[ad_1]
برصغیر کی آزادی میں شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کا اہم کردار ہے ۔ سرسید احمد خان سے لے کر مولانا محمد علی جوہر، علامہ محمد اقبال، حسرت موہانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، شورش کاشمیری اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنے کلام اور تحاریر کے ذریعے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
خوش قسمتی سے خاکسار کو شعر کہنے کا ہی نہیں سننے کا بھی شوق ہے جن موجودہ شاعروں سے میں بہت متاثر ہوں ان میں خیال آفاقی کا نام بھی شامل ہے۔ ادب کے مختلف شعبوں میں ان کا فکری اور علمی کام انتہائی وسیع اور پھیلا ہوا ہے ۔ شاعری میں غزلیات، نظمیات، آزاد نظمیں، حمدیہ کلام اور نعتیہ شاعری کے ایک درجن سے زیادہ دیوان ہیں، نثر میں ناول، افسانہ، ڈرامہ، تنقیدی مضامین، سوانح اور سفرنامہ اور پھر سب سے بڑا کار سعادت ’’رسول اعظمؐ‘‘ جیسی ناول نما سیرت کی باکمال کتاب ہے۔
آپ نے بچوں کے لیے ناول، نظمیں اور ٹی وی ڈرامے بھی لکھے۔ ناولوں کی تعداد کئی درجن ہے، ان میں ایک ناول ’’اے جذبہ دل گر تُو چاہے‘‘ محاکاتی انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایک طالب علم نے ہزارہ یونیورسٹی سے آپ کی ناول نگاری پر پی ایچ ڈی بھی کیا ہے۔ شاعری میں رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل کیا گیا ہے۔ نعت کی ایک کتاب ’’یا سیّدی‘‘ پر آپ کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
آپ کی کئی تصانیف پر آپ کو مختلف ایوارڈز اور تعریفی اسناد سے نوازا گیا ہے۔ آپ کی اصل شناخت اقبال شناسی ہے۔ علامہ اقبال کی داستان حیات کو ’’شاعر اسلام‘‘ کے عنوان سے اپنی مخصوص طرز نگارش کے ذریعے اس طرح ترتیب دیا کہ قاری شاعر اسلام کی شخصیت کا ایک تصویر کی طرح مشاہدہ کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ’’اذان اقبال‘‘ اور دوسری کتاب ’’نشان اقبال‘‘ علامہ کی شاعری اور ان کے افکار عالیہ کو قاری کے ذہن و فکر میں شہر کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے۔
آفاقی نے تمثیل کے انداز میں ڈھال کر بچوں کو علامہ اقبال کی مشفقانہ نصیحت و پند سے واضح طور پر متعارف کرایا ہے۔ آپ کا تحریر کردہ ’’سفرنامہ حجاز‘‘ آپ کی ایسی تحریر ہے جس کے ہر حرف سے عشق رسولؐ اور جذبۂ شوق، نور و سرور چھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ اپ کی ایک اور تصنیف ’’خدا دوست‘‘ اپنے والد گرامی، درویش صفت حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین نقشبندی مجددیؒ کی ایمان افروز سوانح ہے۔ نقد و نظر کے حوالے سے آپ کے لاتعداد مضامین ہیں لیکن ’’حد ِ ادب‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا پرمغز مجموعہ ہے۔
آفاقی صاحب کی تازہ کتاب ’’غبارِ جنوں‘‘ کا سارا کلام ہی علامہ اقبال کی چھاؤں میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خیال آفاقی کے دیگر شعری مجموعوں سے زیر نظر ’’غبارِ جنوں‘‘ کی شاعری آنکھ چراتی نظر نہیں آتی۔ آفاقی کے پہلے شعری مجموعے ’’شب نامہ‘‘ سے لے کر اس تازہ بارہویں شعری کتاب کے انداز سخن اور رنگ سخن میں وہی مناسبت اور فکر و خیال کا وہی تسلسل ہے جو آپ نے اپنے مرشد علامہ صاحب سے اکتساب کیا لہٰذا اس حقیقت کے پیش نظر ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خیال آفاقی اقبال شناس بھی ہیں اور انداز کار سخن میں بھی اقبال کے ہمنوا اور ہم رنگ ہیں۔ لہٰذا ان کی شاعری پر علامہ صاحب کا پرتو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ تازہ شعری مجموعے کا تمام تر کلام اقبالیات کا رنگ لیے ہوئے ہے، کہتے ہیں:
نمازی ہو کے بھی ہے بے نمازی
ترا قبلہ کدھر ہے، تُو کدھر ہے
چھپا رکھا ہے جو بُت آستیں میں
وہ خنجر سے بھی بڑھ کر تیز تر ہے
اسے کیا راہ میں لٹنے کا خطرہ
کہ جس کا راہزن ہی ہم سفر ہے
تعجب ہے اسے کہتے ہیں مجنوں
جسے بس ایک لیلیٰ کی خبر ہے
خیال آفاقی اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں کہ ایک طرف روحانی بزرگ والد محترم کے تربیت یافتہ اور روحانی فیض کے حامل ہیں تو دوسری طرف علامہ اقبال کو اپنا فکری مرشد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ بزرگوں کے فیض نے آپ کی شاعری میں معنویت، وسعت، حلاوت اور روانی پیدا کر دی ہے جو قاری کے دل کو لگتی ہے اور اسے بھی فیض عطا کرتی ہے۔ آفاقی کی شاعری صرف روحانی فیض کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں ہے معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام بیماریوں کا علاج بھی ہے اور مایوسیوں کو امیدوں اور نئی امنگوں میں بدلنے کا تیر بہ ہدف نسخہ بھی ہے۔
خیال آفاقی کے تازہ شعری مجموعے پر تذکرے کے بعد اب ہم آپ کے نئے ناول ’’زندہ روحیں‘‘ کی جانب آتے ہیں۔ اس ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم اور اس کی تباہ کاریاں ہیں۔ خصوصاً عالمی دہشت گرد امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر اپنی تاریخی دہشت گردی کا سفاکانہ مظاہرہ کیا تھا یعنی ایٹم بم برسا کر دونوں شہروں کو نیست و نابود یعنی صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ کیا امریکیوں کے اس گھناؤنے عمل نے یہ ثابت نہیں کر دیا تھا کہ ہٹلر ان سے لاکھ درجے بہتر تھا؟
[ad_2]
Source link