7

ہمارا معاشرہ …رافعیہ قاسم – ایکسپریس اردو

[ad_1]

معاشرہ وہ تعلقاتی نظام ہے جہاں لوگ مل جل کر آپس میں محبت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات بناتے ہیں۔ جہاں سب کے لیے قانون ایک جیسا ہوتا ہے، جہاں تمام لوگ اخلاقی اقدار اور قوانین کو مانتے ہیں۔ معاشرے میں لوگوں کے درمیان تعاون اور احترام کی بنیاد پر رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک خوشحال معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

معاشرے میں ہم جیسے لوگ یعنی میرے اور آپ کے جیسے لوگ ہی بستے ہیں جب تک ہم درست نہیں ہوں گے، جب تک ہم ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ بنانے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آج ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح خاندان بدحالی اورگھریلو ناچاقیوں کا شکار ہیں۔ غیبت، حسد، بغض اورکینہ ہمارے گھروں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ خاندان میں پائے جانے والے مقدس رشتے انہی چیزوں کے چنگل میں آکر لڑائی جھگڑوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں ہمیں روزمرہ کی بنیاد پرگھریلو معاملات میں ساس بہو کے لڑائی جھگڑوں کے بارے میں سننے کو ملتا ہے۔

لڑائی جھگڑے اور تصادم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، وہ گھر میں خواتین کا معمولی جھگڑا ہو یا جائیداد کے پیچھے لڑتے مرد حضرات گھر میں ہونے والے ایسے فتنے فساد سے معاشرے میں بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لڑائی جھگڑوں سے خاندان کے خاندان اجڑ جاتے ہیں اور یوں معاشرے کے ماحول پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دوسری جانب آج کل کے دور میں ازدواجی رشتے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ طلاق کی شرح دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان ہونے والے لڑائی جھگڑوں کا اثر سب سے زیادہ ان کے معصوم بچوں پر ہوتا ہے۔

آج خاندانی اور نجیب الطرفین افراد کو معاشرے میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ ایک جانب جہاں وراثتی رویہ انسان کی شخصیت میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب ماحول اور نظریات بھی انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی صحبت میں رہ کر بداخلاق بچہ بھی عمدہ اخلاق سیکھ ہی جاتا ہے مگر بری صحبت اور ماحول کسی بھی فردکے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اسی طرح کسی بھی انسان کا رویہ خوشی غمی خوف حیرت جیسے موقع پر ابھرکر سامنے آتے ہیں اور یہ ہمارے نظریات، احساسات، خیالات، تاثرات اور الفاظ کے ذریعے بیان ہوتے ہیں اور دوسروں تک پہنچتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر والدین اپنی اولاد کو کسی مخصوص کام پر شاباشی دیتے ہیں اور سراہتے ہیں تو بچہ اپنے اس عمل سے خوشی محسوس کرتا ہے اور وہ اپنے اس عمل کو اپنی عادت بنا لیتا ہے۔

تعریف ایک ایسا لفظ ہے جو ہر انسان کے دل میں خوشی کی امنگ پیدا کرتا ہے اور حوصلہ بلند کرتا ہے۔ تعریف اگر شوہر بیوی کی کرے تو وہ سارے گھرکا کام کر کے بھی نہیں تھکتی، ماں بچے کی کرے تو وہ اس کو خوش کرنے کے لیے اس کی آؤ بھگت کرتا ہے، بیٹا باپ کی کرے تو اس کے سارے دن کی تھکن اتر جاتی ہے، استاد طالب علم کی کرے تو طالب علم اگلی بار زیادہ محنت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

تعریف کرنا یا دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا ایک مثبت رویہ ہے جو معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے برعکس کسی کی دل آزاری کرنا طنزکے تیر برسانا اور لوگوں کے کاموں میں عیب نکالنا اور سب سے بڑھ کر کسی کا حوصلہ پست کرنا جلن اور حسد کی نشانی ہے اور اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہے۔ انسان کے منہ سے نکلے کچھ الفاظ چنگاری کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اور آگ لگا دیتے ہیں۔ اس آگ میں کبھی ایک فرد اور کبھی پورے کا پورا خاندان یا خاندانی نظام جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔

ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو حوصلہ بڑھانے سے زیادہ حوصلہ پست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ ان کی خصلت اور عادت میں شمار ہوتا ہے۔ ایسا زیادہ تر نوجوان نسل کے ساتھ ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں لڑکیاں بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں ہمارا کبھی کبھار قدیمی سوچ کے لوگوں سے سامنا ہو جاتا ہے۔ جن کوکئی مواقعے پر ایسا لگتا ہے کہ لڑکیاں سوائے چولہے چوکے کے کچھ نہیں کر سکتی یا ورکنگ وومن ایک کامیاب گھریلو عورت بننے کے لائق نہیں ہے اور وہ گھر اورکام کے توازن کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ہمارے معاشرے کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج کے کچھ لوگ دولت و شہرت کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔

آج جو انسان غربت اور مفلسی کا شکار ہوگا وہ جس راستے سے گزرے گا لوگ اس راستے سے گزرنا بھی پسند نہیں کریں گے یا اس کو دیکھ کر راستہ تبدیل کر لیں گے اور خوش قسمتی سے اگر دولت اس کا مقدر ہو اور اس کا درکھٹکھٹا دے تو لوگ اس انسان کی آؤ بھگت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ غربت میں انسان کے دکھ اور غم کا ساتھی اس کا سایہ ہوتا ہے اور امیر کے گھر خوشی کی روٹی کھانے کے لیے لوگ بھاگتے دوڑتے جاتے ہیں۔

معاشرہ ایک عرصے سے متروک ہوتا چلا آرہا ہے جہاں اشرافیہ خاندان کے لوگ عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ جہاں انصاف بکتا ہے، جہاں انسانی حقوق بری طرح پامال ہوتے ہیں، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں عوام صدیوں سے مہنگائی کا شکار ہے، جہاں بجلی کا بحران ہے، جہاں جرائم اور ڈکیتی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے، منشیات عام ہے اور کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں، یہاں راہ چلتی عورت کی عزت محفوظ نہیں ہے ہمارا معاشرہ وہ معاشرہ ہے جہاں ننھے معصوم پھول جیسے انسانیت کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جہاں بچوں کو تعلیم سے محروم کر کے کاروباری سرگرمیوں میں یا گھریلو ملازمت پر لگا دیا جاتا ہے۔

صنعتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں، اور مزدور دن بدن بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیم مہنگی ہوتی جا رہی ہے، اور نوجوان نسل بے روزگاری سے پریشان ہے۔ ہمارے معاشرے کا کلچرکیا ہے؟ جہاں مغربی طرز عمل اختیارکیا ہوا ہے۔ جہاں کے لوگ انڈیا کی فلموں ڈراموں اور موسیقی پر فدا ہیں۔ اس معاشرے میں فرقہ بندی جاگیردارانہ نظام، اقربا پرستی، لسانی وگروہی تعصبات، عروج پر ہیں رشوت نے ملک پر ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔

بہرحال یوں تو ہمارے معاشرے کے بہت سارے مسائل ہیں، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب معاشرتی مسائل اور پریشانیوں کا حل کیسے ممکن ہے؟ یہاں ہماری خود کی سوچ اور عمل کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ ہمیں سماجی مسائل کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں سماجی انصاف اور عدل کے لیے آواز اٹھانی چاہیے اور سماجی تبدیلیوں کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہر شخص کی چھوٹی چھوٹی کوشش بھی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔

ایک ترقی یافتہ معاشرے کو جنم دینے کے لیے معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کا آپس میں تعاون اور ایک ہونا ضروری ہے۔ اس کو بنانے کے لیے لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانیں ایک دوسرے کا احترام کریں چاہے وہ امیر ہو یا غریب سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور ان کے حقوق کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں رہنے والے افراد مختلف مذاہب، تہذیب نظریات، خیالات و افکار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی سوچ، نقطہ نظر ایک دوسرے کے مذہب، خیالات و افکار اور نظریات کو سمجھیں اور ان کا احترام کریں اسی طرح سے ترقی یافتہ معاشرے پروان چڑھتے ہیں۔ معاشرے میں لوگ اخلاقیات اور قوانین کو مشترکہ اصولوں کو ماننے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ایک متوازن معاشرہ قائم ہو سکے۔

حکومت اور دیگر اداروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو معاشرتی بہتر مقام کے لیے کام کرتے ہیں۔ حکومت کو سماجی مسائل کا اندراج کرنا، قانون کو بنانا اور لاگو کرنا، اقتصادی ترقی کو ترویج کرنا، تعلیمی امکانات فراہم کرنا اور صحت کی خدمات کو بہتر بنانا وغیرہ جیسے کاموں کے لیے ذمہ دار ہوتی ہے۔ اداروں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے جو معاشرتی خدمات فراہم کرتے ہیں مثلا پولیس، صحت، تعلیم وغیرہ یہ ادارے معاشرتی حفاظت امن اور ترقی کو ممکن بنانے میں مدد کرتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں