8

انکم سپورٹ پروگرام اور خواتین کی مشکلات

[ad_1]

اس میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام غریب خواتین کی مالی معاونت کا ایک اچھا پروگرام ہے اور یہ پیپلزپارٹی کا مقبول ترین پروگرام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پروگرام سے وظیفہ لینے پر غریب خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو پروگرام کی بدنامی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام پر میڈیا میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، اس پروگرام کے تحت خواتین کو عزت کے ساتھ وظیفہ ملنے کی بجائے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس پروگرام کے حوالے سے غریب خواتین کی شکایات کی ایک لمبی داستان ہے۔ اس تناظر میں سوشل میڈیا پر غریب خواتین کی فریادیں اور شکایات مسلسل آتی رہتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام میں سوشل میڈیا پر غریب خواتین کی شکایات میں ایک مضبوط آواز بدین کے گاؤں کی ایک غریب خاتون حاجانی شیدی کی ہے جو کہ تمام مظلوم خواتین کی نمائندگی کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر رائے دیتی ہیں اور وہ اپنے انوکھے انداز سے مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں جسے بہت زیادہ سنا جاتا ہے اور ان کے کافی ویڈیوکلپ اس حوالے سے وائرل بھی ہوئے ہیں۔

ایک تبصرے میں، وہ یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ جب مقامی انتظامیہ یا ایجنٹ جوکہ انکم سپورٹ پروگرام فراہم کرتی ہے، ہر خاتون سے 1500 روپے لیتی ہے، تو وہ عزت کے ساتھ یہ رقم وصول کرنے کا بھی انتظام نہیں کرتے۔ ہم غریب عورتیں دور دراز علاقوں سے کرائے کی گاڑی سے آتی ہیں اور یہاں چھاؤں میں بیٹھنا تو دورکھڑے ہونے کا بھی انتظام نہیں ہے۔ نہ خیمے اور سایہ اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے کرسیاں ہیں۔ پانی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ سروس نہیں چل رہی اورکہیں گے کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جب 1500 روپے کٹوتی کر رہے ہیں تو۔ کبھی آدھے پیسے دے دیتے ہیں لیکن کھانے کو ایک پیکٹ بریانی ہی دے دیں یا پانی کا انتظام کریں۔

ان کے مطابق پہلے وہ امدادی رقم بینک سے نکالتی تھی لیکن گزشتہ تین سال سے یہ رقم دکانداروں کے ذریعے دی جاتی ہے جس سے معاملہ انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ زیادہ تر خواتین کا عملے سے جھگڑا ہوتا ہے یا قطار میں پہلے کھڑے ہونے پر خواتین کو مارا پیٹا جاتا ہے جس میں کئی خواتین زخمی ہوکر خون بہہ کر واپس لوٹ جاتی ہیں، ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں وہ روزے سے پورا دن قطار میں کھڑی رہتی ہیں۔ بعض اوقات شدید گرمی میں عورتیں بے ہوش ہوجاتی ہیں اس طرح جینے سے بہتر ہے کہ اس رقم کو ہی نہ دیا جائے۔

اس لیے بہتر ہے کہ ہر عورت کو بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کا اختیار دیا جائے تاکہ وہ جب چاہے رقم نکال سکے یا بینک میں اپنے اکاؤنٹ میں محفوظ رکھے تاکہ وہ قطاروں میں کھڑے ہونے کی تکلیف سے بچ سکیں۔ میں اپنے کالم کے ذریعے حکومت کو مشورہ دوں گی کہ وہ اس معاملے پر غور کرے اور بینک کے ذریعے خواتین کو عزت اور احترام کے ساتھ یہ امداد فراہم کرے۔

ڈیوائس ایجنٹ غیر قانونی طور پر رقم اور بچوں کے وظیفہ سمیت اہل خواتین کے وظیفہ سے1500 تک کاٹ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ BISP والوں کی جانب سے کم آیا ہے یا پھر دیگر بہانے کیے جاتے ہیں جبکہ ایجنٹس بھی مرد حضرات رکھے گئے ہیں اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی، بد اخلاقی پر مبنی رویہ اختیار رکھے ہوئے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ خواتین کو کیش کی فراہمی میں آسانی کیلئے اقدامات کرتے ہوئے ان ڈیوائس ایجنٹس کیخلاف کارروائی کرے جو خواتین سے رقم کی کٹوتی کررہے ہیں اور ایجنٹس /سٹاف کیلئے خواتین کو تعینات کیا جائے جو باآسانی خواتین کو وظیفہ کی مکمل فراہمی یقینی بنائے۔

دوسری جانب سروے اور نئی انٹری کے نام پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے دفتر کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں خواتین ٹوکن لینے اور ٹوکن لیکر وظیفہ لینے کے لیے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں، سینکڑوں خواتین دفاتر کا چکر لگاتی رہتی ہیں۔ ان خواتین کی اس طرح کی تضحیک قابل افسوس اور قابل گرفت ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کے تقدس کی پائمالی اور ان کی تذلیل کے ناقابل معافی جرم کی مرتکب ہونے سے گریز کرے اور خواتین کے اس پروگرام کیلئے وظیفے کی فراہمی و دیگر معلومات کیلئے خواتین اسٹاف کو ہی تعینات کیا جائے تاکہ اس پروگرام سے استفادہ کرنیوالی خواتین کے مسائل و مشکلات میں کمی آسکے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں