[ad_1]
خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی للہ عنہ، خسر رسول ﷺ کا اسم مبارک عمر اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپ ؓکے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد پوری امت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلٰی ہے۔ آپؓ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ عمر میں تقریباً گیارہ سال حضور اکرمﷺ سے چھوٹے ہیں۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ ؓقریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلان نبوت کے چھے سال بعد آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ مراد رسول ہیں یعنی حضور اکرم ﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کی اے پروردگار! عمر یا ابوجہل میں جو تجھے پیارا ہو اس سے اسلام کو عزت وطاقت عطا فرما۔ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ ؓمشرف با اسلام ہوگئے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے 39 مرد اسلام قبول کرچکے تھے۔
آپ 40 ویں مسلمان مرد تھے۔ آپ ؓ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر ؓمسلح ہوکر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداوں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمرؓ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ ؓنے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپؓ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم کے رفیق رہے۔
فضائل ومناقب
سیدنا فاروق اعظم ؓ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب ۔
ترجمہ :۔ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوٰۃ شریف ص558)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت ختم ہوچکی۔ اب قیامت تک کوئی بھی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ جو اس واضح حقیقت کے باوجود دعویٰ نبوت کرے یا جو کوئی اس کو نبی یا رسول مانے وہ ملعون کذاب کافر و مرتد ہے۔ مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروقؓ کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نبی ہوتے۔ حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا۔
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکوٰۃشریف ص558 )
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔ (بحوالہ مشکوٰۃ شریف صفحہ557)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ !آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔ ( ابن ماجہ بحوالہ برکات آل رسول صفحہ291 )
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔ سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق کے رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تاریخ خلفا میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کسی معاملے میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ (تاریخ الخلفاء)
ایک مرتبہ سرور کونین ﷺ جبل احد پر تشریف لے گئے۔ اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے احد! ٹھہر جا، اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ﷺ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
خلیفہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو اسلام میں اعلٰی مقام حاصل ہے۔ آپ ؓکے سنہری کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ دمک رہا ہے۔ عدل و انصاف کے باب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ ؓکے عالی اطوار، شان دار کردار اور قابل رشک اسوہ حسنہ سے غیرمسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زائد احادیث رسول ﷺ موجود ہیں۔ آپؓ کو سسررسول ﷺہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے۔ سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بناکر سو جایا کرتے تھے۔ آپ ؓکے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملائم کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ ؓجب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپ ؓفرماتے تھے کہ عادل حکم راں بے خوف ہوکر سوتا ہے۔ آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔
آپؓ فرماتے ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے،’’مائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟‘‘ آپ ؓکے عدل کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے آپ کو ’’فاروق‘‘کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت مقروض تھے، چناںچہ وصیت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا۔
آپ ؓ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں پوچھ ہوگی۔
؎محمد (ﷺ) کے صحابیؓ کاوہ شانہ یاد آتا ہے
بدل کے بھیس گلیوں میں وہ جانا یاد آتا ہے
نجف اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہیں
عمرؓ تیری خلافت کازمانہ یاد آتا ہے
حضرت عمر فاروق ؓ کے سنہری کارنامے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں۔ دینی فیصلوں میں آپ نے فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کا اضافہ فرمایا، آپ کے عہد میں با قاعدہ تراویح کا سلسلہ شروع ہوا، شراب نوشی کی سزا مقرر ہوئی اور آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، مؤذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا۔ دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصور دیا۔ آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے دنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواں اور معذوروں کے لیے وظائف مقرر کیے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کا جنت میں محل
رسالت مآب ﷺ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا۔ اس محل کی خوب صورتی کے پیش نظر پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطاب کا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوجاؤں مگر اے عمر! مجھے تیری غیرت یاد آ گئی۔ اس لیے میں اس کے اندر داخل نہیں ہوا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ رو پڑ ے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا۔
پردے کی آیات کانزول
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضور اکرم سے عرض کی یارسول اللہ! آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کی ازواج بھی ہوتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔ چناںچہ حضرت عمر ؓکے اس طرح عرض کرنے پر ازواجِ مطہرات کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد خداوندی ہے۔
ترجمہ: اور جب تم امہات المومنین سے استعمال کرنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔
حضرت عمرؓ کا یہودی کو جواب
ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت عمرفاروقؓ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تمہارے نبی جس جبرائیل فرشتے کا تذکرہ کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس کو جواب دیا۔
’’جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔‘‘
جن الفاظ کے ساتھ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے یہودی کو جواب دیا بالکل انہی الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (پ1 ع12 )
ان واقعات سے حضرت عمر فاروق کی شان و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اس قدر محبوب تھے کہ آپ کے خیال کے مطابق قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں۔
میں نے تم سے زیادتی کی مجھے بھی ویسی سزادو!
ایک دفعہ آپؓ حکومتی مصروفیات کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا، امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجیے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو۔
بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو، میں نے تم سے زیادتی کی ہے۔ وقت کا بادشاہ ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے کہ میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے آپ کو معاف کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا، تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہوجائے۔ آپؓ روتے جاتے تھے اور فرماتے اے عمر! تو کافر تھا، ظالم تھا، بکریاں چراتا تھا خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تجھے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا، کیا تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا۔ آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاؤ تو تُو اسے درا مارتا ہے۔ اے عمر! کیا تو سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں۔ کل قیامت کے دن تجھے اللہ کو ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی بات کو دہراتے رہے اور بڑی دیر روتے رہے۔
اگر علیؓ نہ ہوتے توعمر ہلاک ہوچکا ہوتا
حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ میری شادی کو آج چھٹا مہینہ ہے، لیکن اسی مہینے میری عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا عورت کو سنگسار کردو!
حضرت علی ؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ کہا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: و حملہ و فصالہ ثلثون شہراً۔ بچے کا حمل اور اس کے دودھ پینے کا زمانہ تیس مہینے ہوتا ہے، ممکن ہے دو سال دودھ پینے کا زمانہ ہو اور چھ مہینے حمل کا۔
امیرالمومنین عمر ؓنے یہ سن کر اپنا حکم واپس لیا اور فرمایا لولا علی لہلک عمر۔ یعنی اگر علی یہاں موجود نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوچکا تھا۔
اسی طرح ایک عورت حاضر ہوئی، جس کے پیٹ میں ولد الزنا تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمر ؓنے عورت کی سنگساری کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ پھر نہ رہ سکے، فرمایا اگر گناہ کیا ہے تو اس عورت نے کیا، مگر اس بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی پیٹ ہی میں ہے۔
حضرت عمر ؓنے فرمایا بہت بہتر، سزا وضع حمل تک ملتوی رکھی جائے۔ اس موقع پر بھی حضرت عمرؓ نے فرمایا: لولا علی لہلک عمر: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔
خلافت فاروق اعظمؓ پر ایک نظر
حضرت عمر فاروق ؓنے حضرت ابوبکرؓ کے بعد دس سال چھے ماہ دس دن تک بائیس لاکھ مربع میل زمین پر اسلامی خلافت قائم کی۔
آپ کے دور میں 3600علاقے فتح ہوئے۔
قیصروکسریٰ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ آپ کے دور میں ہوا۔
آپ کے عہد میں عدالت کے ایسے بے مثال فیصلے چشم فلک نے دیکھے جن کا چرچا چار وانگ عالم میں پھیل گیا۔
فتوحات عراق، ایران، روم، ترکستان اور دیگر بلادعجم پر اسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیدنا فاروق اعظم ؓکا بے مثال کارنامہ ہے۔
حضرت عمر فاروق کے زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیرمسلم بھی آپ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
حقیقت میں آنحضرت ﷺ کے آفاقی دین کو تعمیر ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے اور دنیا بھر میں اسلام کی سطوت و شوکت کا سکہ بٹھانے کا سہرا حضرت فاروق اعظم ؓکے سر ہے۔
ارشادات فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ
جو شخص راز چھپاتا ہے اس کا راز اس کے ہاتھ میں ہے ۔
فرمایا لوگوں کی فکر میں اپنے آپ کو نہ بھول جا۔
مجھے سائل کے سوال سے اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
آدمی کے نماز روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اس کے معاملات اور عقل کو دیکھو۔
علم عقل کی زیادتی موقوف نہیں۔
توبہ کی تکلیف سے گنا ہ کا ترک کر دینا زیادہ سہل ہے۔
دولت سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی۔
جو شخص برائی سے آگاہ نہیں وہ ضرور اس میں گرفتار ہوگا۔
کسی کی شہرت کا آوازہ سن کر دھوکا نہ کھا اگر صبروشکر دو سواریاں ہوتیں تو میں پرواہ نہ کرتا کہ کس پر سوار ہوں۔
حقیر سے حقیر پیشہ بھی ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔
شہادتِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابولولو تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓکے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کے مالک اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائی کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہوگیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بری طرح زخمی ہوگئے اور یکم محرم الحرام کو دس سال چھے ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی تدفین حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی۔ آپ کی نمازجنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)
آج امام عدل و حریت، خلیفہ راشد، امیرالمومنین، فاتح عرب وعجم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ روضہ رسول میں آنحضرت ﷺ کے پہلو مبارک میں مدفون ہیں۔
[ad_2]
Source link