18

اسرائیل کیسے عالمی عدالت جرائم کی جاسوسی کرتا رہا؟

[ad_1]

یہ انیس مئی 2024 ء کی بات ہے، عالمی عدالت جرائم (International Criminal Court) کے چیف پراسیکویٹر، کریم خان نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو اور اسرائیل کے وزیر دفاع، یواف گیلنت کے خلاف عدالت سے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری طلب کر رہے ہیں۔

ان دونوں پر الزام ہے :’’ وہ غزہ کی حالیہ جنگ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث رہے۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا۔ عام آدمی تک اشیائے رسد نہیں پہنچنے دیں اور دانستہ شہریوں کو نشانہ بنایا۔‘‘ حماس کے لیڈروں کے خلاف بھی وارنٹ طلب کیے گئے۔اس موقع پہ عالمی عدالت کے چیف پراسیکویٹر نے میڈیا کو بتایا:

’’میں یہ بات کھل کر کہہ رہا ہوں کہ عالمی عدالت جرائم کے اہلکاروں کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے، دھمکانے یا غلط طریقے سے اثر انداز ہونے کی تمام کوششیں فوری طور پر بند کی جائیں۔ ‘‘

اس وقت دانش وروں اور ماہرین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ عالمی عدالت کے سرکردہ رکن اور نامور ماہر ِ قانون نے کس فرد یا طاقت کی طرف اشارہ کر کے اسے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر بعد ازاں ممتاز برطانوی اخبار، گارڈین اور دو اسرائیلی رسائل،پلس نوسوبہتر (+972)اورلوکل کال(Local Call)کے محققوں کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ عالمی عدالت جرائم کے چیف پراسیکویٹر ، کریم خان کا اشارہ اسرائیلی حکومت کی طرف تھا۔یہ واضح رہے، عالمی عدالت جرائم کے آئین میں درج ہے کہ اگر کسی فرد یا ریاست نے ادارے کے کام میں رکاوٹ ڈالی تو یہ عمل جرم کہلائے گا۔اور جرم پر اس پہ مقدمہ چل سکتا ہے۔ اسی لیے کریم خان نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کو مزید کہا تھا:’’اگر عالمی عدالت جرائم کے خلاف سرگرمیاں جاری رہیں تو میرا دفتر قانونی کارروائی شروع کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔‘‘

مذموم خفیہ مہم

اب گارڈین اور اسرائیلی میگزینوں کے محققین کی تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نے پچھلے ایک عشرے سے عالمی عدالت جرائم کے خلاف ایک خفیہ مہم چلا رکھی ہے۔اسرائیلی حکمران طبقے کے حکم پر اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں عالمی عدالت کے ججوں اور وکلا کی نگرانی و جاسوسی کرتی ہیں۔ان کی کالیں سنی اور ریکارڈ کی جاتی ہیں۔یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کردار کی کوئی خامی ہاتھ لگ جائے تاکہ اس کی بنیاد پہ انھیں بلیک میل کیا جا سکے۔عملے کو ڈرایا دہمکایا جاتا ہے۔ترغیب وتحریص سے بھی کام لیا جاتا ہے۔

عالمی عدالت جرائم کے خلاف یہ خفیہ مہم چلانے کا مقصد یہ تھا کہ ادارہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی تفتیش نہ کرے۔ اسرائیل کے خلاف جو انکوائریاں چل رہی ہیں، وہ کامیاب نہ ہوں اور پٹڑی سے اتر جائیں۔ اسرائیلی حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری نہ ہو سکیں۔ یوں اسرائیلی حکومت کھل کر فلسطینیوں پہ مظالم ڈھانا جاری رکھے اور قانون و اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتی رہے۔ اسرائیلی حکمران طبقہ یہ چاہتا ہے کہ وہ دن دیہاڑے اہل فلسطین کی نسل کشی کرتا رہے اور دنیا والے خاموش رہیں۔ اس حکمت عملی میں وہ امریکا کی بھرپور حمایت کے باعث کامیاب رہا ہے۔لیکن کریم خان جیسے لوگ کبھی کبھی اسے یاد دلا دیتے ہیں کہ اسرائیل کوئی ڈکٹیٹر یا سپر پاور نہیں اور اسے بھی قانون واخلاق کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

تحقیق سے افشا ہوا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے جدید ترین آلات کی مدد سے کریم خان ، ان سے پہلے کے چیف پراسیکیوٹروں اور عالمی عدالت جرائم کے دیگر اعلی عہدے داروں کی پیغام رسانی تک رسائی حاصل کر لی۔یوں ان کی ٹیلی فون یا موبائل کالیں سنی جانے لگیں۔ ان کی ای میلوں تک بھی رسائی ہو گئی۔ ان کے کمپیوٹروں میں داخل ہو کر اسرائیلی عدالت کی خفیہ دستاویزبھی پڑھنے لگے۔غرض ان کی دسترس سے عالمی ادارے کا کوئی رکن محفوط نہیں رہا۔

اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے غزہ میں جنگ چھڑنے کے بعد عالمی عدالت جرائم کے عملے کی سخت نگرانی شروع کر دی تھی۔اسی لیے اسرائیل کے وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو کو چیف پراسیکیوٹر کے ارادوں کی پیشگی معلومات مل گئیں۔ اس کے مندرجات سے واقف ایک ذریعے کے مطابق کریم خان جلد ازجلد اسرائیلیوں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کرنا چاہتے تھے لیکن “امریکہ کے زبردست دباؤ” میں تھے۔ امریکی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ یہ وارنٹ طلب کیے جائیں۔

افریقی مملکت، گیمبیا کی ماہر قانون، فاتو بنسودا 2012ء تا جون 2021ء عالمی عدالت جرائم کی چیف پراسیکیوٹر رہی ہیں۔ انھوں نے ہی 2021ء میں سب سے پہلے اسرائیل کی قانون و اخلاق مخالف سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ برطانوی و اسرائیلی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں فاتو صاحبہ کے خلاف بھی بہت سرگرم رہیں اور ان کی خوب جاسوسی کی گئی۔ آج کل فاتو بنسودا برطانیہ میں گیمبیا کی سفیر ہیں۔انہی کی کوششوں اور عمیق تحقیق سے عالمی عدالت اس قابل ہوئی کہ اسرائیلی لیڈروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری طلب کر سکے۔

واردات کا طریق کار

برطانوی و اسرائیلی دانشوروں کو تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو عالمی عدالت جرائم کے خلاف جاری آپریشنوں میں ذاتی دلچسپی لیتا تھا۔ بلکہ وہ ’’جنون ‘‘کی حد تک اس کیس سے منسلک ہو گیا تھا۔ وہ اکثر اپنی اینٹلی جنس ایجنسیوں سے اس کیس کا اپ ڈیٹ لیتا ۔اس کیس کی نگرانی اسرائیل کے قومی سلامتی مشیر کر رہے تھے۔جبکہ اس خفیہ کیس پر اسرائیل کی ایلیٹ اینٹلی جنس ایجنسیوں کے ایجنٹ مامور تھے جن میں ریاستی سپائی ایجنسی، شین بیت(Shin Bet)، اسرائیلی فوج کا اینٹلی جنس ڈائرکٹوریٹ، امان( Aman) اور سائبر اینٹلی جنس ڈویژن ، یونٹ 8200(Unit 8200) نمایاں ہیں۔اس خفیہ آپریشن سے جو معومات حاصل ہوتیں ، وہ انصاف، خارجہ اور تزویراتی امور کی وزارتوں کو ارسال کر دی جاتیں۔

فاتو بنسودا کے خلاف خفیہ آپریشن تو ذاتی طور پر نیتن یاہو کا قریبی ساتھی، یوسی کوہن (Yossi Cohen)چلا رہا تھا، جو اس وقت اسرائیل کی بیرون ملک جاسوس جنس ایجنسی، موساد کے ڈائریکٹر تھا۔ ایک مرحلے پر موساد کے سربراہ نے ڈیموکر ٹک ریپبلک آف کانگو کے اس وقت کے صدر جوزف کبیلا کی مدد بھی لی تاکہ فاتو صاحبہ پہ اپنی باتیں منوانے کے سلسلے میں دباؤ ڈالا جا سکے۔

