19

پشتو زبان و ادب،رحمن بابا اور خوشحال خان خٹک

[ad_1]

پشتو زبان پاکستان اور افغانستان میں آباد پشتونوں کی ایک اہم زبان ہے۔یہ پاکستانی پشتونوں اور افغان پشتونوں میںسے اکثریت کی مادری زبان ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق انڈو یورپی زبانوں کے خاندان سے ہے اور یہ ایرانی زبانوں کے ذیلی گروپ،مشرقی ایرانی زبانوں میں شامل ہے۔ یوں تو اس کے کئی لہجے ہیں لیکن عمومی طور پرپشتو زبان کو دو لہجوں میں دیکھا جا سکتا ہے،سلیمانکی لہجہ،یہ لہجہ بلوچستان میں کوئٹہ اس کے گرد و نواح میں رہنے والے پشتونوں اور جنوبی افغانستان میں بسنے والوں کا لہجہ ہے۔دوسرا لہجہ یوسف زئی لہجہ کہلاتا ہے۔

یہ لہجہ پاکستان میں خیبر پختون خواہ اور شمالی افغانستان میں بسنے والے پشتونوں کا لہجہ ہے۔پشتو زبان میں متعدد ایسی خصوصیات ہیں جو اسے علاقے کی دوسری زبانوں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہیں۔ایک تو پشتو زبان کا اپنا خاص حروفِ تہجی ہے جو عربی اور فارسی حروفِ تہجی سے اُٹھایا گیاہے مگر اس میں کچھ اضافی ہجے بھی شامل ہیں۔پشتو زبان میں افعال کی ساخت دیگر علاقائی زبانوں سے مختلف ہے اس طرح پشتو زبان میں کچھ مخصوص آوازیں ہیں جو علاقے کی دیگر زبانوں میں نہیں پائی جاتیں۔

پشتو ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔پشتو ادب نے مختلف ادوار میں ترقی کی۔اس میں شاعری،نثر تاریخی مواد اور مذہبی تعلیمات خاص طور پر صوفیانہ تعلیمات شامل ہیں۔پشتو ادب میں موضوعات کا تنوع حیرت انگیز طور پر وسیع ہے۔ہر دوسری زبان کے ادب کی طرح پشتو ادب بھی ابتدا میں ہزاروں سال تک زبانی ادب Oral Traditionہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہا۔موجودہ میلینیم میں آہستہ آہستہ یہ ادب ضبطَ تحریر ہونا شروع ہوا تو اس میں غزل،قصیدہ،رباعی اور مثنوی کی مختلف اقسام شامل ہوئیں ، معروف پشتو شاعروں میں رحمن بابا،خوشحال خان خٹک اور غنی خان کے علاوہ کئی نامور شعراء شامل ہیں۔ان معزز شاعروں کی شاعری میں فلسفہ،محبت،عشق،تصوف اور قومی غیرت و تشخص جیسے موضوعات کو جگہ دی گئی ہے۔پشتو نثر میں تاریخی کتب،کہانیاں اور مذہبی موضوعات شامل ہیں۔

پشتو شاعری میں پشتو ٹپے tappa نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔تاریخ میں پہلا پشتو شاعر جس کی شاعری تحریری شکل میں ملتی ہے وہ ساتویں صدی عیسوی کے جنگجو شاعر امیر کرور سوری ولد امیر پولا سوری ہیں۔ ان کے بعد پیر روشن کا نام آتا ہے جنھوں نے اپنے خیالات کی بنیاد پر اپنا مدرسہ قائم کیا اور صوفی تعلیمات کی ترویج شروع کی۔انھوں نے پشتو زبان و ادب کو نئے طاقتور لہجے سے آشنا کیا۔ان کے نامور شاگردوں میں ارزانی،مخلص،میرزا خان انصاری، دولت اور واصل نامور شعراء ہوئے ہیں۔یہ وہ شعراء ہیں جن کا کلام مل جاتا ہے۔ان کے علاوہ اخوند درویزہ کی مخزن الاسلام پشتو شاعری کا اہم خزینہ ہے۔

پشتو زبان و ادب پشتونوں کے ثقافتی و تاریخی ورثے کا ایک حصہ اور محافظ ہے۔پشتو زبان نہ صرف پشتونوں کی شناخت کا اہم ذریعہ ہے بلکہ ان کی تاریخ،ثقافت اور سماجی ڈھانچے کو بھی بیان کرتی ہے۔ پشتو ادب نے پشتون معاشرے کی روایات،اقدار اور نظریات خاص کر پشتون ولی اقدار کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔غرضیکہ پشتو زبان اور ادب ایک وسیع اور متنوع فیلڈ ہے جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اہم تبدیلیاں دیکھی ہیں۔یہ زبان پشتونوں کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم جزو ہے اور اس نے ان کی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ کرنے میں بے حد مدد کی ہے۔

رحمن بابا جن کا پورا نام عبدالرحمن تھا،ایک مشہور شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ان کی پیدائش 1653 عیسوی میں پشاور میں ہوئی۔رحمن بابا نے اپنے فن کو روحانیت اور شاعری سے مزین کیا۔ان کی شاعری میں عشقِ حقیقی،انسانی فطرت اور روحانی تجربات کا ذکر ملتا ہے۔رحمن بابا کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی سادگی اور دل نشینی ہے،جو قاری کو گہرے روحانی جذب و کیف سے روشناس کراتی ہے۔

ان کی شاعری میں عام آدمی کی زندگی کی مشکلات،انسانی پیچیدہ رویوں،کمزوریوں اور اﷲ سے لو لگانے کی تڑپ کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔رحمن بابا کی سب سے مشہور تصنیف ان کا دیوان ہے جو پشتو ادب کا نگینہ ہے۔ان کی شاعری نے پشتون ثقافت اور زبان پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور رحمن بابا کو پشتو زبان کا اہم ترین شاعر بنا دیا ہے۔ ان کی زندگی اور ان کی شاعری آج بھی دلوں کو گرماتی،گداز بخشتی ہے۔پشاور میں ان کے مزار پر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے،جو ان کی روحانی عظمت اور خوبصورت شاعری کی مقبولیت کی نشان دہی کرتا ہے۔وہ لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اور ان کی تعلیمات عوام و خاص کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

خوشحال خان خٹک شاید1613 میں پیدا ہوئے۔17ویں صدی کے پشتو زبان کے یہ انتہائی اہم شاعر،اپنے قبیلے کے سربراہ اور ایک نڈر و تیز طرار جنگجو تھے۔خوشحال خان خٹک نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مغلوں کی مدد کرنے میں بسر کیا۔وہ مغلوں کو پشتون جنگجوؤں سے بچاتے رہے ۔وہ مغلوں کے لیے یوسف زئیوں اور آفریدیوں سے بھی لڑے لیکن جب مغلوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی اورقبیلے کی سرداری سے انھیں محروم کر کے ان کے بیٹے کو ان کی جگہ دے دی تو خوشحال خاں مغلوں کے خلاف برسرِ پیکار نظر آئے۔خوشحال خان خٹک مغلوں سے ناراض ہونے کے بعد تمام پشتونوں کو اکٹھا کرنے،یکجا کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔

اب ان کی شاعری کا مرکزی موضوع تمام پشتونوں کا اتحاد بن گیا۔ جناب خوشحال خان خٹک نے عام طور پر پشتو میں لکھا لیکن انھوں نے فارسی میں بھی لکھا۔قبیلے کے چیف کی حیثیت بحال کروانے کے لیے جناب خوشحال خان خٹک نے ہندوستان کے اس وقت کے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے اس سلسلے میں اختیار کو چیلنج کیا اور کئی جھڑپوں میں مغلوں کو شکست بھی دی۔

خوشحال خان کی مزاحمت اور رویے نے پشتون تاریخ کو بہت کچھ دیا،بہت enrichکیا۔انھوں نے کئی عربی اور فارسی مخطوطات کا پشتو میں ترجمہ بھی کیا۔جناب خوشحال خان خٹک نے شیخ رحمکار جنھیں کاکا صاحب بھی کہا جاتا ہے،ان کے ہاتھ پر سلوک کی منزلیں طے کیں۔مرنے سے پہلے کاکا صاحب نے کہا کہ اس دور میں خوشحال خٹک کی طرح نیک اور صالح رہنا بہت مشکل ہے۔کاکا صاحب نے کہا میری خواہش ہے کہ میری تمام آخری رسومات، اگر ممکن ہو تو خوش حال خان خٹک ادا کرے۔خوشحال خان خٹک 75سال کی عمر میں تیراہ کے علاقے میں فوت ہوئے اور اپنے آبائی علاقے میں دفن ہوئے۔

قارئینِ کرام ملکی ترقی کے لیے مملکت کے اندر پائیدار امن و استحکام بہت ضروری ہے۔چین نے بھی حالیہ دنوں میں موجودہ پاکستانی قیادت کو یہی مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کو سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال بہت بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔اس صورتحال میں ملکی اداروں نے باہم مشورے سے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے جسے آپریشن عزم و استحکام کا نام دیا گیا ہے۔شاید آپریشن کے لفظ سے غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں ورنہ یہ پروگرام کسی حوالے سے کوئی مسلح آپریشن نہیں بلکہ اس میںتمام متعلقہ ادارے مل کر امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔اس کا اعلان ہوتے ہی اس کے خلاف ایک شور بپا ہو گیا ہے۔ابھی تک یہ پروگرام ایپکس کمیٹی سے ہو کر کابینہ میں منظور ہو چکا ہے۔

ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں وزیرِ اعلیٰ گنڈا پور صاحب بھی شریک تھے۔اب یہ قومی اسمبلی میں بحث و مباحثہ اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔موجودہ خراب حالات میں پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شخص خواہش کرتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور امن و امان ہو تاکہ معیشت کی بہتری کی کوئی شکل نکلے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے قائدین قومی اسمبلی کے اندر پوری سنجیدگی سے اس پر بحث کر کے بہتر سے بہتر بنائیں اور اگر کوئی سمجھتا ہو کہ یہ پروگرام مناسب نہیں تو اسے متبادل اور بہتر تجویز دینی چاہیے۔خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں