10

سندھ اسمبلی میں نئے مالی سال کے بجٹ اور 76 ارب روپے کے فنانس بل کی منظور

[ad_1]

  کراچی: سندھ اسمبلی نے مالی سال 25-2024کے تین ٹریلین (3.056) روپے مالیت کے صوبائی بجٹ اور 76 ارب روپے مالیت کے سندھ فنانس بل کی منظوری دے دی جبکہ اپوزیشن نے مطالبات مسترد ہونے پر بجٹ کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔

اسپیکر سید اویس قادر شاہ کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوا اوررواں مالی سال 25۔2024کے لیے مطالبات زر ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیے گئے تو اپوزیشن کی جانب سے کئی مطالبات زر کی مخالفت کرتے ہوئے کٹوتی تحاریک پیش کی گئیں جو مسترد کر دی گئیں اور ایوان نے مرحلے وار تمام مطالبات زر کی منظوری دے دی، جس میں سندھ اسمبلی کے اخراجات سے متعلق مطالبات زر بھی شامل تھے۔

اپوزیشن کی جانب سے مخالفت پر قائد ایوان اور وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے مطالبات زر کا تعلق ارکان سندھ اسمبلی کی تنخواہوں سے ہے، کیا آپ لوگوں کو تنخواہیں نہیں چاہئیں۔

ایوان میں جب گورنر سیکریٹریٹ اور وزیراعلی سیکریٹریٹ کے مطالبات زر پیش کیے گئے تو اپوزیشن نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے مطالبات زر پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں منظور نہ کیا جائے۔

اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی کٹوتی کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے رکن سندھ اسمبلی مظاہر امام نے وزیراعلی سیکریٹریٹ کے باغیچے کی مد میں غیر ضروری اخراجات روکنے کے لیے کٹوتی کی تحریک پیش کی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ میرا ذاتی باغیچہ نہیں وہاں سرکاری تقریبات ہوتی ہیں، اسی طرح مظاہر امام نے وزیراعلی سیکریٹریٹ کے تحائف کے اخراجات کی مد میں کٹوتی کی تحریک بھی پیش کی، جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وزیراعلی سیکریٹریٹ میں آنے والے مہمانوں کو اجرک اور سندھی ٹوپی کے تحائف دیتے ہیں۔

مظاہر امام کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سکریٹریٹ کے اخراجات میں کمی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی سے سندھ میں عام آدمی کو ریلیف ملے گا تاہم ان کی تحریک رد کردی گئیں۔

انہوں نے وزیراعلی سیکریٹریٹ کی عمارت کی مرمت کے لیے مختص کردہ بجٹ رکھنے کی بھی مخالفت اور کہا کہ مرمت کے نام پر غیر ضروری اخراجات صوبائی خزانے پر ایک بوجھ ہیں لیکن ایوان نے مالی سال25-2024کے لیے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے تمام مطالبات زر منظوری دے دی۔

اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری کے خلاف بھی کٹوتی کی تحریک پیش کی گئی تھی تاہم وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ 7سال سے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے لیے نئی گاڑیاں نہیں خریدی ہیں، میرے زیر استعمال گاڑیاں 10 سال پرانی ہیں، ہم نئی گاڑیاں اسٹاف کے لئے خریدیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے صوابدیدی فنڈ کے خلاف کٹوتی کی تحریک پر کہا کہ یہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں پہلے ہی کم ہے، ایوان نے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو رد کردیا۔

ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق سندھ اسمبلی نے 76 ارب روپے مالیت کے فنانس بل کی منظور ی دے دی ہے، جو وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔

فنانس بل کے تحت ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے 37 ارب روپے، سندھ ریونیو بورڈ کے 22 ارب روپے اور بورڈ آف ریونیو اسٹمپ ڈیوٹی کی مد میں 17 ارب روپے شامل ہیں۔

صوبائی بجٹ میں 959 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کی تجاویز منظور ہوئی ہیں جبکہ صوبے کی کل متوقع آمدنی تین ٹریلین روپے ہے، جس کی 62 فیصد وفاق سے منتقلی ہے اور صوبائی وصولیاں صرف 22 فیصد ہوں گی۔

ایوان نے 22 ارب روپے کے کرنٹ کیپٹل،  77 ارب روپے کی پی ایس ڈی پی کی منظوری دی، اسی طرح 662 ارب روپے کی صوبائی وصولیوں میں 350 ارب روپے کی سروسز پر سیلز ٹیکس، 269 ارب روپے کے جی ایس ٹی کے علاوہ ٹیکس اور 42.9 ارب روپے کی صوبائی نان ٹیکس وصولیوں کی منظوری بھی شامل ہے۔

سندھ اسمبلی سے بجٹ میں6 1.9 ٹریلین روپے کرنٹ ریونیو کی منظوری حاصل کی گئی ہے، سندھ اسمبلی نے بجٹ منظور کرتے ہوئے 184ارب روپے کرنٹ کیپٹل کی منظوری دی، کرنٹ کیپٹل اخراجات میں 42 ارب روپے قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کے لیے ہیں جبکہ 142.5ارب روپے سرکاری سرمایہ کاری کے لیے ہوں گے-

بجٹ کی منظوری کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس برخاست کر دیا گیا۔

فنانس بل کی منظوری

حکومت سندھ نے مالی سال 25-2024 کے لیے سندھ فنانس بل کے ترمیمی مسودہ کی جمعے کو سندھ اسمبلی سے منظوری حاصل کرلی، جس کے تحت سندھ میں پہلے سے موجود کچھ محصولات اور ڈیوٹیوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے اور کچھ نئے ٹیکس متعارف کرائے گئے ہیں۔

سندھ کے نئے فنانس بل کا اطلاق یکم جولائی 2024 کو ہوگا، حکومت کے اس اقدام کا مقصد اپنی آمدن میں اضافے اور اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے۔

فنانس بل کے تحت اسٹمپ ڈیوٹی کے آرٹیکل1اور2میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں غیر منقولہ جائیداد سے حاصل رقم پر  دوہزار روپے تک ڈیوٹی لگائی جائے گی، گاڑی، جائیداد کی فروخت کے معاہدے پر1 ہزار روپے ڈیوٹی عائد ہوگی۔

فلیٹ دکان کے بلڈر الاٹیز کے درمیان معاہدے پر 5ہزار روپے ڈیوٹی ہوگی، مقامی فضائی سفر پر 50روپے، غیر ملکی سفر 400روپے فی ٹکٹ ڈیوٹی سندھ حکومت وصول کرے گی۔

حکومت سندھ کے الاٹمنٹ آرڈر، سند پر 5ہزار روپے ڈیوٹی عائد کی گئی ہے تاہم سیلاب متاثرین کے گھروں،گوٹھ آباد کے الاٹمنٹ آرڈر کو اس ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، لیز، ٹرانسفر، رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری پرڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

اسی طرح ایل سی پر ایک سے 3ہزار روپے ڈیوٹی عائد ہوگی، پارٹنرشپ یا پارٹنرشپ ختم کرنے پر 5 ہزار روپے ڈیوٹی وصول کی جائے گی، ہیلتھ، لائف، فائر گڈز انشورنس پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پاور آف اٹارنی پر ایک سے7ہزار روپے ڈیوٹی عائد ہوگی۔

حکومت سندھ نے سندھ موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کردی ہے، جس کے تحت 3 ہزار سی سی کی امپورٹڈ گاڑیوں پر 4.5 لاکھ ٹیکس عائد ہوگا، 2 ہزار سی سی امپورٹڈ گاڑیوں پر دو لاکھ75ہزار روپے ٹیکس ہوگا۔

مقامی تیار کردہ دو ہزار سی سی گاڑیوں پر 50ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا، 1500 سی سی مقامی ساختہ گاڑیوں پر25 ہزار روپے ٹیکس لگایا گیا ہے، پیٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشنز پر20 ہزار روپے ٹیکس ہوگا، تمام دکانوں، فیکٹریوں، اسٹیٹ ایجنسی پردو ہزار روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

سندھ میں سیلز ٹیکس میں ترمیم کرکے نئے سیکٹرز کو بھی شامل کردیا گیا ہے، ٹیلی مارکیٹنگ، مارکیٹنگ، آٹوموبائل موٹروہیکل شاپس، ایجوکیشن سروسز پر سیلز ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔

فارم ہاوسز، تمام نجی تعلیمی اداروں پر بھی سندھ سیلز ٹیکس کا اطلاق ہوگا، اسی طرح اسپتالوں،کنسلٹنٹ کلینکس پر سندھ سیلز ٹیکس کا اطلاق ہوگا اور انہیں اس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔

ریزورٹ، ہٹ، گیسٹ ہاوسز، لاجز سندھ سیلز ٹیکس میں شامل ہیں،گیمنگ زون، اسپورٹس جیالوجیکل سروے پر سندھ سیلز ٹیکس کا نفاذ ہوگا۔

سندھ سیلز ٹیکس کی شرح 13 فیصد سے بڑھا کر15فیصد کردی گئی ہے۔

منظور شدہ فنانس بل کے مطابق ای انوائس نہ کرنے پر جرمانہ 10لاکھ روپے ہوگا اور خلاف ورزی کے مرتکب کاروباری افراد کے کاروبار کی جگہ بند کردی جائے گی، ای انوائسنگ سے انکار پر ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال سزا ہوسکتی ہے، خدمات پر سندھ سیلز ٹیکس جمع نہ کرانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، معاہدے کے ذریعے وفاقی ٹیکس ادارے فائلرز کا ڈیٹا شیئر کریں گے۔

حکومت سندھ نے سندھ انفرااسٹرکچر سیس میں بھی اضافہ کر دیا ہے،کسی بھی قسم کی پارٹنرشپ کرنے یا ختم کرنے پر 5 ہزار روپے ٹیکس دینا ہو گا، انشورنس کی تجدید پر بھی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، سمندری جہاز کی انشورنس پر 5 ہزار روپے صوبائی حکومت وصول کرے گی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں