10

حج انتظامات میں بدانتظامی کا ذمے دار کون؟

[ad_1]

اسلام کی جتنی عبادات ہیں وہ سب کی سب اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہیں، ایک اجتماعی اور دوسرا انفرادی۔ یعنی ان کے کچھ پہلو تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور خیر و برکت کے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن سے ہر مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں فیض یاب ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر رحمت وعنایت اور اجر وثواب کے وعدے فرمائے ہیں۔

نماز و زکوٰۃ اور روزہ واعتکاف وغیرہ سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں لیکن تمام عبادات میں ’’حج بیت اللہ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے۔ حج وہ عبادت ہے جس میں انفرادی و اجتماعی پہلو نمایاں طور پر اپنے وجود کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی اس عبادت کا مقصد جہاں فرد کی اصلاح ہے اور وہاں اصلاح معاشرہ بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں پر بے نیاز ہے۔

ہر سال دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے صاحب استطاعت فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کا سفر کرتے ہیں، مسلم ریاستیں ہوں یا غیر مسلم ممالک، سبھی اپنے اپنے حجاج کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں، حجاج کرام کے لیے بہترین قیام گاہیں لی جاتی ہیں، شاندار ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جاتا ہے۔

ان کے لیے کھانے پینے کا عمدہ بندوبست کیا جاتا ہے، ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ حجاج کرام گھر سے لے کر بیت اللہ تک، منیٰ سے لے کر عرفات و مزدلفہ تک، صفا و مروہ سے لے کر رمی و جمرات تک، حرم مکہ سے لے کر مدینہ طیبہ کی گلیوں تک کھلی آنکھ سے سوز وجنوں کے نظارے دیکھیں، مناسک حج ادا کریں، عمرہ کریں، خشوع و خضوع سے نمازوں کا اہتمام کریں، اللہ رب العزت کی بارگاہ میںدعاؤں اور مناجات کے لیے جھولی پھیلائے بیٹھے رہیں، مقامات مقدسہ کی زیارت کریںاور ان امور کی ادائیگی میں انھیں انتظامی معاملات کے حوالے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ سب کچھ حکومت مفت نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ہر حاجی سے اس کی تگڑی قیمت وصول کی جاتی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے حکومت پاکستان کی جانب سے حج کے بہترین انتظامات کی خبریں مل رہی تھیں، خاص طور پر پی ڈی ایم کے دور حکومت میں وفاقی وزیر مذہبی امور درویش عالم دین مفتی عبدالشکور شہید رحمہ اللہ کی قیادت میں ہونے والے حج کے انتظامات ایسے بے مثل و بے مثال تھے کہ ان کی نظیر نہ پہلے کبھی ملی اور نہ ان کے بعد۔ ایسا درد دل رکھنے والا اللہ کا مخلص بندہ، جسے نہ کوئی طمع تھی نہ لالچ، مگر اللہ کے مہمانوں کی خدمت میں مارا مارا پھرتا تھا، حج اخراجات میں کمی کے لیے کبھی سعودی حکومت سے مذاکرات کرتا تھا کبھی پاکستانی حکومت کی منت و سماجت کرتا تھا، حج کے بہترین انتظامات کرنے کے باوجود ان انتظامات کی نگرانی خود کرتا تھا، کبھی کچن میں دکھائی دیتا تھا، تو کبھی منیٰ، مزدلفہ و عرفات کے میدان میں مارا مارا پھرتا تھا، کبھی حاجیوں کے کیمپوں میں جاتا تھا کبھی ڈسپنسریوں اور اسپتالوں پر نظر رکھتا تھا۔ خود بھی مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی وزارت کے افسران اور عملے کو بھی اس بات کا پابند بنائے رکھتا تھا کہ حجاج کرام اللہ کے مہمان ہیں اور ان کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر کرنی ہے۔

ان کے دور میں جس جس پاکستانی نے سرکاری کوٹے کے تحت حج کیا، ان کا سفر یادگار سفر رہا، حجاج مفتی عبدالشکور شہید اور وزارت مذہبی امور کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو بھی اپنی کابینہ کے اس مخلص و وفاشعار وزیر پر فخر تھا انھوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر مفتی عبدالشکور شہید کی خدمات کا اعتراف کیا اور ببانگ دہل کہا کہ مفتی عبدالشکورنے نہایت اخلاص اور محنت کے ساتھ حج سے متعلقہ تمام انتظامات کیے۔ اس سے پہلے جو حج ہوتے رہے ان سے متعلق مجھے بھی شکایتیں آتی تھیں کہ یہ کیسی حکومت ہے جو حاجیوں کے لیے نہ خوراک کا انتظام ٹھیک سے کر سکی نہ رہنے سہنے کا کچھ بہتر انتظام کرسکی۔ پی ڈی ایم حکومت میں شامل ہر پارٹی کے لوگ مفتی عبدالشکور کی ایمانداری، جانفشانی اور خدمت گزاری کے معترف رہے، صرف حکومت ہی نہیں، مخالفین بھی ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

