[ad_1]
ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی کرشمہ‘ کوئی معجزہ نہیں‘ میں دوائیں بھی بازار سے خریدتا ہوں‘ اپنی کوئی دواء نہیں بناتا اور نسخے بھی پرانے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ کا کرم ہے لوگوں کو مجھ سے شفاء ہو جاتی ہے‘‘میں نے پوچھا ’’لیکن کیسے؟ اگر ساری چیزیں نارمل ہیں‘ آپ کی اسٹڈی بھی نارمل ہے‘ ادویات بھی مارکیٹ کی ہیں اور آپ خود بھی مکمل دنیا دار ہیں تو پھر لوگ آپ پر مکھیوں کی طرح کیوں گر رہے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے ہنس کر جواب دیا ’’میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں اور مجھے عموماً اس کے دو ہی جواب ملتے ہیں‘ ایک‘ یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے‘ اﷲ جس پر کرم کرتا ہے اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوسراشاید توجہ کا ہنر ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
مجھے ان کے دوسرے جواب نے زیادہ حیران کیا‘ میری حیرت کی وجہ کیا تھی؟ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا لیکن میں اس سے قبل آپ کو ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتاتا چلوں‘ڈاکٹر صاحب ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے اور پورے پاکستان سے مریض مکھیوں کی طرح ان پر گرتے تھے‘ کلینک ایک بڑے ہال پر مشتمل تھا‘ مریض لائنوں میں لگ کر کرسیوں پر بیٹھ جاتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب ریوالونگ چیئر پر بیٹھ جاتے تھے‘ پاؤں سے کرسی کھینچ کر ایک مریض کے سامنے آتے تھے‘ اپنا کان مریض کے منہ کے ساتھ لگا دیتے تھے‘ مریض اپنا مسئلہ بیان کرتا تھا‘ ڈاکٹر صاحب دوائی لکھ کر کاغذ اپنے اسسٹنٹ کو دے دیتے تھے‘ مریض سے فیس لے کر رقم دوسرے اسسٹنٹ کے حوالے کرتے تھے اور پھر کرسی کھسکا کر دوسرے مریض کے سامنے پہنچ جاتے تھے‘ وہ اس طرح پورے ہال کا چکر لگاتے تھے اور یہ چکر صرف ایک نہیں ہوتا تھا‘ ڈاکٹر صاحب کو دس دس مرتبہ پورے ہال کا چکر لگانا پڑتا تھا۔
مجھے میرے ایک بزرگ دوست ان کے پاس لے گئے تھے‘ میں نے بھی یہ منظر دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ ہم سارا دن ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہے‘ وہ شام کو فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے ساتھ چائے پی‘ میں نے چائے کے دوران ڈاکٹر صاحب سے کام یابی کا فارمولا پوچھا اور ان کے ساتھ گفتگو شروع ہو گئی اور یہ گفتگو ’’توجہ‘‘ پر آ کر رک گئی‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’مجھ پر اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم ہے‘ اس نے میرا پردہ رکھا ہوا ہے‘ دوسرا میں مریضوں کی بات توجہ سے سنتا ہوں‘ میں کرسی کھسکا کر مریض کے قریب پہنچتا ہوں اور پوری توجہ سے اس کی بات سنتا ہوں‘ آنکھ تک نہیں جھپکتا‘ وہ جب تک بولتا رہتا ہے میں سنتا رہتا ہوں‘ میں اس دوران نوٹس لیتا ہوں اور نہ دواء لکھتا ہوں‘ یہ جب اپنی بات مکمل کر لیتا ہے تو میں اس سے ایک دو سوال کرتا ہوں اور ان کے جواب بھی مکمل توجہ اور یک سوئی سے سن کر دواء لکھ دیتا ہوں‘ میرے خیال میں میری توجہ کے دوران ہی مریض آدھا ٹھیک ہو جاتا ہے اور باقی آدھا دوا اور اﷲ کے کرم سے درست ہو جاتا ہے اور یوں میرا کام چل رہا ہے‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا ’’ توجہ کے اندر کیا راز چھپا ہوا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے‘ توجہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے‘ آپ سوشل میڈیا کو دیکھ لو‘فیس بک‘ یوٹیوب‘ انسٹا گرام‘ ٹویٹر‘واٹس ایپ اور ٹک ٹاک 10 کھرب ڈالر کی انڈسٹری ہیں‘ آپ اگر اس میں ٹیلی ویژن کو بھی شامل کر لیں تو یہ دنیا کی سب سے مہنگی انڈسٹری بن جائے گی باقی تمام انڈسٹریز ان کے سامنے چڑیا کا انڈہ محسوس ہوں گی اور اس سوشل میڈیا انڈسٹری کی روح کیا ہے؟ توجہ‘ یہ پوری انڈسٹری صرف توجہ سے چل رہی ہے‘ اس کا ایلگوردھم چوبیس گھنٹے ناظرین کی توجہ تلاش کرتا رہتا ہے‘ فیس بک اگر دیکھنے والوں کی توجہ کھینچنے میں کام یاب ہو جاتی ہے تو یہ نمبر ون ہو جاتی ہے اور اگر لوگ ٹک ٹاک میں گم ہو جاتے ہیں تو یہ اربوں ڈالر کما لیتی ہے اور اگر انسٹا گرام لوگوں کی توجہ حاصل کر لیتی ہے تو اس کا ریونیو بڑھ جاتا ہے‘۔
ٹیلی ویژن کی انڈسٹری بھی پاگلوں کی طرح توجہ کے پیچھے دوڑ رہی ہے جس اسکرین کو زیادہ لوگ دیکھ رہے ہیں اس کی ویلیو میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جس کو کم دیکھا جاتا ہے وہ ریس سے آؤٹ ہو جاتا ہے‘ آپ اس کو بھی چھوڑیں آپ اﷲ تعالیٰ کو لے لیں‘ ہم خدا سے کیا مانگتے ہیں؟ ہم اس کی توجہ ڈیمانڈ کرتے ہیں اور اس توجہ کے لیے ہم روزانہ نماز بھی پڑھتے ہیں‘ تسبیح بھی کرتے ہیں‘ روزے بھی رکھتے ہیں‘ حج بھی ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں‘ہم خدا کی توجہ کے لیے ہزار‘ ہزار نفل پڑھتے ہیں اور نیکی کے کام بھی کرتے ہیں‘ ہماری ان عبادات اور ان ریاضتوں کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ صرف توجہ الٰہی‘ اﷲ تعالیٰ ہماری طرف متوجہ ہو جائے اور ہمارا بیڑا پار ہو جائے‘ توجہ اتنی قیمتی ہوتی ہے۔
آپ اس کو بھی چھوڑدیں‘ ہم روز سج دھج کر گھر سے کیوں نکلتے ہیں؟ اسٹوڈنٹ کلاس روم میں ٹیچر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے؟ لڑکیاں لڑکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا بندوبست کرتی ہیں اور لڑکے بھی لڑکیوں کو متوجہ کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے؟ ماتحت اپنے باس کو خوش کرنے کے لیے کیا نہیں کرتے اور باس اپنے باس کی توجہ کے لیے کس کس مرحلے سے نہیں گزرتے‘ سیاست دان عوام کی توجہ کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے اور حتیٰ کہ بے چارے پالتو جانوروں کو بھی اپنے مالک کی توجہ کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا؟ فلم سازوں‘ موسیقاروں‘ گلوکاروں‘ اداکاروں‘ صداکاروں‘ لکھاریوں اور مصور بے چاروں کو بھی توجہ کے لیے کیا کیا دکھ نہیں سہنا پڑتے؟ آپ ایڈورٹائزنگ کی انڈسٹری بھی دیکھ لیں‘ اس میں بھی لوگوں کی توجہ کے لیے کیا کیا نہیں کیا جاتا لہٰذا اگر کہا جائے دنیا میں جو بھی ہے وہ سب توجہ کا کھیل ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا اور میں اپنے مریضوں کو دنیا کی یہ قیمتی ترین چیز دیتا ہوں‘ میں ان کی داستان‘ ان کا دکھ پوری توجہ سے سنتا ہوں چناں چہ یہ ٹھیک ہو جاتے ہیں‘ ان کا درد اور بیماری کم ہو جاتی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ تھوڑی دیر رک کر بولے ’’آپ نے شاید یہ بات نوٹ نہیں کی‘ میں اپنے کلینک میں کسی شخص کو موبائل فون استعمال نہیں کرنے دیتا‘ اول مریض یہاں موبائل فون نہیں لا سکتے اور اگر لے آئیں تو پھر یہ اسے آف کر کے جیب میں رکھتے ہیں یا پھر بیگ کے اندر‘ میں کسی شخص کو موبائل فون ہاتھ میں بھی نہیں اٹھانے دیتا‘میں اپنا فون بھی صبح آٹھ سے نو‘ شام پانچ سے چھ اور رات نو سے دس بجے دیکھتا ہوں یعنی 24 گھنٹے میں صرف تین گھنٹے‘ میں اس کے علاوہ موبائل فون استعمال نہیں کرتا‘ میں ان تین گھنٹوں میں لوگوں کو رنگ بیک بھی کرتا ہوں‘ ان کے پیغامات کا جواب بھی دیتا ہوں اور دنیا بھر کی معلومات بھی اکٹھی کر لیتا ہوں‘ ان تین گھنٹوں کے علاوہ میری زندگی میں موبائل فون کی کوئی گنجائش نہیں اور آپ کو میرے اسٹاف کے پاس بھی موبائل نظر نہیں آئے گا‘ یہ صبح دفتر آ کر موبائل بند کر دیتے ہیں اور واپسی پر آن کر لیتے ہیں‘ یہ دن میں کسی بھی وقت موبائل فون نہیں کھول سکتے‘۔
ہمارے اس فارمولے کی وجہ سے بھی کلینک میں توجہ کا لیول بہت ہائی ہے‘مریض بھی یک سوئی سے بات کر سکتا ہے‘ میں بھی توجہ کے ساتھ اس کا مسئلہ سن سکتا ہوں اور میرا اسٹاف بھی اسے صحیح دواء دے دیتا ہے جب کہ دوسرے کلینکس میں ڈاکٹر بھی فون پر مصروف ہوتے ہیں‘ مریض کے فون کی گھنٹی بھی بجتی رہتی ہے اور کمپاؤنڈر اور نرسنگ اسٹاف بھی دوا پر توجہ دینے کے بجائے فون پر لگے ہوتے ہیں نتیجتاً مریضوں کو غلط ٹیکے لگ جاتے ہیں اور یہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں‘ حکومت اگر کلینکس اور اسپتالوں میں صرف فون کے استعمال پر پابندی لگا دے تو آپ یقین کریں مریضوں کی جان بھی بچ جائے گی اور یہ جلدی تندرست بھی ہو جائیں گے‘ ہماری ساری توجہ کیوں کہ فون پر ہوتی ہے لہٰذا ہمارے 90 فیصد فیصلے غلط ہو جاتے ہیں‘۔
آپ خود سوچیں خانساماں اگر فون کان سے لگا کر کھانا پکائے گا تو اس کے پکوان میں ذائقہ کیسے آئے گا؟ حجام بال کاٹتے وقت فون سنے گا تو اس کی کٹنگ اچھی کیسے ہو گی اور اگر ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت فون سنے گا تو وہ ٹھیک ڈرائیونگ کیسے کرے گا؟ میں نے یہ اینی شیٹو لیا‘ میں نے فون کو اپنی زندگی میں بھی محدود کر دیا اور اپنے کلینک میں بھی چناں چہ آپ اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘ میرے ہاتھ اور کلینک دونوں میں شفاء آ گئی‘ آپ بھی اگر توجہ کی برکت کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو فون کو محدود کر دیں اور اس کے بعد نتیجہ دیکھیں‘ آپ کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور سکون اور صحت میں بھی‘ آپ کو پھر سونے کے لیے دواء کی ضرورت نہیں پڑے گی‘ دوسرا آپ دوسروں کی بات توجہ سے سنا کریں‘ آپ کو زندگی میں کسی استاد یا یونیورسٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘ توجہ دنیا کا سب سے بڑا اثاثہ‘سب سے بڑا خزانہ ہے‘ آپ اسے استعمال کریں اور پھر اس معجزے کا رزلٹ دیکھیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘‘۔
[ad_2]
Source link