[ad_1]
یہ پت جھڑ کا زمانہ ہے ۔ پیڑوں سے پتے گر رہے ہیں اور اسی طرح دوست رخصت ہورہے ہیں کیا ہندوستان ،کیا پاکستان اور کیا انگلستان۔ کرامت علی ہمارے ایک ایسے دوست تھے جن کے ساتھ پاکستان اور یورپ کے سفر کا موقعہ ملا۔ ایک توانا اور متحرک انسان۔ ان کے ساتھ کچھ وقت بنگلہ دیش میں بھی گزرا ۔ ایک ایسا منکسر المزاج انسان جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ چند برسوں کے بعد خاک ہوجائیں گے، وہ ملتان کی مٹی سے اٹھے اور کراچی کی مٹی آرام گاہ بنی ۔ یہی کہانی ہے اور یہی زندگانی ہے۔
کرامت ایک ایسے خاندان کے فرد تھے جو بٹوارے کا شکار ہوا اور مذہبی اعتبار سے بھی والدہ اور والد کو بھی دو حصوں میں بٹا ہوا پایا۔ ڈاکٹر جعفر نے یہ نیک کام کیا کہ ان کے انٹرویو ریکارڈ کر لیے، یوں کرامت کی زندگی کے ساتھ ہی کراچی، لاہور اور اس دورکی فوج کی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ اپنے انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں ’’ میری والدہ کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا جو اَب گورداسپور ہے۔ ہمارے نانا اور ہمارے ماموں کے پاس وہاں چھوٹی سی زمین ہوتی تھی۔ میری والدہ شادی کی وجہ سے تقسیم کے بعد اس طرف آگئی تھیں۔ والدین پہلے لاہور پھر ملتان میں رہے ۔
میرے والد کی جو فیملی تھی وہ شیعہ مسلک سے تھی اور والدہ سنی مسلک سے تھیں لیکن اس زمانے میں عام تھا کہ انٹر میر جز مسلمانوں کے ایک سے دوسرے فرقے میں ہوتی تھیں۔ آدھے خاندان ایک فرقے سے تو آدھے دوسرے سے ۔ ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں سب شریک ہوتے تھے ۔ میری والدہ بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ میرے والد کی جب ریٹائرمنٹ ہوگئی ۔
ہم لوگ جب ملتان آئے تو اس وقت میرے والد کوئی مناسب ملازمت نہیں کرتے تھے ۔ میری والدہ اور چار بہنیں تھیں۔ اس زمانے میں بیڈ لینن کا کام ہوتا تھا ملتان میں۔ ایک گل ٹیکسٹائل فیکٹری تھی، وہ ایک خاص طرح کی کھڈیوں پر بیڈ شیٹس اور پلو بناتے تھے۔ اس کام کا ایک حصہ جو آخر میں فنشنگ کا ہوتا ہے یعنی آخر میں جو دھاگے وغیرہ کاٹنے کا کام ہوتا ہے تو وہ کام عام طور سے گھروں میں کیا جاتا تھا ۔ یہ کام گھر میں آتا تھا اور میری والدہ اور بہنیں یہ کام کرتی تھیں۔ میری والدہ خود یہ کام کرتی تھیں۔ پھر میرے والد کالونی ٹیکسٹائل ملز چلے گئے۔
غیر ہنر مند (unskilled) کے طور پر لیکن میرے گھر کی جو آمدنی تھی میری والدہ اور بہنیں اس کی ذمے دار تھیں۔ اس زمانے میں جو عورتیں گھروں میں کام کر رہی ہوتی تھیں ہم ان کو ورکرز نہیں سمجھتے تھے۔ خیر اس ماحول میں ہم تھے لیکن جو اسپرٹ تھی، حالات سے شکست خوردگی کی ‘ وہ ان میں بالکل نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ چار بہنیں بڑی ہوں اور پھر ایک لڑکا پیدا ہوجائے تو وہ بلاوجہ خوشی کا باعث بن جاتا ہے تو وہ بھی ایک ایڈیشنل چیز تھی جو مجھے ملی بہنوں سے اور والدہ سے کہ میر ا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔
ہم نے اپنے گھر میں اکثر فاقے بھی دیکھے، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ اس سے بیٹھا کوئی پریشان ہورہا ہے۔ کچھ نہیں ہے تو نہیں ہے۔ ہمارے والد بہت ہی مذہبی انسان تھے اور جو بھی شیعہ رسوم ہوتی ہیں ان کو بڑی پابندی سے کرتے تھے ۔ میری ماں اور وہ دونوں اس لحاظ سے بہت مختلف تھے جب کوئی زیادتی کرتا تھا تو میری ماں اس کے خلاف بولتی تھیں اور دوسرے کو یہ احساس دلاتیں کہ زیادتی کی ہے، جب کہ میرے والد کہتے تھے کہ بس چھوڑدو کوئی بات نہیں۔ والدہ کا کہنا تھا کہ مزاحمت ہونی چاہیے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
میرے والد چونکہ بہت ہی پریکٹسنگ شیعہ تھے تو ہم سب نے بھی اس ماحول میں پرورش پائی، ہم مجلسوں میں جاتے تھے، ہمارے والد صاحب لے کر جاتے تھے، ہمارے گھر سے تھوڑا دور جو امام بارگاہ ہے وہ گردیزیوں کی ہے، وہاں ہم لوگ جاتے تھے، پھر جب بچے تھوڑا بڑے ہوتے ہیں تو ماتم شروع ہوتا ہے پھر زنجیر زنی۔ ایک دفعہ میں میٹرک میں تھا تو ہم گئے امام بارگاہ ، مجھے وہاں پتہ چلا کہ جوگردیزی تھے ، وہ سارے تقریباً زمیندار لوگ تھے ، زمینیں ملی ہوئی تھیں۔ شاہ یوسف موجودہ افغانستان کے علاقے گردیز سے آئے تھے اور وہ بہت مانے جاتے تھے، ان کی قبر میں ایک خول بنا ہوا ہے، ان کے بارے میں یہ کہ مشہور تھا کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بھی وہ اس میں سے لوگوں سے ہاتھ ملاتے تھے۔
ایک اور قصہ ہے کہ وہاں بہاء الدین ذکریا ہیں جو سنی مسلک کے بزرگ تھے، ان کے بیٹے جب گئے ان کے مزار پر تو انھوں نے کہا کہ آج کے بعد یہ جو ہاتھ ملانے کا سلسلہ ہے، وہ بند ہوجائے گا تو جو اسٹوری ہے کہ شاہ یوسف نے کہا کہ آج کے بعد تمہارا کسی کو پتہ نہیں ہوگا، اب وہاں دو مزار ہیں، ایک بہاء الدین ذکر یا کا اور ان کے پوتے کا لیکن ان کے بیٹے کا کوئی مزار نہیں ہے تو وہ اس بات سے جڑا ہوا ہے۔ وہ جب یہاں آئے تھے تو بہت مانے ہوئے بزرگ تھے اور پھر اس وقت کے جو بادشاہ ہوں گے انھوں نے ان کو زمینیں وغیرہ بھی دے دیں تو یہ سارے لوگ جاگیر دار ہیں۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ جو ان کے بچے ہیں ہماری عمر کے ہیں، وہ تو زنجیر زنی نہیںکرتے ہیں ۔ اس شام کو جب ہم واپس آئے تو میں نے اپنے والد سے کہا کہ ’’ میں آیندہ وہاں نہیں جاؤں گا۔‘‘ خیر انھوں نے کہا ’’ ٹھیک ہے آپ کی مرضی ہے۔‘‘ وہ کبھی کوئی چیز تھوپتے نہیں تھے ۔
کرامت نے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا کہ میرے والد محکمہ جنگلات میں ملازم تھے، اس محکمے میں فارسٹ گارڈز ہوتے ہیں جن کا کام جنگلات کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، یہی ان کا بھی کام تھا۔ فارسٹ ڈپارٹمنٹ کی اپنی کالونیاں بھی ہوتی تھیں۔ ملتان کے قریب ہم لوگ بھی ایک ایسی ہی کالونی میں رہتے تھے۔ میری پیدائش تو وہیں کی تھی۔
1950 یا 1951 میں ہمارے والد ریٹائر ہوگئے تو پہلے کچھ انھوں نے اپنا کام کرنے کی کوشش کی پھر ہم وہاں سے ملتان شہر میں آگئے۔ اس کے بعد وہاں کالونی ٹیکسٹائل مل ہے ملتان میں تو وہاں انھوں نے ملازمت اختیار کر لی بنیادی طور پر ہماری فیملی ایک ورکنگ کلاس فیملی ہی تھی لیکن ہمارے والد نے کوشش کی کہ ہم لوگ تعلیم حاصل کر لیں چنانچہ ہم لوگوں کو اسکول بھیجا گیا اس دوران کچھ سالوں کے لیے میں کراچی بھی آیا میری بڑی بہن کی شادی یہاں کراچی میں ہوئی تھی، میرے بہنوئی یہاں ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے، سائٹ کے علاقے میں وہ چونکہ مجھ سے کافی سال بڑی تھیں تو وہ جیسے بڑی بہنیں ماؤں کی جگہ ہوتی ہیں وہ مجھے بالکل ویسے ہی دیکھ رہی تھیں، وہ مجھے اپنے ساتھ لے آئیں۔ ( جاری ہے)
[ad_2]
Source link