12

کل کا جھانسہ – ایکسپریس اردو

[ad_1]

یہ سوال ایک عرصے سے ہمارے دماغ میں چکرا رہا ہے کہ لوگ یا دوسرے معنی میں ’’کالا نعام‘‘ مذہبی اور قوم پرستی کے نعروں کا اتنی آسانی سے شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ غربت کے مارے ہوئے اور بھوکے ننگے عوام ہی کیوں ؟ دن رات قوم پرستی اور مذہب کا آموختہ دینے والے ’’خواص‘‘ کیو ں نہیں۔ مشاہدہ تو یہ ہے کہ جتنا جتنا کوئی اوپر چڑھتا جاتا ہے، مذہب و قوم سے اس کی وابستگی کم ہوجاتی ہے یا صرف دکھاوے کی حد تک رہ جاتی ہے اورجتنا جتنا ہم نیچے جاتے ہیں، مذہب و قوم سے وابستگی بڑھتی جاتی ہے بلکہ اکثر تو دنیا تیاگنے تک نوبت آجاتی ہے۔

دنیا نے ہم کو دیا کیا؟

دنیا سے ہم نے لیا کیا؟

ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’’عوامیہ اوراشرافیہ ‘‘ کے دماغوں اور سوچوں میں فرق ہوتا ہے ۔اگر تاریخی تسلسل کامطالعہ گہرائی سے کیا جائے تو امیر اور غریب اب بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں، جہاں وہ ہزاروں برس پہلے کھڑے تھے۔ اشرافیہ کا کوئی وطن نہیں، کوئی قوم نہیں اور نہ کوئی مذہب ہوتا ہے جب کہ عوامیہ وطن کی مٹی کو ماں جیسا سمجھتے ہیں، مذہب کو جان سے زیادہ عزیز جانتے ہیں۔ اشرافیہ نے دماغ کے کثرت استعمال سے ایسے جادوئی طریقے ایجاد کیے ہیں، ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ عوام اس انتظام و نظام سے باہر نکل سکتے ہیں نہ اس سے اوپر پہنچ سکتے ہیں۔

غم دیا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم

میری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے

اشرافیہ عرف حکمرانیہ عرف ابلیسہ نے ہزاروں سال کے دماغی کثرت استعمال سے اتنے پینترے سیکھ لیے ہیں کہ مذہبی نہ ہوتے ہوئے بھی مذہبی کہلاتے ہیں ، قوم نہ ہوتے ہوئے قوم سے زیادہ مضبوط ہے ،نسل نہ ہوتے ہوئے بھی نسل سے زیادہ مربوط ہے بلکہ دیکھا جائے تو اس نے خود کو ہی قوم، نسل ، ملک، وطن ،نظریہ اورعقیدہ سب کچھ بنایا ہوا ہے اورایک بہت بڑی کمپنی یاگروپ آف کمپنیز کی طرحکام کررہی ہے یا ایک بہت بڑی مشین بھی اسے کہہ سکتے ہیں جس کا ہر ہر پرزہ اپنی جگہ کام کرکے مشین کو چالو رکھے ہوئے ہے، ان پرزوں میں مذہبی پرزے اپنا کام کررہے ہیں، شاعروصورت گر و افسانہ نویس اپناحصہ ڈال رہے ہیں ، غنڈے بدمعاش اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں یہاں تک کہ پیروں، مرشدوں وغیرہ کااپنا فیلڈ ہے ۔ قانون، آئین، رواج سب کے سب اسی مشین کے پزرے ہیں اوران سب کا کام ایک ہے، عوامیہ کو ’’کل‘‘ کی امید پر لگائے رکھنا کیونکہ کل کبھی نہیں آتی۔فیض احمد فیض کی ایک مشہورنظم ہے

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن جس کا وعدہ ہے،

جو لوح ازل پر لکھا ہے

پھرآگے چند متوقع نتائج و امید کا چراغ جلاتے ہوئے کہا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے،

جب تاج اچھالے جائیں گے،

جب راج کرے گی خلق خدا۔

بہترین نظم ہے اوراس میں جو مدعا بیان کیاگیا بالکل سچ ہے۔ فیض ہی کا ایک اور شعر ہے ۔

یوں گماں ہوتاہے گرچہ ہے ابھی ’’صبح فراق‘‘

ڈھل گیا ہجر کا دن آہی گئی وصل کی رات

میں نے اس نظم کی پیروڈی کی تو پوری نظم میں صرف ایک لفظ بلکہ حرف کی تبدیلی کی۔ جہاں جب لکھا تھا، وہاں میں نے کب کردیا ۔

صرف شاعروصورت گر وافسانہ نویس یاترانے گانے والے ہی نہیں بلکہ یہ جو جگہ جگہ عامل، کامل، نجوبی اور فال گر یاگدی نشین اورمسند نشین بیٹھے ہیں، سب کے سب کل اورصرف کل بیچتے ہیں اورکل تو ہرکسی کو معلوم ہے کہ کبھی نہیں آتی، آج بن بن کر آتی ہے اورآج تو آج والوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔

تم چلے آؤ تو رم جھم کی فضا ناچ اٹھے

ورنہ یہ رات یہ برسات نئی بات نہیں

صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

سیدھی سی بات ہے کہ جن کے پاس دنیا کا کچھ بھی نہ ہو، جن کا آج ہی ان کا اپنا نہ ہو، وہ کل کا انتظار نہ کرتے تو کیا کرے۔یہ بھی اس انتہائی ذہین ، چالاک اورعیار اشرافیہ کا کمال ہے، اس نے انتظام ایسا کررکھا ہے کہ کالانعاموں کے پاس ککھ بھی نہ رہے تاکہ وہ جب چاہے ، ان کو شکار کرے ۔

وہ ایک پرانالطیفہ ہے کہ ایک سیٹھ ساہوکار کے پڑوس میں ایک مزدوررہتا تھا ۔مزدورکے گھر سے روزانہ مختلف پکوانوں کی خوشبوئیں اٹھتی تھیں ۔ ایک روز سیٹھانی نے اپنے سیٹھ خاوند سے کہا کہ دیکھو! ہمارے پڑوسی مزدورکے ہاں کیا کیا پکتا ہے اورہمارے ہاں دال کے سوا کچھ نہیں پکتا، سیٹھ نے ایک پوٹلی میں سوروپے باندھ کر مزدورکے گھر میں پھینک دیے اس کے بعد اس مزدورکے گھر سے کوئی خوشبو نہیں اٹھی کیوں کہ اسے پیسے جمع کرنے کاچسکا پڑ گیا تھا ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں