[ad_1]
میڈیا اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے خسارے میں چلنے والی پاکستان اسٹیل ملز کو ختم کرنے اور صوبہ سندھ کو اس کی زمین عام صنعتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ معاملہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اٹھایا ۔ وفاقی حکومت ، سندھ حکومت کیساتھ مل کر اسٹیل ملز کی زمین پر نئی اسٹیل مل لگانے پر بھی غورکر رہی ہے۔
ان فیصلوں کو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل کی حمایت حاصل ہے۔ حکومت سندھ بیمار صنعتی یونٹ کی باقی ماندہ 1683ایکڑ غیر تبدیل شدہ اراضی کی میو ٹیشن کو یقینی بنا سکتی ہے۔ حکومت نے وزارت صنعت و پیدا وار کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسٹیل ملز کی زیر قبضہ اراضی کی کلیئر نس کو یقینی بنائے اور اس کا قبضہ بحال کرے۔ معاملے کی نگرانی کیلئے ایک کمیٹی کو مطلع کیا جائے گا۔ صنعت و پیداوار کی وزارت اسٹیل ملز کی پوری زمین پر ایکسپورٹ پروموشن زون یا خصوصی اقتصادی زون کے قیام کیلئے ایک جامع منصوبہ پیش کرے گی۔
ایس آئی ایف سی نے وزارت کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ حکومت سندھ کے تعاون سے نئی اسٹیل ملز کے قیام کیلئے زمین مختص، ایئر مارک کی جائے۔ پاکستان اسٹیل ملز، عام بول چال میں پاک اسٹیلز کے نام سے جانا جاتا ہے، پاکستان کی ایک سرکاری کمپنی ہے جو ملک میں لونگ رولڈ فولاد اور بھاری دھاتی مصنوعات تیار کرتی تھی۔ 1970ء کی صدارتی کابینہ نے پاکستان اسٹیل ملز کی فزیبلٹی رپورٹ کی منظوری دی تھی۔
پاکستان اسٹیل ملز، جس کا صدر دفتر کراچی، سندھ میں ہے ، اپنے وقت کی پاکستان کی سب سے بڑی صنعتی کارپوریشن رہا ہے، جس کی پیداواری صلاحیت 1.1 سے لے کر 5.0 ملین ٹن تک اسٹیل اور آئرن فاؤنڈریز تھا۔1970ء کی دہائی میں سوویت یونین کے وسیع تعاون سے تعمیر کی گئی یہ سب سے بڑی صنعتی میگا کارپوریشن کمپلیکس میں سے ایک رہا ہے، جس میں 1.29 ملین کیوبک میٹر کنکریٹ اور 5.70 ملین کیوبک میٹر دیگر تعمیراتی مواد اور تقریباً 330,000 ٹن بھاری مشینری، اسٹیل کے ڈھانچے اور برقی آلات کا استعمال ہوا ہے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں، نجکاری پروگرام کے تحت اسٹیل ملز کو عالمی نجی ملکیت میں دینے کی ایک متنازع کوشش کی گئی تھی، تاہم عدالت نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اس کے بہت بڑے سائز اور توسیع کے باوجود، کارپوریشن کی صلاحیت کا صرف 18 فیصد استعمال میں ہے، جس نے پاکستان اسٹیل ملز PSMC کو بیل آؤٹ پلان کی درخواست کرنے پر مجبور کیا۔ اس کی بندش کو روکنے کیلئے بارہ ارب روپے کے بیل آؤٹ پلان کو حکومت پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔ آخرکار، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ایک انسداد نجکاری پروگرام کے تحت اسٹیل ملز کو واپس حکومتی ملکیت اور انتظام میں لایا گیا۔
حکومت کی مالی مدد حاصل کرنے کے بعد اس کی حالت سنبھلی ہے اور اس کے آپریشنل پلانٹ کی صلاحیت 30 فیصد سے 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے زوال کی ایک اہم وجہ 2008ء کے بعد سے انتظامیہ اور یونین لیڈروں کی وسیع پیمانے پر بدعنوانیاں، سیاسی بھرتیاں، ترقیوں اور بڑے عہدوں پر تقرری، طرف داری کی بنیاد پر ہونا ہے۔ محمد بن قاسم بندرگاہ یا مقتدرہ قاسم بندرگاہ بحیرہ عرب پر کراچی سے 35 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ کراچی کے بعد یہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 1.7 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے جو پاکستان کے کل تجارتی حجم کا تقریباً 35% ہے۔ اسے 1970ء کی دہائی میں کراچی کی بندرگاہ پر رش کو کم کرنے کی غرض سے تعمیر کیا گیا۔