مفتی عبدالشکور شہید کے دور سے پہلے پاکستانیوں کی اکثریت سرکاری کوٹے کے تحت حج کے بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے حج کرنے کو ترجیح دیتے تھے لیکن مفتی عبدالشکور شہید نے اپنی مخلصانہ خدمات کی بدولت یہ تصور ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے پرائیویٹ کے بجائے سرکاری کوٹے سے حج کرنے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری حج اسکیم کے تحت بھی گزشتہ کئی برسوں سے اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے تاہم بہتر حج انتظامات کو دیکھ کر حجاج کرام اخراجات کو بھول جاتے ہیں تاہم اس بار پاکستانی حج مشن کی بد انتظامی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

سعودی عرب سے جو اطلاعات آرہی ہیں انھیں سن کر لوگ مایوس ہوئے ہیں‘ اس قسم کی اطلاعات پاکستان کے وقار کو بھی مجروح کر نے کا باعث بنتی ہیں۔ منیٰ اور مزدلفہ سے آنے والی خبروں کے مطابق خیموں میں پناہ لینے والے پاکستانی حجاج کو اے سی کی سہولت نہیں دی گئی، انھیں شدید ترین گرمی میں کولر فراہم کیے گئے، ایسی بھی اطلاعات ملیں کہ جہاں کہیں کولر کام نہیں کرتے تھے تو وہاں فرشی پنکھے لگادیے گئے لیکن51 /52 درجہ حرارت کی شدید ترین گرمی کے آگے اے سی ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتے تو کولر کس طرح بلا کی حدت کا مقابلہ کرتے؟ بہت سے حاجیوں نے بتایا کھانے کے انتظامات بھی ناقص تھے اور ان کے لیے آرام کرنے کی سہولیات بھی ناکافی تھیں، بیڈ اس قدر چھوٹے تھے جس پر اگر کوئی لیٹے تو پاؤں نیچے لٹکے رہتے تھے۔

ایک بیڈ پر اگر دو خواتین لیٹنے کی کوشش کریں تو ایک بیٹھ جاتی تھی، شکایات بھی کیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ اسلام آباد سے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے جانے والی خاتون نے آپ بیتی بتائی کہ”وہ اپنے شوہر کے ساتھ سرکاری حج کرنے گئیں مگر انتظامات نے انھیں بہت دلبرداشتہ کیا۔ ہمیں وہاں کسی بھی چیز کے لیے شکایت کرنی ہوتی تو اہلکار ہماری بات نہیں سنتے۔ مزدلفہ میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے حجاج کو جگہ فراہم کی گئی تھی اور وہ جگہ پہاڑوں کے درمیان گہرائی میں تھی۔ وہاں لوگ گھٹن کا شکار ہورہے تھے اور شدید گرمی کے باعث لوگ واش روم کے باہر سونے پر مجبور ہوگئے”۔ یہ وہ اطلاعات ہیں جنھیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

یہ باتیں سن کر مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے پاکستانی حجاج کرام لاوارث ہیں۔ بہت سے حجاج کرام کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی طریقہ کار اور کوئی مکتب کا بندہ یا معاون نظر نہیں آیا، بس جہاں جگہ ملے وہیں گھس جائیں، یہی طریقہ کار چل رہا تھا۔ حاجی چاہے وہ خواتین ہیں یا مرد، دھوپ میں سر چھپانے کے لیے جگہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے، ناشتہ تک نہیں مل رہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی وڈیوز وائرل ہوئیں جن میں عازمین حج کو ہاتھ سے پنکھے جھلتے بھی دیکھا گیا اور کچھ عازمین اپنے بیگ نیچے رکھ کر ان پر ہی برا جمان ہونے پر مجبور ہوگئے۔

مگراس شدید گرمی کے باعث پاکستان کے بھی درجنوں حجاج جاں بحق ہوگئے۔ پاکستانی حجاج کرام کبھی اس طرح لاوارث نہیں ہوئے ہوں گے اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو حج مشن کے جن ذمے داروں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی ہے‘ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس سارے معاملے کی شفاف تحقیقات کرائے اورذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آیندہ حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے دوران کوئی سرکاری یا غیر سرکاری عناصر غفلت کا ارتکاب نہ کر سکیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں