[ad_1]
وزیر اعلیٰ کے پی، کے مشیر اطلاعات اور مشیر خزانہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام ممکن نہیں، اس لیے سیاسی مقدمات میں قید سابق وزیر اعظم کو فوری رہا کیا جائے۔ موجودہ حکومت کا خاتمہ اور پی ٹی آئی مینڈیٹ کی واپسی ہی ملک کے مسائل کا واحد حل ہے۔ مختلف پارٹیاں بدل کر کے ، پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان جو پہلے جنرل پرویز مشرف کے غیر منتخب وزیر اور بعد میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے اور بعد میں دو پارٹیاں بدلنے والے مشیر اطلاعات کے پی، کے بیان کا واضح مطلب ہے کہ پی ٹی آئی بانی کو رہا کر کے انھیں وزیر اعظم بنا دیا جائے تو ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا اور کے پی کے بعد وفاق اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم کر دی جائے۔
قومی اسمبلی کا رکن بنے بغیر وزیر اعظم بنانا جمہوری نظام میں تو ممکن نہیں اور بانی پی ٹی آئی نااہل بھی ہو چکے ہیں جن پر بے شمار مقدمات ہیں جنھیں موجودہ پارلیمنٹ اقتدار دے سکتی ہے نہ عدلیہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا حکم دے سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے ان دو غیر منتخب مشیروں کی خواہش موجودہ جمہوریت میں تو ممکن نہیں اس لیے پی ٹی آئی کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ ملک میں مارشل لا لگ جائے اور پارلیمنٹ توڑ کر حکومت ختم کر دی جائے تو اس صورت میں سابق وزیر اعظم کو بھی اپریل 2022 کی پوزیشن پر بحال کر دیا جائے تو ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا۔ پی ٹی آئی کو یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ پی ٹی آئی مخالف تمام پارٹیوں پر پابندی لگا کر تمام حکومتی عہدیداروں کو جیل بھیجا جائے جس کے بعد سیاست میں صرف پی ٹی آئی ہو تو ملک سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے گا اور بانی چیئرمین اقتدار میں آ کر ملک کو سیاسی استحکام دیں گے اور ان کو اقتدار میں لانا ملک کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی رہنما بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں پاکستان صرف اس صورت قبول ہوگا جب بانی اقتدار میں ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ رجیم تبدیل کرنے سے تو بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم پھینک دیا جاتا۔
بانی چیئرمین کی پی ٹی آئی سمیت جن 6 اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا ہے جس کے بعد پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن و دیگر نے پریس کانفرنس میں عزم استحکام کے متعلق کہا ہے کہ موجودہ حالات میں آپریشن عزم استحکام نہ کیا جائے اور آئین پر عمل کر کے ہی ملک کو بحران سے نکالا جاسکتا ہے، فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔
وفاقی حکومت واضح کررہی ہے کہ آپریشن عزم استحکام گزشتہ ضرب عضب اور راہ نجات جیسا مسلح آپریشن نہیں ہے۔ عزم استحکام میں نقل مکانی کی ضرورت نہیں اس کا مقصد معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے محفوظ ماحول یقینی بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں غیر ضروری بحث ختم کی جائے، حکومت آپریشن عزم استحکام پر اتفاق رائے کے لیے سیاسی قیادت سے رابطے بھی کرنا چاہتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی کانفرنس یا پارلیمان کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا بھی امکان موجود ہے۔
نہ جانے اس آپریشن کا نام عزم استحکام کیوں رکھا گیا ہے کیونکہ ملک میں فروری کے انتخابات کے بعد 2018 جیسا سیاسی عدم استحکام موجود ہے جس کے بعد سے یہی صورت حال چلی آ رہی ہے جس کے دوران پی ٹی آئی نے پونے چار سال اور بعد میں پی ڈی ایم نے سوا سال حکومت کر کے اسمبلی کی مدت پوری کرائی تھی۔ اس سے قبل 2013 میں بھی پی ٹی آئی نے دھرنے دے کر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار رکھا تھا جس کے بعد سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں رہا۔
ملک کو دس سال سے پی ٹی آئی نے خود اقتدار میں رہ کر اور اپوزیشن میں رہ کر سیاسی طور پر کبھی مستحکم نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ ایسا سیاسی استحکام چاہتی ہے کہ جس میں صرف پی ٹی آئی کو سیاست کرنے کا اختیار ہو اور وہ اقتدار میں رہ کر اپوزیشن کا وجود ختم کر دے جب کہ جمہوریت میں ایسا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ ایسا تو ملک میں غیر جمہوری حکومتوں میں بھی ممکن نہیں ہوا تھا۔ پی پی، (ن) لیگ، جے یو آئی و دیگر پارٹیوں نے دور آمریت میں سیاسی جدوجہد بھی کی اور ان کے رہنما اور قائدین جیلوں میں بھی رہے مگر انھوں نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا تھا حالانکہ ان کا مقصد بھی حصول اقتدار تھا۔
ملک میں اب سیاسی حکومت ہے آمریت نہیں ہے مگر پی ٹی آئی نے اقتدار سے محرومی کے بعد ملک میںاسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار سمجھا پھر ان کے خلاف سانحہ 9 مئی کرایا جس کے باعث تو ابھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی سزا ہی نہیں ہوئی ہے و دیگر مقدمات میں قید ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ابھی تو وہ سلوک ہوا ہی نہیں جو ماضی میں اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہو چکا ہے اور خود بانی نے اپنی حکومت میں ان دونوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا تھا مگر کبھی دونوں نے ملک دشمنی کی سیاست کی تھی نہ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا تھا۔
دونوں کی جدوجہد رہائی اور مقدمات کے خاتمے کے لیے نہیں تھی جب کہ آج پی ٹی آئی کی ساری کوشش اپنے بانی کی رہائی، مقدمات کے خاتمے اور اپنے اقتدار کے لیے ہے جس کے لیے وہ ملک دشمنی تک پر اتر آئی ہے اور آئین کے مطابق کچھ کرنا نہیں چاہتی اور اس نے اپنے عملی اقدامات، جھوٹی انا کی سیاست کے لیے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے اور اب آپریشن عزم استحکام کو بھی اپنے مطالبے منوانے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آئے گا۔
[ad_2]
Source link