بندرگاہ کا نام آٹھویں صدی عیسوی کے مسلم فاتح محمد بن قاسم کے نام پر رکھا گیا ہے جنھوں نے یہ علاقہ 712ء میں فتح کر کے مسلم مملکت میں شامل کیا تھا۔ بندرگاہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا اور پاکستان اسٹیل ملز کے قریب تعمیر کی گئی ہے۔ مقامی لوگ اسے عموماً اس کے مختصر نام پورٹ قاسم سے جانتے ہیں۔ اسٹیل ٹاؤن، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی رہائشی آبادی ہے، جو 8,126 ایکڑ (3,288 ہیکٹر) زمینی رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں ملازمین کیلئے سبسڈی والے کرائے کی رہائش گاہیں ہیں۔ یہ N-5 قومی شاہراہ کیساتھ واقع ہے جو کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف جاتی ہے۔
اسٹیل ٹاؤن کراچی کے ضلع ملیر میں ہے، جو کراچی ایئر پورٹ سے تقریباً 21 کلومیٹر (13 میل) اور کراچی پورٹ سے 40 کلومیٹر (25 میل) کے فاصلے پر ہے۔ ساتھ کے علاقوں میں پپری، شاہ لطیف ٹاؤن اور گلشن حدید شامل ہیں۔ یہاں تمام بنیادی ضروریات اور سہولیات، جن میں سو بستروں مشتمل ہسپتال، سیکنڈری اسکول، کالجز، آفیسر میس، گیسٹ ہوٹل، کرکٹ اسٹیڈیم، ہاکی و فٹ بال اسٹیڈیم، مصنوعی جھیل، تفریحی پارک، باغات، متعدد بازار اور چھوٹے پیمانے پر رعایتی مارٹ بھی شامل ہیں، موجود ہیں۔ٹاؤن پلاننگ، اسٹیل ٹاؤن کو پاکستان اسٹیل ملز نے 1970ء کی دہائی میں سوویت روسی اسٹیل صنعت کاروں کے تعاون سے بنایا تھا۔ یہ قصبہ اپنے فضائی منظر کے مطابق بلاکس میں تقسیم ہے۔
مثال کے طور پر، ایل بلاک انگریزی حرف تہجی L کی شکل میں ہے جیسا کہ سیٹلائٹ سے نظر آتا ہے۔ ناریل کے درختوں سے مزین پارک، اپنی جیومیٹری شکل کی وجہ سے ٹی T پارک کہلاتا ہے۔ اس سے آگے مغرب کی طرف جانے کے بعد، ڈائریکٹروں کی رہائشگاہیں اور چیئرمین ہاؤس آتا ہے۔ یہ سرکلر روڈ کے مشرق میں کئی سو گز درختوں اور خندق نما نالے اور اسپیل وے سے گھرے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد گرین بیلٹ اور کثیر المنزلہ گیسٹ ہاؤس اور مغرب کی طرف افسروں کا میس ہے۔ جس کے مغرب میں باؤنڈری کیساتھ پرانا سٹی کلف اسکول اور مشال اسکول واقع ہیں اور اس کیساتھ کچھ ٹی بلاکس ( تین منزلہ/ اٹھارہ یونٹ اپارٹمنٹس) روسی ملازمین کیلئے مختص ہیں۔ سرکلر روڈ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے روسی مارکیٹ آتی ہے، ایک نیم دائرے کی شکل کا مرکزی بازار جس میں اسٹیشنری اور ملبوسات سے لے کر ڈسپنسریز، گروسری اور فاسٹ فوڈ تک ہر قسم کی دکانیں ہیں۔پرکشش مقامات، قائداعظم پارک اسٹیل ٹاؤن میں واقع ہے۔
تعطیلات کے دوران، پورے کراچی شہر کے لوگ پکنک کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ اس جگہ کا دورہ کریں اور تفریحی وقت سے لطف اندوز ہوں۔ اسٹیل ٹاؤن پولیس اسٹیشن، یوٹیلٹی اسٹورز، پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین کی رہائش گاہ اور ایک پبلک لائبریری قائداعظم پارک کے قریب واقع ہے۔ یہ سب کچھ اب اختتام پذیری کے قریب ہیں۔ افسوس ہم ملک کے اہم اداروں کو خسارے کا نام دیکر یکے بعد دیگرے نیلام کر رہے ہیں کہ اس طرح ہماری معیشت بہتر ہوگی۔ عجب منطق ہے، جبکہ معیشت قو می صنعتی ادارے قائم کرنے سے بہتر ہوگی یہ پہلے کہا تھا۔ پہلے غلط کہا تھا یا اب غلط کہا جا رہا ہے؟
[ad_2]
Source link