ کے جان جوکھ اورکاہوڑی صحافی اسحاق منگریو کی اچانک رخصتی کا پہاڑ ٹوٹ گیا، دوست غموں سے ہی نہ نکلے تھے کہ صبح ہی ایک اور دکھ کی خبر نے دبوچ لیا کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم ترقی پسند مزدور رہنما اور پائلرکے بانی کرامت علی بھی دنیا سے روٹھ کر چلے گئے۔
کس کس کا ماتم کیا جائے اور کس طرح مسلسل دکھوں کو برداشت کیا جائے؟ اب ملک کی ساٹھ برس کے بعد کی اس نسل کا حسرت بھرا یہ سوال سب کی زبان پر ہے کہ ترقی پسند سوچ اور سنجیدہ سیاست کی نسل عنقا ہوتی جا رہی ہے یا رخت سفرکی جانب گامزن ہے، جس کے نہ ہونے سے سماج میں اب سیاسی، اخلاقی اور ذہنی پستی پنپ کرگنڈاسے اور غیر شائستگی کی جانب بڑھ رہی ہے جو ازخود ایک تکلیف دہ اور غور طلب لمحہ ہے،
سیاسی، تخلیقی، اخلاقی اور روشن خیال روایتوں کے چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں جبکہ سماج میں نفرت اور رسہ کشی کی طنابیں طویل سے طویل تر ہو کر سماج میں غیر شائستہ اور برداشت نہ کرنے کے عمل میں مزید بے راہ رو ہوکر ببول کے کانٹے بو رہی ہیں، یہ وہ لمحات ہیں جب سب ساٹھ کی دہائی گزارکر سماج کو سدھارنے کی حسرتوں کو ملیا میٹ ہوتا دیکھ رہے ہیں، نجانے کس گھڑی کون چلا جائے کچھ نہ اندازہ ہے نہ خبر، بس صرف افسوس اور یادوں کے سوا دوستوں اور روشن خیال سماج کا خواب دیکھنے والی نسل کے ہاتھ خالی خالی ہی لگتے ہیں۔ بقول غالب۔
خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک
میں اب تک اپنے عزیزتر یار زلف پیرزادہ کے دکھ کو ٹال مٹول کر کے اظہار سے روکے ہوئے تھا گوکہ مجھے وہ لمحہ اب تک یاد ہے کہ شاہ محمد پیرزادہ کی رہنمائی کے طفیل میں فوری طور سے بھاؤ زلف کے اس پر سکون چہرے کو دیکھ پایا جو سندھوکی اجرک میں لٹل ماسکو ’’ بلھڑیجی‘‘ کی جانب رواں دواں ہو رہا تھا، بھاؤ زلف کے سرہانے زرار پیرزادہ اور بابا بیٹھے گویا بھاؤ زلف کی چاروں بیٹیوں کو دلاسہ دینے کے لیے مستعد تھے اور چاروں بیٹیاں اپنے ترقی پسند باپ بھاؤ زلف کا زور بازو بنی اردگرد تھیں جبکہ بھاؤ زلف کے حوصلوں اور نظریات کی ہم سفر خالدہ سب یادیں سمیٹے بہادری کے ساتھ بھاؤ زلف کو رخصت کررہی تھی۔
حیدرآباد میں داخل ہوتے ہوئے مجھے ہمیشہ اسحاق منگریوکا ہنستا مسکراتا اور قہقہے لگاتا کھِلتا چہرہ یاد ہے، اسحاق منگریو دوستوں کی محفل کا جہاں سنجیدہ وہیں بلا کا ٹھٹھے باز بھی تھا، میں رشید راجڑ، بھاؤ زلف، اقبال ملاح اور اسحاق منگریو رات بھر جامشورو کے گاؤں راجڑ میں قہقہوں اور راگوں کے درمیان گزارتے اور تازہ دم ہوکر اپنے اپنے گھر کو ہو لیتے، بیتے لمحے جہاں عذاب ہوتے وہیں وہ روح میں یادوں کے چراغ جلا جاتے ہیں، ہماری سوشلسٹ تحریک کے جانے مانے سانگھڑ کے کامریڈ دوست ناصر منصور نے اسحاق منگریو کے سانگھڑ کے روز و شب کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے کہ ’’ اسحاق سے تعلق چھیالیس سال پرانا ہے۔ مکھی ڈنڈھ ( سانگھڑ کے قریب قدرتی جھیل) کے کنول کی طرح ہر لحظہ ہنستا چہرہ اور سینہ پہاڑ قہقہہ اس کی پہچان تھا۔
میری سیاسی دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب اسحاق تازہ تازہ جئے سندھ اسٹوڈنٹ فیڈریشن ( آرگنائزنگ کمیٹی) سے کسی حد تک وابستہ تھا۔ کتاب اور اخبار اس کے وجود کا لازمی جز تھا۔ سیاسی سفر میں وہ ہمارے ساتھ پاکستان سوشلسٹ پارٹی میں آ شامل ہوا۔ اسحاق منگریو دل و دماغ کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک سچا اشتراکی، زمین سے جڑا دانشور تھا۔کیا تحرک تھا اس کی آتما میں،کبھی چین سے نہیں بیٹھا۔ نیشنل یوتھ لیگ کو متحرک کرنا ہو یا پھر ہاریوں میں اس کی قیادت میں بنائی جانے والی سندھ ہاری تنظیم کے لیے گوٹھ گوٹھ رابطے، اسحاق مٹی میں مٹی ملا دکھائی دیا۔ جھول کے قریبی گاؤں ابھ پور میں زبردست ہاری کانفرنس کا انعقاد اس کی تنظیمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
شاید چار دہائی پہلے کی بات ہے تھر میں بد ترین قحط پڑا، سانگھڑ میں پارٹی کی زیر قیادت دوستوں نے امدادی کیمپ لگائے، قحط متاثرین تک امداد پہنچانے کا ذمہ اسحاق ہی کے حصہ میں آیا۔ ہنستے مسکراتے اور دل کش چہرے کے پیچھے چھپے دکھ کو اس کے دوست ہی جانتے تھے۔ ایک بار اسے بکھرتا اور سنبھلتا اس وقت دیکھا جب اس کا جوان سال نہایت وجیہہ بھائی جو سندھ یونیورسٹی کا ہونہار طالب علم تھا، اپنڈیکس پھٹنے کی وجہ سے جان کی بازی ہارگیا۔ پھر دوسری بار اس کا کلیجہ پھٹتا اس وقت دیکھا جب اس کا جوان بیٹا بوڑھے باپ کو چھوڑ چلا گیا لیکن اس نے کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔
مرے روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھ
مرا مجلسی تبسم میرا ترجمان نہیں
وہ سیاست کے ساتھ ساتھ لٹریچر کا بھی بندہ تھا، اسی لیے بلا کا حسن پرست تھا۔ زندگی سے پیار اور غموں کو پینے کا اگر حوصلہ دیکھا تو اپنے قریبی حلقے میں اسحاق ہی کو اس ضمن میں نہایت نمایاں پایا۔ جوانی کے دنوں میں ملنے والوں سے جس وارفتگی سے گلے لگاتا سارا پیار چھین لیتا، جیت لیتا۔ اسحاق سے گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ کام کے دائرے مختلف ہونے اور بہت سی دوریوں کے باوجود اسحاق سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ اسی خلوص سے ملا جیسے ہم 1978 میں ملا کرتے تھے۔
اسحاق نے کچھ عرصہ تعمیراتی شعبے میں بھی کام کیا لیکن یہ اس کے مزاج کا حصہ نہ بن سکا۔ اسحاق کب متحرک سیاست کی کشتی چھوڑ صحافت کی کشتی پر سوار ہوا کچھ پتہ اس لیے بھی نہیں چلا کہ کراچی آنے کے بعد آہستہ آہستہ رابطے کمزور ہوتے چلے گئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسحاق کے کام نے بولنا شروع کیا وہ سندھی صحافت میں ایک سنجیدہ اور معتبر نام بن کر ابھرا۔ اپنے صحافتی پروفیشن سے ایقان کی حد تک لگاؤ نے اسے مایا جال میں کبھی بھی پھنسنے نہیں دیا۔ صوفی اورکمیونسٹ کی سی درویشی ساری زندگی اس کی شخصیت کا خاصا رہی۔
اسحاق نے جو لکھا خوب سوچ سمجھ کر لکھا، لفظوں کی حرمت کی پاسداری نوجوان صحافی اسحاق کی تحریروں سے پاتے رہے ہیں اور پاتے رہیں گے۔ مکھی ڈنڈھ کے اس کنول کی خوبصورتی اور دلکشی ہمیشہ ہم سب کے تصورات میں زندہ رہے گی۔ مجھے وہ رات نہیں بھولتی جب پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری اور صحافتی آزادی کے لیے کوڑے کھانے ایسی صعوبتوں کو جھیلنے والے ناصر زیدی اپنے ملتان کے متحرک سیاسی کارکن کرامت علی کی طبیعت کی ناسازی پر تڑپ گئے تھے۔
ناصر زیدی کو ان کی صحافتی جدوجہد پر احفاظ الرحمن یادگاری ایوارڈ کی خوشی سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ کسی طرح وہ اپنے سیاسی ساتھی کرامت علی کے گھر پہنچ جائیں، اس دوران ہم دونوں میں طویل سفرکی تمام سختیاں اور راستوں کی پوچھ گچھ بے سود ہوگئی جب ہم کرامت علی کے گھر رات کے پچھلے پہر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
کرامت اپنے اور دوستوں کے محسن تحسین کے ہمراہ بستر سے اٹھے اور ناصر زیدی سے جی بھر کے ملے، اس دوران لاہور کے تحسین، ناصر زیدی اور کرامت کی گفتگو میں دل کش لقمے دیتے رہے اور محفل کو زعفران بناتے رہے، ناصر زیدی اور تحسین کی طلبا اور تحریکی دور کی یادوں نے ایسا سماں باندھا کہ سب کے درمیان صرف دور تھے، باتیں تھیں، وعدے تھے اور ایک دوسرے کے حوصلے بلند کرنے کی تلقین تھی، یوں یہ محفل رات گئے صرف اس وجہ سے ملتوی کرنی پڑی کہ کرامت علی تھوڑا آرام کر لیں۔
کرامت کا باہر تک چھوڑ کے آنے کا وہ طور نہیں بھولتا جب وہ ناصر زیدی سے وعدہ لے رہا تھا کہ آپ نے اب یہاں آنا ہے، ٹہرنا ہے اور ہم سب خوب خوب باتیں کریں گے بس… میں نجانے ناصر زیدی کو کس طرح مطلع کرسکا کہ کرامت علی ان کا انتظار کرتے کرتے چلا گیا، جنازے کے دوران میرا دکھ اس لمحے دہرا تھا کہ کرامت علی کے جنازے کے ساتھ ہی میرے کڑیل جوان نواسے مرتضیٰ رضوی کا جنازہ بھی کرامت کے ساتھ وادی حسین روانہ ہورہا تھا اور سب سوگواران صرف سسک اور بلک رہے تھے۔
[ad_2]
Source link