[ad_1]
کراچی: بلدیہ عظمی کراچی کے محکمہ پارکس کے 55 کروڑ روپے لاگت کے ترقیاتی کاموں میں سنگین کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے کنٹریکٹرز نے اعلیٰ حکام، تحقیقاتی اداروں اور سیپرا کو خط اور بلدیہ حکام کو قانونی نوٹس ارسال کر دیا ہے جبکہ پارکس حکام نے تمام الزامات کو حقائق کے برعکس قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کے تحت 55 کروڑ لاگت کی 30ترقیاتی اسکیموں کے لیےگزشتہ ماہ ٹینڈرز کیے گئے تھے، جس کے بارے میں کراچی کے سینئر کنٹریکٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ کامیاب ہونے والے کنٹریکٹرز کی جگہ مبینہ طور پر من پسند کنٹریکٹرز کو ترقیاتی کام ایوارڈ کیے گئے ہیں۔
کنٹریکٹرز کے مطابق محکمہ پارکس میں ٹھیکوں کی خریدوفروخت کی جارہی ہے اور اسکروٹنی کے نام پر ریٹس میں تبدیلی کرکے لاڈلے کنٹریکٹرز کو کام دینے کے لیے بڈ ایلویشن سیپرا ویب سائٹ پراپ لوڈ کردی گئی ہے اور جعلسازی کا عمل تعطیل والے روز سرکاری دفتر کھول کر کیا گیا ہے۔
کامران انٹر پرائززکے عبدالغفار میمن نے سیپرا اور تحقیقاتی اداروں کو ارسال کی گئی اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ محکمہ پارکس کی اوپننگ کمیٹی نے مذکورہ ٹینڈرز میں ردوبدل کرکے اور بھاری رشوت کے عوض اپنے من پسند کنٹریکٹرز کو کامیاب قرار دیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکروٹنی کے نام پر کی گئی جعل سازی کی فوری تحقیقات کی جائیں۔
واضح رہے کہ محکمہ پارکس کے55کروڑ لاگت کے ٹھیکوں کا ٹینڈر 23 مئی 2024ءکو ہوا تھا جبکہ اس کی بڈ ایلویشن 14 جون2024ءکو اپ لوڈ کی گئی تھی۔
کنٹریکٹرز کے مطابق مذکورہ بڈ ایلویشن رپورٹ حقائق کے بالکل برعکس ہے اور سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ کی جا رہی ہے، جس کے ثبوت بھی موجود ہیں اور کنٹریکٹر نے اس سلسلے میں عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کے لیے محکمہ پارکس کے افسران کوقانونی نوٹس بھی ارسال کردیا ہے۔
دوسری طرف ٹھیکیداروں کی نمائندہ تنظیم کراچی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے حکام نے بھی سیپرا کو بھیجی گئی شکایت میں محکمہ پارکس کے ٹھیکوں میں مبینہ بدعنوانیوں اور لاڈلوں کو نوازے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پارکس محمد جنید سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مذکورہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ سی آر سی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور کنٹریکٹرز کی شکایت دیکھی ہیں جو درست نہیں ہیں، ٹینڈرز قوانین کے مطابق ہوئے ہیں اور لوئسٹ کنٹریکٹرز کو ہی ٹھیکے ایوارڈ کیے جارہے ہیں۔
[ad_2]
Source link