9

قربانی اور کھالوں کی مصنوعات

[ad_1]

عیدالاضحی کے موقع پر بھی اسرائیل کی دہشت گردی جاری رہی۔ بمباری ہوتی رہی اور غزہ کے جنوبی حصے میں اسرائیلی فوج ٹینکوں کے ذریعے حملہ کرتی رہی۔ طبی سہولیات کی عدم فراہمی، بھوک پیاس کے ساتھ ملبے کے ڈھیر پر غزہ، رفح، نصیرات، خان یونس اور دیگر مقامات کے فلسطینیوں نے نماز عیدالاضحی ادا کی۔

پاکستان میں بروز پیر عیدالاضحی کی نماز مذہبی جوش و خروش کے ساتھ ادا کرنے کے فوری بعد ملک بھر کے طول و عرض میں جانوروں کی قربانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سال 68 لاکھ جانور قربان کیے گئے جن کی مالیت 500 ارب روپے بتائی جا رہی ہے۔ یہ ایک ابتدائی اندازہ ہے جب کہ یہ تعداد 68 لاکھ سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور مالیت اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

ایک اور محتاط اندازہ لگایا گیا ہے جو زیادہ درست معلوم دے رہا ہے جس میں عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی مالیت اس کے ساتھ جڑی دیگر اقتصادی سرگرمیوں کی مالیت کل ملا کر 14 کھرب روپے کا لین دین بتایا جا رہا ہے۔ اس مالیاتی حجم کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹروں کی فیس جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ 15 سے 20 دنوں کے دوران وٹرنری ڈاکٹروں کی فیس 500 روپے سے 1500 روپے تک رہی اور 3 دن تک قصابوں کے وارے نیارے ہوگئے۔

فی بکرا کہیں 5 ہزار روپے، گائے 15 سے 20 ہزار روپے، اس طرح قصابوں کا کہنا تھا کہ یہ چند دن ہوتے ہیں پورے سال میں یہی ایک موقع ملتا ہے آپ لاکھ یا دو لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ کا بکرا خریدتے ہیں 10 سے 12 لاکھ کا بیل خریدتے ہیں، اس طرح قربانی کے جانور کے لیے لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں جس کے مقابلے میں ہم قربانی کا گوشت اس طرح ناپ تول کر بنائیں گے جو آپ کے ڈیپ فریزر میں فوراً سما جائے اور اپنی کمال مہارت کے ساتھ ہر حصے کا گوشت اس طرح بنا کر دیں گے کہ قربانی کرنے کا مزہ دوبالا ہو جائے۔ مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب موسمی قصائی دھنا دھن اس طرح بوٹیاں بناتے ہیں کہ سب کچھ خلط ملط ہو کر رہ جاتا ہے۔

بوٹی کے ساتھ ہڈی کی کرچیاں، چربی اور چھیچھڑے سب کچھ سمیت ایک ملغوبہ سا تیار کر دیتے ہیں۔ اس طرح قصائیوں کی بھی خوب جیب گرم ہوتی رہے اس کے بعد معاملہ آتا ہے ان بوٹیوں کو لذت گام دہن دینے کا کام جس کے ماہرین ملک بھر میں ’’ شیف‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ان دنوں خوب کمائی کر لیتے ہیں اور جب بھائی لوگ ان طرح طرح کے خوانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو کئی بزرگوں کو دیکھا گیا کہ ہڈی نما بوٹی اور دانتوں کی بتیسی کی ہی آپس میں ٹھن جاتی ہے ایسے موقع پر عموماً بڑے میاں کا ایک آدھ دانت داغ مفارقت دے جاتا ہے اور کئی افراد جن کی طبیعت بھی خراب ہو جاتی ہے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جہاں اکثر جیبوں کی قربانی بھی دینا پڑ جاتی ہے۔ آپ ان افراد کے مالی فائدے کو بھی مدنظر رکھیں۔

چلیے اب شروعات سے بات کرتے ہیں۔ لاکھوں کسان، کاشتکار اپنے کھیتوں، اپنی زمینوں، اپنی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں، اپنے باڑوں، یہاں تک کہ اپنے گھروں میں اب تو شہری علاقوں میں چھتوں پر ہی گائے بیل بکرے دنبے پالنے کا رواج چل نکلا ہے اور جب کوئی بیل تیار ہو جاتا ہے تو اسے منڈی پہنچانے کے لیے کرین کے ذریعے چھت سے اتارا جاتا ہے۔

اس طرح تقریباً ایک کروڑ سے کم مختلف اقسام کے جانور ملک کے طول و عرض میں قربانی کرنے یا اسے فروخت کرکے اتنا روپیہ کمانے کا کام عروج پر رہتا ہے اور پھر یہ تیار جانور اپنی جسامت اور اقسام اور دیگر خصوصیات کی بنا پر لاکھ روپے سے 30 سے 40 لاکھ روپے تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ لاکھ روپے تو صرف بکرے کے ہوتے ہیں جوکہ 8 سے 10 لاکھ روپے تک بھی بکے ہیں۔ اس طرح میرا اندازہ ہے کہ ملک کے طول و عرض کے دیہی علاقوں میں کسانوں، کاشتکاروں کو اس سال کم ازکم 8 سے 10کھرب روپے کے حجم کے ساتھ کسانوں میں اور اتنی بڑی رقم دیہی معیشت میں سرائیت کر گئی ہے جس کے انتہائی مفید اثرات ابھی سے مرتب ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اب چارہ لگانے والوں، اس پیداوار کو منڈی تک پہنچانے والے ٹرانسپورٹرز، پھر زمین پر محنت کرنے والے کاشتکاروں یا مزدوروں کی بات کریں تو ان کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہر شہر اور قصبے میں جگہ جگہ چارہ وغیرہ کی دکانیں نظر آتی رہیں۔ وہاں پر 4 سے 5 افراد ملازم ہوتے ہیں پھر اس کے ساتھ ہار، پھول اور دیگر اقسام کی اشیا جسے بچے خریدتے رہے اپنے بکروں کو گائے بیل اونٹوں کو سجاتے رہے ۔

کہا جاتا ہے کہ جانور رات کو آرام کرتا ہے، لیکن ملک کے مختلف شہروں کے باسیوں نے عجیب نظارہ دیکھا ہوگا کہ رات کے دو بجے ہوں یا رات کے 3 بج رہے ہوں بکرے ہوں، دنبے ہوں، گائے بیل ہوں یا اونٹ ہر عمر کے لڑکے حتیٰ کہ بچیاں اور کم عمر کی لڑکیاں تک انھیں لے کر گلیوں میں گھماتے پھراتے ہیں اور اگر آپ غور کریں آیندہ برس اگر اللہ نے چاہا تو دیکھیں گے کہ وہ بہت خوش خوش اگر بچے ساتھ لے کر دوڑ رہے ہیں تو وہ جانور بھی ان کے ساتھ انجوائے کر رہے ہیں اور ہلکی پھلکی دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں۔

اب باری آتی ہے ان کی کھالوں کی جن کی قیمت اس سال نسبتاً کم رہی تو اس کا فائدہ صنعتکاروں کو ہی ہوگا۔ گزشتہ سال جولائی سے مئی 2024 تک لیدر کی ایکسپورٹ سے پاکستان کو حاصل ہوئے 36 ارب 11 کروڑ روپے جب کہ جولائی تا مئی 23 تک 37 ارب 41 کروڑ روپے حاصل ہوئے تھے۔ اس مرتبہ اس میں مزید اضافہ ہو کر 40 ارب تک پہنچ سکتا ہے۔

اب لیدر مینوفیکچرنگ کی بات کرتے ہیں جوکہ ایک کھرب 41 ارب روپے کی برآمدات کے ساتھ نمایاں رہیں گزشتہ 11 ماہ کے مطابق جولائی 2023 سے مئی2024 تک کی یہ مالیت تھی جب کہ جولائی 22 سے مئی 23 تک ایک کھرب 26 ارب 35 کروڑ50 لاکھ روپے کی لیدر مینوفیکچرنگ کی برآمدات ہوئیں اور رواں مالی سال کے 11 ماہ میں پاکستان سے 32 ارب روپے کے لیدر فٹ ویئر ایکسپورٹ ہوئے۔

اس طرح سستی کھالیں اس مرتبہ صنعتکاروں کو ملی ہیں اس کا فائدہ اٹھائیں لیدر مصنوعات تھوڑی سستی کرکے ملکی صارفین اور غیر ملکی تاجروں کو فراہم کریں۔ مجھے امید ہے کہ اس مرتبہ کھالوں اور اس کی مصنوعات بنا کر پاکستان آیندہ مالی سال جون تک تقریباً 2 کھرب روپے سے زائد کی برآمدات کر سکتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں