8

امیرالمؤمنین سیدناعثمان ذوالنورینؓ ؛ سیرت و کردار، فضائل و مناقب، ارشادات

[ad_1]

سیرت و کردار، فضائل و مناقب، ارشادات ۔ فوٹو : فائل

سیرت و کردار، فضائل و مناقب، ارشادات ۔ فوٹو : فائل

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ ؓ کے پُرنور چہرہ پر چیچک کے نشانات تھے جب کہ آں موصوفؓ کی رنگت سفید مائل زردی تھی اور زلفیں کندھوں تک آئی ہوتی تھیں۔ آپؓ خاندان بنوامیہ سے تھے۔ ذہن میں رہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خواہش کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے عثمانی برادران (مولانا شبیر احمد عثمانی و مولانا ظفر احمد عثمانی) بھی سیدنا عثمانؓ کے خاندان سے تھے۔ اور قائداعظم محمد علی جناح کی وصیت کے مطابق ان کا جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانی ہی نے پڑھایا تھا۔

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپؓ، نبی ﷺ پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔ سیدنا عثمانؓ، نبی ﷺ کے دوہرے داماد تھے۔ نبی ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہ ؓ، سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ فاطمہؓ۔ نبی ﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے ہوا۔ سیدہ رقیہؓ سے سیدنا عثمانؓ کے فرزند حضرت عبداللہؓ پیدا ہوئے اور انہیں عبداللہؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کی کنیت ’’ابوعبداللہ‘‘ تھی۔ مروج الذہب کے مطابق ان عبداللہؓ بن عثمانؓ کا انتقال 76سال کی عمر میں ہوا۔ سیدنا عثمانؓ اور سیدہ رقیہؓ کے ان صاحب زادے اور نبی عیہ السلام کے نواسے جناب عبداللہؓ کی اولادد فی زمانہ بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں موجود ہے۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پر ملال کے بعد نبی ﷺنے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثومؓؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے کردیا۔ جب وہ بھی وفات پاگئیں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ: اگر میری چالیس بیٹیاں (ایک روایت کے مطابق سو) بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمانؓ کے نکاح میں دیتا جاتا۔ خیال رہے کہ حضرت عثمانؓ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمانؓ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دو نوروں (روشنیوں) والا‘‘ ہے۔

سیدنا عثمان ذوالنورینؓ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کی خلافت میں ہی ہوا، اور اس بغاوت کا سدباب سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے کئی علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور،شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آں محترمؓ کے دور میں ہی واصل نار ہوا۔ سیدنا عثمانؓ کے دورخلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔ بحری جہاد کی ابتدا کرنے والے لشکر کے لیے جنت کی خوش خبری نبی کریم ﷺ اپنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرماچکے تھے۔ ۲۷/۲۸ہجری میں امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کی اجازت سے اس وقت کے حاکم شام سیدنا معاویہؓ نے اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار کیا اور جزیرۂ قبرص سمیت کئی اہم خطوں پر پرچم اسلام لہرایا۔

سیدنا عثمانؓ شرم و حیا اور جودوسخا کے پیکر تھے۔ آپؓ نے کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شراب نوشی کی۔ آپؓ انتہائی نرم خو اور سخی تھے۔ متعدد مرتبہ نادار اور مجبور مسلمانوں کے لیے اپنا مال بغیر کسی قیمت کے فی سبیل اللہ خرچ کیا اور کئی دفعہ جہاد کے لیے مالی طور پر نبی ﷺ کی خدمت میں مال و زر پیش کیا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہؓ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: سخاوت جنت کا درخت ہے اور عثمانؓ اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں اور کمینگی جہنم کا درخت ہے اور ابوجہل اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی ہے (کنزالعمال)۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا نسبتاً زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا اسی اثناء میں علم ہوا کہ سیدنا عثمانؓ چلے آرہے ہیں تو رسول کریم ﷺ نے انتہائی عجلت میں کپڑا نیچے کردیا۔ سیدنا عثمانؓ کے جانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اس ضمن میں استفسار فرمایا تو آں حضورﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: کیا میں اْس سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں (مسلم)۔ سیدنا عثمانؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر کے موقع پر سیدنا عثمانؓ کی اہلیہ محترمہ دختر نبیؐ سیدہ رقیہ ؓ علیل تھیں، جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام نے خود سیدناعثمانؓ کو غزوہ بدر میں شرکت سے رخصت دی، مگر سیدنا عثمانؓ اس عدم شرکت کے باوجود فضائل و مناقب کے لحاظ سے شرکاء بدر میں شامل ہیں۔ آپؓ نے ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں میں شرکت فرمائی، اسی لیے آپؓ کو ذوالہجرتین (دو ہجرتوں والا) بھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عثمانؓ کا شمار مال دار صحابہؓ میں ہوتا تھا۔ آپؓ نے اپنے مال کو ہمیشہ اہل اسلام اور راہ باری تعالیٰ میں خرچ کیا اور اس ضمن میں ہمیشہ صف اول میں بھی سب سے آگے ہوا کرتے۔ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی پانی کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے بئر رومہ نامی کنواں خریدنا ہو یا غزوہ تبوک کے موقع پر بے سر وسامان صحابہؓ کے لشکر پر خرچ کرنے کا موقع ہو، ہر موقع پر سیدنا عثمانؓ نے اپنے اموال اللہ کی راہ میں بے دریغ نچھاور کیے۔ سیدنا عثمانؓ کے صالحانہ و بے لوث کردار اور خدمت اسلام کی وجہ سے ہی نبی علیہ السلام نے غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا کہ ’’آج کے بعد عثمانؓ پر ان کے کسی عمل کے سبب پکڑ نہ ہوگی۔‘‘

مسجد نبوی کی توسیع میں بھی سیدنا عثمانؓ کا مالی کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی چند لوگوں کو ہی معلوم ہوگی کہ اسلام میں سب سے پہلے سیدنا عثمانؓ نے حلوہ تیار فرمایا، جسے خَبِیْص کہا جاتا ہے جو کہ شہد، میدے/آٹے اور گھی سے تیار کیا گیا۔ سیدناعثمانؓ نے حلوہ تیار کرکے اسے نبی علیہ السلام کی خدمت میں، جو کہ اس وقت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کے گھر تشریف فرما تھے، پیش کیا تو نبی علیہ السلام نے حلوہ تناول فرما کر اس کی تعریف فرمائی اور استفسار فرمایا کہ کس نے بھیجا ہے؟ معلوم ہوا کہ عثمانؓ نے بھیجا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عثمانؓ کے ساتھ راضی ہونے کی دعا فرمائی۔

صلح حدیبیہ کے سال نبی علیہ السلام اپنے صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کے ارادہ سے جانب مکہ عازم سفر ہوئے مگر معلوم ہوا کہ کفار مکہ آپﷺ اور صحابہ کرامؓؓ کے عمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر گفت و شنید کے لیے مکہ بھیجا، جہاں کفار نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی افواہ اڑادی۔ اس پر نبی علیہ السلام کو انتہائی رنج و قلق ہوا اور آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل ناحق کا انتقام لینے کے لیے اپنے ساتھ موجود تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ سے فرداً فرداً بیعت لی، اسے بیعت رضوان کہا جاتاہے۔ بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی ﷺ نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمانؓ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے انؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمانؓ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔ نبی ﷺ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں (یعنی خلافت سے دستبردار ہوجائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دستبردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوشبو بھی نہ ملے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمانؓ بلوائیوں کے پُرزور مطالبے کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دستبردار نہ ہوئے اور اپنے آقا ﷺ کے حکم پر جان لٹا دی۔ انہی ناہنجار بلوائیوں کے محاصرے کے دوران آپؓ نے اپنے گھر کے دریچے سے ظاہر ہوکر انتہائی مشفقانہ انداز میں ان عاقبت نااندیش فسادیوں کو ان الفاظ میں تنبیہ کی:

’’میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے

۱۔ میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں۔

۲۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادیؓ میرے نکاح میں دی۔

۳۔ جب پہلی صاحب زادیؓ فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی۔

۴۔ میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا۔

۵۔ میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی۔

۶۔ جس ہاتھ سے حضور علیہ السلام کی بیعت کی، اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا۔

۷۔ میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو، اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی۔

۸۔ زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا۔

۹۔ میں نے کبھی چوری نہیں کی۔

۱۰۔ میں نے نبی علیہ السلام کے زمانے میں ہی پورا قرآن حفظ کرلیا تھا۔

اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرالو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کردیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کرسکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔‘‘

مگر سازشی مفسدین کی عقلیں ماؤف، ذہن مفلوج اور ضمیر مردہ ہوچکے تھے۔ اسی سازش کے نتیجے میں خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرامؓؓ اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمانؓ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبوی آپؓ نے یہ مطالبہ رَد کردیا اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزے کی حالت میں ان سازشی بلوائیوں کے محاصرے میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اور بالآخر ۱۸ذی الحج، ۳۵ہجری کو دوران تلاوت شہید کردیے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

امام جودوسخا، پیکرِشرم وحیا، ہم زلف علی مرتضیٰؓ، کاتب ِوحی، ذوالنورین، فاتح افریقہ، خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ سطور ناکافی ہیں۔ اس لیے سیدنا عثمانؓ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپردتحریر کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے، نیز ان مقدس شخصیات کی عظمت کے تحفظ کے لیے ہماری جان، مال اور وقت اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرما لے،آمین۔

بروایت ترمذی، نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔ ترمذی ہی کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کے سامنے کسی کا جنازہ لایا گیا تو نبی ﷺ نے جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا، صحابہؓ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ! ہم نے تو کبھی آپ کو کسی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتے نہیں دیکھا، تو رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا کہ اِس شخص کو عثمانؓ سے بغض تھا پس اللہ کو بھی اس سے نفرت ہے۔ بروایت بخاری، ایک مرتبہ نبی ﷺ، سیدنا ابوبکرصدیقؓ، سیدنا عمر فاروق ؓاور سیدنا عثمان ذوالنورینؓ احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ غور فرمائیے کہ نبی ﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے پہاڑ کی حرکت بھی برداشت نہیں کی بلکہ پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ رک جا! اللہ تعالیٰ ہمیں عظمت ِصحابہؓ کے تحفظ کے لیے حتی المقدور سعی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

امیرالمؤمنین سیدناعثمانؓ چوںکہ مکتب نبوت کے ایک اہم اور لائق شاگرد تھے انہوں نے اپنے مربی نبی کریمﷺ کی تربیت کے نتیجے میں جہاں اور کئی مواقع پر آں حضرتﷺ کی تربیت کے مطابق قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے احسن اندازاختیار فرمائے وہاں سیدنا عثمانؓ نے وقتاً فوقتاً علم و حکمت اور دانائی و تدبر سے بھر پور کلمات بھی ارشاد فرمائے جن میں سے چند ایک پیش ہیں:

٭ اللہ کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہوگا۔

٭ بندگی اس کو کہتے ہیں کہ احکام الہٰی کی حفاظت کرے اور جو عہد کسی سے کرے اس کو پورا کرے اور جو کچھ مل جائے اس پر راضی ہوجائے اور جو نہ ملے اس پر صبر کرے۔

٭ دنیا کی فکر کرنے سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی فکر کرنے سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔

٭ متقی کی علامت یہ ہے کہ اور سب لوگوں کو تو سمجھے کہ وہ نجات پاجائیں گے اور اپنے آپ کو سمجھے کہ ہلاک ہو گیا۔

٭ سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی تیاری نہ کرے۔

٭ دنیا جس کے لیے قیدخانہ ہو قبر اس کے لیے باعث راحت ہوگی۔

٭ اگر تمہارے دل پاک ہوجائیں تو کبھی قرآن شریف کی تلاوت یا سماعت سے سیری نہ ہو۔

٭ محاصرہ کے زمانے میں جب اتمام حجت کے لیے آپ نے بالاخانہ سے سر باہر نکالا تو فرمایا مجھے قتل نہ کرو بلکہ صلح کی کوشش کرو، خدا کی قسم میرے قتل کے بعد پھر تم لوگ متفقہ قوت کے ساتھ قتال نہ کر سکو گے اور کافروں سے جہاد موقوف ہو جائے گا اور باہم مختلف ہوجاؤگے۔

٭ محاصرے کے زمانے میں لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین! آپ تو مسجد نہیں جا سکتے انہی باغیوں میں سے کوئی شخص امام بنتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ نماز اچھا کام ہے جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہوجایا کرو، ہاں برے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں