10

سیاسی فرقہ پرستی اور جمہوری سیاست

[ad_1]

معروف دانشور، استاد ، مصنف،محقق اور شعبہ سیاسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رسول بخش رئیس علمی و فکری حلقوں میں اپنا ایک منفرد نام رکھتے ہیں۔ ریاستی وسیاسی وسماجی نظام سے جڑے معاملات پر گہرائی سے لکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کا ایک کالم ’’ سیاسی فرقہ پرستی ‘‘ پڑھنے کوملا۔ انھوں نے موجودہ سیاسی صورتحال اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم پر لکھا ہے کہ ’’یہ اصطلاح شائد ہی آپ نے کبھی سنی یا پڑھی ہو ۔مگر آج کل سیاسی تقسیم جو کئی ممالک میں جڑ پکڑ چکی ہے کو سمجھنے کے لیے سیاسیات کے میدان میں یہ اصطلاح استعمال ہورہی ہے۔موجودہ دور کے معاشروں میں سیاسی پولرائزیشن یا قطعیت ایک تلخ حقیقت ہے ۔

ان کے بقول سیاست کا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ لوگ جب ایک جغرافیائی حدود کے اندر ایک سیاسی اکائی کی صورت میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان اختلافات اور مفادات کا ٹکراؤ ایک فطری بات ہے ۔کچھ عناد اور مخاصمت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ سیاست کا کام امن اور استحکا م پیدا کرنا ہے اور اس کے لیے آئین ، قانون، ریاستی اداروں، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔‘‘

ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بنیادی نقطہ یہ ہی اٹھایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں حالانکہ اختلافات پیدا ہونا، مختلف سیاسی ، سماجی سوچ کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہم سوالات اٹھاتے ہیں ، تنقید کرتے ہیں، یوں ایک متبادل سوچ آتی ہے جس کے نتیجے میںمکالمے کا آغاز ہوتا ، جمہوری طرز عمل کو فوقیت ملتی ہے اور جمہوری سسٹم مضبوط ہوتا جاتا ہے ۔لیکن ہم نے سیاسی اختلافات کو سیاسی فرقہ پرستی کی شکل دے دی ہے اور سیاسی اختلافات دشمنی میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

مکالمے کے مقابلے میں ہٹ دھرمی غالب ہوگئی ہے، اپنی بات کو سچا قرار دے کر بزور دوسروں پر مسلط کرنے کا رجحان جنم لے رہا ہے اور اگر بات نہ مانی جائے تو جلاؤ گھیراؤ میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر کافی حد تک متشدد ہو گیا ہے ۔

یہ کلچر گراس روٹ لیول تک جا چکاہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کررہی ہیں، انھیں تشدد پسندی پر ابھار رہی ہیں، سیاسی اور مالی مفادات کے تحفظ کرنے اور اقتدارحاصل کرنے کے لیے عوام میں مذہبی انتہاپسندی، فرقہ پرستی، نسلی،لسانی اور علاقائی تعصبات کو بڑھا رہی ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی زبان یا سیاسی ڈکشنری میں ایسے الفاظ کی بھرمار ہے جو نفرت کی سیاست کو فروغ دیتے ہیں ۔ مذہبی سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین پر اسلام مخالف ہونے کے الزامات کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔

ماضی میں ہم نے 1977سے لے کر 2005 تک اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو سیاست دیکھی ہے۔ اس دور میں پیپلزپارٹی کے حامی اور مخالفین کی سیاسی جنگ میں شدت پسندی ، پرتشدد رجحانات اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنا تھا۔ آج ہماری سیاست میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخالفت کے بجائے اینٹی عمران خان اور پرو عمران خان سیاست کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ یہ لڑائی ماضی کی سیاسی لڑائی سے مختلف ہے کیونکہ آ ج جدید میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی فرقہ پرستی یا سیاسی شدت پسندی یا سیاست میں تشدد پر مبنی رجحانات محض 2011ء کی سیاست کے بعد شروع ہوئے وہ غلطی پر ہیں ۔یہ ہی مناظر ہم ماضی کی سیاست میں بھٹو حمایت اور مخالفت میں دیکھ چکے ہیں۔ البتہ اب ان معاملات میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد شدت پسندی کی نئی جہتوں کو بھی دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔

یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے اور اپنے اندر ایک دلیل بھی رکھتی ہے کہ جب ریاستی نظام کو ہم اپنی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کی بنیاد پر جمہور کی بنیاد پر چلائیں گے تو معاشرے میں صرف جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں باہمی سیاسی احترام ، سیاسی ہم آہنگی سمیت رواداری پر مبنی کلچر مضبوط ہوگا۔ یہ جو ہمارے معاشرے میں جاگیردارانہ یا آمرانہ مزاج پر مبنی سیاست ہے اس نے جمہوری عمل کو کمزور کیا ہے ۔ جب سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے مقابلے میں طاقتور افراد کا کنٹرول ہوگا ، طاقتور طبقے ریاستی نظام میں جوابدہ نہیں ہوں گے، وہاں شخصیت پرستی یا سیاسی بت پرستی کا کلچر پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ یہ سوچ ہی خطرناک ہے کہ صرف ہماری جماعت اور ہمارا لیڈر ہی سچا، ایماندار، محب الوطن اور مدبر ہے اور باقی سب جھوٹے،کرپٹ اور ملک دشمن ہیں،اس سوچ کو کلچر بننے سے پہلے ہی ختم کرنا ضروری ہے۔

ہم یہ بھول رہے ہیں کہ لوگوں میں جو شدت پسندی پائی جاتی ہے اس کی ایک وجہ جہاں قیادت کے ساتھ اندھی محبت ہے تو وہاں لوگ روائتی سیاسی ، سماجی ، انتظامی ،قانونی اور معاشی نظام سے بھی نالاں ہیں ۔جب لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو ان میں روائتی سیاست اور سیاستدانوںکے خلاف نفرت پیدا ہوگی ۔ڈاکٹر رسول بخش نے درست کہا کہ اس سیاسی تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی مخالفین اچھے سلوک کے مستحق خیال نہیں کیے جاتے۔ سیاسی مخالفین کے بھی انسانی حقوق ہوتے ہیں مگر ہم ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس ضمن میں سیاسی مخالفین کو اپنی سیاست کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اگر ہم نے جمہوریت کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے سیاسی نظام سے آمرانہ مزاج ، فسطایت ، پرتشدد رجحانات سے جان چھڑانی ہوگی ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں