[ad_1]
بانس کا درخت ہمارے علاقے جنوبی پنجاب کا ایک نایاب اور قیمتی درخت ہے۔ بچپن سے ہی ہم اس درخت کی افادیت، اہمیت اور استعمال سے بخوبی واقف ہیں۔ بانس اپنی مضبوطی اور پائے داری کی وجہ سے گاؤں میں ایک شان کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
بانس کا درخت اپنی مضبوطی، ثابت قدمی اور بلندی کی وجہ سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ بانس کی لکڑی سے زیادہ مضبوط اس کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ جڑیں کئی کئی سال تک زمین میں مضبوط ہوتی رہتی ہیں جو بعد میں اس کی لکڑی کو مضبوط اور قد کو بلندی عطا کرتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ٹریننگ، پرسنل ڈیویلپمنٹ، تعلیمی نظام اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے کھیتی باڑی کے عمل کو سمجھنا بے حد ضروری ہے کیوںکہ یہ قدرت کے انتہائی قریب ترین پیشہ ہے جو انسانی نفسیات اور قدرت کے نظام کے مطابق چلتا ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان بہت جلدی کام یاب اور دیرپا ترقی کا خواہاں ہوتا ہے لیکن اس کے اندر صبر کا مادہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ دیرپا اور پائیدار ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔
بانس کے درخت کی افادیت کو بیان کرنا کا مقصد یہ ہے اس درخت کو قدآور بننے کے لیے کئی سال لگ جاتے ہیں، اور یہ زمین پر بلند ہونے سے قبل بہت وقت کے لیے زمین کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان مضبوط، دیرپا اور قابل ذکر کام یابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے صبر اور مستقل مزاجی اپنانی ہوگی۔ مجھے اپنے دادا کی بات یاد آگئی جو کہتے تھے’’محنت ہر انسان کرلیتا ہے، لیکن صبر بہت کم کرتے ہیں۔‘‘
ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو فوری نتائج اور فوری ردعمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی اور تیزرفتار سوشل میڈیا کے دُور میں صبر کو فروغ دینا اور اس پر عمل کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور مشکل امر ہے۔ نوجوان نسل راتوں رات وائرل ہونا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑنا چاہتی ہے۔ جس کے پاس پانچ سیکنڈ کا اشتہار دیکھنے کے لیے بھی صبر نہیں ہے۔
ایسی صورت حال میں صبر ہمیں اپنے سفر کو بہتر انداز میں اپنانے، مضبوط تعلقات کو استوار کرنے، بہتر فیصلے کرنے، چیلینجوں پر قابو پانے اور اپنی مجموعی کارکردگی کو بڑھانے کے قابل بناتا ہے۔ اس مضمون میں صبر کی طاقت اور اہمیت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔ میرے اپنے تجربے میں کارپوریٹ دُنیا میں اپنا ہدف، اور علمی دُنیا میں اپنے جنونPassion کو حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ان دونوں عمل میں ہماری رُوح کی تشنگی اور آسودگی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، جس سے انسان کہیں اپنے صبر کے وصف کو کھو دیتا ہے اور دُنیا کی دوڑ میں منفی سوچ کا حامل ہوجاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مثبت سوچیں آپ کے ہاتھوں کی لکیریں تو شاید نہیں؛ لیکن آپ کی نسلوں کی تقدیریں ضرور بدل سکتی ہیں۔
صبر باتیں کرنے سے نہیں آتا ہے بلکہ زندگی کے نشیب وفراز، مسلسل ریاضت اور مشق کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ صبر کے حقیقی معنی اور مفہوم سے ہی ناواقف ہیں۔ اکثر لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کو صبر کا نام دیتے ہیں۔
کئی تو اپنی ناکامی اور ہڈحرامی کی عادت کو بھی صبر کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ صبر کا مطلب بغیر کام کیے نتائج کا انتظار کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے حصے کا بھرپور کام اور کردار ادا کرنے کے بعد مطلوبہ نتائج کے عمل کے لئے درکار وقت کا انتظار کرنے کا نام ہے۔ یہ شارٹ کٹ، فاسٹ فارورڈ اور مصنوعی طریقوں سے متوقع نتائج کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی اور قدرتی نظام کی حمایت کا نام ہے۔ کام یاب لوگوں میں صبر کی عادت مشترک ہوتی ہے۔ وہ جلدبازی، بے وقتی اور بے موسمی کامیابی پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
آئیں دیکھیں، صبر کی طاقت اور صلاحیت کیسے ہماری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام یابی کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
1: صبر برکت اور کثرت کا وسیلہ بنتا ہے:
صبر ہماری زندگی میں بے شمار برکات اور کثرت کا وسیلہ بنتا ہے۔ بہت سارے لوگ جلدبازی میں اپنی محنت کے پھل کو صحیح طریقے سے پکنے نہیں دیتے ہیں اور وقت سے پہلے ہی اپنی محنت کا حقیقی اور اصل ذائقہ چکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ صبر ہماری محنت، سوچ اور نیت کو برکت اور کثرت میں بدل دیتا ہے۔ صبر کرنے والے لوگ پیچھے نہیں رہ جاتے ہیں بلکہ وہ دوسروں سے الگ اور منفرد ہوجاتے ہیں۔
2: صبر قدرت کے نظام پر بھروسہ کرنا کی طاقت دیتا ہے:
انسان فطری طور پر جلدباز اور فوراً نتائج کا خواہاں ہوتا ہے۔ آج کے دور میں کام یابی کے معیار کو نہیں بلکہ رفتار کو دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے انسان اپنی ذات پر حد سے زیادہ بھروسا کرتا ہے اور صرف اپنی ذات کو کام یابی کا محور اور منبع قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب صبر کرنے والا انسان قدرت کے نظام پر بھروسا کرنے کی طاقت سے آگاہ ہوتا ہے اور اپنے درست وقت کا انتظار کرتا ہے۔ وہ غیرفطری اور منفی ہتھکنڈوں سے محفوظ رہتا ہے۔ بہت سارے لوگ آج، جلد کام یابی اور شہرت کے لیے ایسے طریقوں کا استعمال کرتے ہیں جو اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ وقتی اور غیرفطری ہیں۔
3: صبر انسان کو ذہنی اور روحانی پر مضبوط بناتا ہے:
صبر انسان کو ذہنی اور روحانی پر اتنا مضبوط اور تیار کردیتا ہے کہ وہ پھر اپنی اُصل منزل اور مقصد پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ اُس کے اندر اعتماد کی طاقت اور حالات کا سامنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ صبر انسان کو وقتی پریشانیوں اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ دیتا ہے۔ صبر انسان کو اپنے خالق کے ساتھ روحانی طور پر جوڑے رکھتا ہے جو اُس کی سب سے بڑی اور بہترین اُمید ہوتی ہے۔
4: صبر انسان کی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے:
میں اگر اپنے گذشتہ چند سالوں کے تحریری اور تخلیقی سفر پر غور کروں تو مجھے خود احساس ہوتا ہے کہ صبر اور مستقل مزاجی کی بدولت میری تخلیقی اورفنی صلاحیتوں میں نمایاں نکھار آیا ہے، کیوںکہ صبر آپ کواپنے اندر جھانکنے اور چیزوں کو بہتر انداز میں سرانجام دینے کی خوبی کو بیدار کرتا ہے۔
5: صبر انسان کے رویے اور نقطۂ نظر کو وسعت دیتا ہے:
وقتی اور فوری طور پر کام یابی کے متلاشی دُوراندیشی کی صفت سے نالاں ہوتے ہیں۔ وہ صرف اپنے ذات تک محدود رہتے ہیں اور تیزرفتار کام یابی کی روشنی اُن کی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ اگر آپ اپنے رویوں کو مثبت رکھنا اور نقطۂ نظر کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو صبر کی عادت کی مشق کریں۔ یہ انسانی نفسیات، رویوں اور حالات کو سمجھنے میں آپ کی مدد کرے گی۔
6: صبر انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے:
صبر انسان کو غرور اور تکبر سے بچاتا ہے۔ اور اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے۔ دُنیا میں بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ جن لوگوں نے بہت جلد کام یابی کی بلندیوں کو چھوا لیکن غرور کی وجہ سے اتنی ہی تیزی سے زمین پر گرے ہیں۔ کام یابی کے لیے صبر کرنے والے لوگ ہمیشہ نرم مزاج اور عجزوالے ہوتے ہیں۔
7: صبر انسان کو ٹیم ورک سکھاتا ہے:
صبر ہمیں یہ بات باور کرواتا ہے کہ انسان اکیلا کچھ نہیں ہے، اس لیے اُسے ٹیم ورک کی ضرورت پیش آتی ہے، کیوںکہ جب دُنیا والے امتحان لیتے ہیں تو وہ آپ کی قابلیت چیک کرتے ہیں، اور جب قدرت امتحان لیتی ہے تو وہ آپ کا صبر چیک کرتی ہے۔ اس لیے جس کام میں صبر کا بیج بویا جائے، وہ کام بہت پھل دار ثابت ہوتا ہے۔ اور جس کام اور سفر میں ٹیم ورک ہو وہ کام بہت عظیم ہوتا ہے۔
8 : صبر انسان کو مختلف، منفرد اور بہترین سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔
جین جیکس روسو کا ایک معروف قول ہے،’’صبر کڑوا ہے، مگر اس کا پھل میٹھا ہے۔‘‘ اگر آپ کے خالق نے آپ کو دیا ہے تو شکر کریں، اور اگر نہیں دیا تو بھی صبر اور شکر کریں۔ صبر انسان کو مختلف، منفرد اور بہترین سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس ضمن میں پلاننگ اور صبر سیکھنا ہے تو کسانوں سے سیکھیں، کیوںکہ ان کی پلاننگ میں قدرت کے معلامات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
:9 صبر ہمیشہ انسان کے اندر سے غیرمعمولی صلاحیتیں باہر لانے میں معاونت کرتا ہے۔
زندگی میں محنت بہت سارے لوگ کرتے ہیں، لیکن صبر بہت تھوڑے لوگ کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلسل محنت کرنے کے باوجود مطلوبہ مقام حاصل نہیں کرپارہے تو پریشان نہ ہوں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ لوگ آپ کو سراہ نہیں رہے ہیں، آپ کے کام کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے، آپ کی موجودگی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے تویاد رکھیں جس طرح ستارے دن میں نظر نہیں آتے، لیکن موجود ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کسی کو ان کے نہ ہونے فرق نہیں پڑ رہا یا کوئی ان کی موجودگی سے وقف نہیں بلکہ یہ ان کا وقت نہیں یہ ستارے رات میں آسمان کی رونق ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی موجودگی اثر رکھتی ہے، فرق صرف وقت کا ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ناں’’کسی کے دن اور کسی کی راتیں‘‘ محنت تو آپ کر رہے ہیں۔ بس صبر کریں۔
10: صبر، باؤنس بیک کرنے ہمت دیتا ہے:
زندگی باؤنس بیک کرنے کا نام ہے۔ مشکلات وہ روڈ میپ ہے جس پر چل کر ہی کام یابی ملتی ہے۔ جب کبھی مشکلات کا طوفان اور پہاڑ سامنے آکھڑے ہوں تو اُنہیں سینہ تان کر اپنا حوصلہ دکھائیں، اپنی فولادی قوت ارادی اور مقناطیسی ہمت دکھائیں۔ مشکلات کے میدان میں ہمیشہ بہادر، آخر تک لڑنے والے اور جواں ہمت کا مظاہرہ کرنے والے سپاہی ہی کام یابی اور فتح سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
وہ جو ذہنی اذیت، نفسیاتی دباؤ اور دُکھوں کا درد برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے والے ہی شکست کے منہ سے کام یابی چھین لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سب سے بڑی طاقت، محنت، اُمید اور صبر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ مایوسی کے طوفان میں اُمید اور تاریکی کے بادلوں میں علم کی شمع روشن رکھتے ہیں۔
یاد رکھیںکہ صبر کمزور انسان کی نہیں، بلکہ ذہنی طور پر مضبوط اور اندر سے پختہ انسان کی علامت ہے، جسے اپنی صلاحیتوں اور محنت پر یقین ہوتا ہے، جو وقت کی افادیت سے واقف ہوتا ہے۔ صبر صرف فلسفیانہ، صوفیانہ اور مذہبی سوچ وبچار کی خوبی ونیکی ہی نہیں ہے بلکہ یہ سائنسی اپروچ، نفسیاتی تقاضوں پر مبنی سوچ اور عملی زندگی کے نچوڑ اور کام یاب انسانوں کی کام یاب زندگی پر ریسرچ کا خلاصہ ہے۔ یہ وہ ہارڈ کور اسکل ہے جو نہ تو قدرتی ہوتی ہے بلکہ انسان حالات و واقعات، براہ راست زندگی کے تجربات اور عملی مشاہدات کی روشنی میں وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔ یہ عمر اور وقت کی پیداوار ہے۔
ہمارے ایک استاد نے کام یابی کا فارمولا یہ بتایا تھا: بیج + وقت + پھل۔ یعنی پہلے آپ کام یابی کا بیج بوتے ہیں اور پھر وقت اور صبر سے اس کی پرورش کرتے ہیں اور پھر اُس کا پھل کھاتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم اب جو چاہتے ہیں اس کا انتخاب نہ کریں بلکہ اُس کا جو ہم سب سے زیادہ چاہتے ہیں، کیوںکہ فوری تسکین کی ضرورت، خوابوں کی قاتل ہوسکتی ہے۔ اس صورت حال سے صرف صبر کے ذریعے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
صبر کے متعلق بے شمار واقعات، مثالیں، کہانیاں اور کتابیں موجود ہیں، لیکن مجھے اُن سب میں سے زیادہ متاثرکن، اُس شخص کی کہانی لگتی ہے، جس نے اپنے دوست اسٹیوجابز کے ساتھ ابتدائی ایام میں کمپنی کے آغاز پر پارٹنرشپ کی تھی۔
چند سال کے بعد متوقع کام یابی نہ ملنے پر اُس نے اپنے چند سو ڈالر کا اپنا شیئر یہ کہا کہ واپس لے لیا کہ میں کام یابی کے لیے مزید صبر نہیں کر سکتا۔ ذرا تصور کریں کہ اگر وہ شخص صرف چند سال صبر کرلیتا تو آج کا اُس کا نام بھی تاریخ میں امر ہوجاتا اور اُس کی نسلیں بھی امیر ہوجاتیں۔ اس کہانی سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ جو انسان صبر نہیں کرسکتا وہ دُنیا میں کوئی غیرمعمولی اور قابل ذکر کام نہیں کرسکتا۔ کام یابی کے لیے صرف ٹیلنٹ کی ہی نہیں بلکہ مستقل مزاجی، مسلسل محنت اور صبر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
[ad_2]
Source link