گارڈین اور اسرائیلی رسائل کی مشترکہ تحقیقات کے دوران دو درجن سے زائد موجودہ اور سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسران اور حکومتی عہدیداروں، عالمی عدالت جرائم کی سینئر شخصیات، سفارت کاروں اور آئی سی سی کیس سے واقف وکیلوں کے انٹرویو کیے گئے۔ گارڈین کے رابطے پر عالمی عدالت جرائم کے ترجمان نے کہا ’’ وہ عدالت کے خلاف متعدد قومی ایجنسیوں کی جانب سے انٹیلی جنس جمع کرنے کی فعال سرگرمیوں سے آگاہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی اس طرح کی سرگرمی کے خلاف مسلسل جوابی اقدامات کر رہا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان نے کہا: “ہمیں جو سوالات بھیجے گئے ہیں وہ بہت سے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات سے بھرے ہیں۔ان کا مقصد اسرائیل کی ریاست کو نقصان پہنچانا ہے۔” ایک فوجی ترجمان نے مزید کہا: “آئی ڈی ایف (اسرائیل کی دفاعی افواج)نے عالمی عدالت جرائم کے خلاف نگرانی یا دیگر انٹیلی جنس کارروائیاں نہیں کیں اور نہ ہی کرتی ہیں۔”یہ واضح رہے، عالمی عدالت جرائم ۲۰۰۲ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ جو افراد جنگی جرائم میں ملوث ہوں، ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ یہ عدالت کسی بھی فرد پہ مقدمہ چلا سکتی ہے۔اس کا صدر دفتر، ہیگ ، ہالینڈ میں واقع ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے ادارے، عالمی عدالت انصاف سے الگ ادارہ ہے جو دو ممالک کے مابین اختلافات کا تصفیہ کرتا ہے۔

جنگی جرائم کے الزامات

نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ طلب کرنے کا فیصلہ تاریخی ہے۔ کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی عدالت جرائم کے پراسیکیوٹر نے مغربی ممالک کے ایک قریبی اتحادی، اسرائیل کے رہنما کے خلاف وارنٹ گرفتاری طلب کیے۔

انسانیت کے خلاف جو جرائم کریم خان نے نیتن یاہو اور یواف گیلنت کے خلاف بیان کیے ہیں، ان سب کا تعلق غزہ میں اسرائیل کی آٹھ ماہ سے جاری جنگ سے ہے، جس میں علاقے کی ہیلتھ اتھارٹی کے مطابق سینتیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقے کے خلاف کیس بنانے میں ایک دہائی گزر گئی ہے۔ اس دوران گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کے امکان پر اسرائیلی حکام کے درمیان خطرہ جنم لیتا رہا کیونکہ اگر عالمی عدالت جرائم نے یہ وارنٹ جاری کر دئیے تو ملزم اسرائیلی عدالت کے 124 رکن ممالک میں سے کسی کا سفر نہیں کر سکیں گے۔ وہاں پہنچتے ہی انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ امریکا بھی پہلے اس عدالت کا رکن تھا مگر جب اس نے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا تو امریکی صدر، ٹرمپ نے رکنیت منقطع کر دی۔

دنیا کے ایک سو چوبیس ممالک میں گرفتاری کے خوف ہی نے اسرائیلی حکمران طبقے کو اکسا دیا کہ وہ عالمی عدالت جرائم کے خلاف زوردار خفیہ جنگ چھیڑ دے۔اس جنگ کا مقصد یہی ہے کہ عدالت اسرائیلی لیڈروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری نہ کر سکے۔اس جنگ میں اسرائیل کی “پوری فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ” عالمی عدالت کے خلاف صف بستہ ہے۔

مہم کا آغاز

اس “جنگ” کا آغاز جنوری 2015 ء میں ہوا، جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے بطور ریاست تسلیم کرنے کے بعد اسے عالمی عدالت جرائم کے رکن ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔اس الحاق کو اسرائیلی حکام نے “سفارتی دہشت گردی” کی ایک شکل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔اسرائیل کی عالمی عدالت جرائم کے خلاف جاری مہم سے واقف ایک سابق اسرائیلی دفاعی اہلکار نے بتایا کہ عدالت میں فلسطین شمولیت کو “سرخ لکیر عبور کرنے کے طور پر سمجھا گیا” اور “شاید فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اٹھایا گیا سب سے زیادہ جارحانہ سفارتی اقدام، جو مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے۔ “اقوام متحدہ میں ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے سے اسرائیلی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا ” اس نے مزید کہا “لیکن عالمی عدالت جرائم دانت رکھنے والا ایک طریقہ کار ہے۔”

سامنے دی گئی دھمکی

عالمی عدالت جرائم کی چیف پراسیکیوٹر ، فاتو بنسودا کے لیے عدالت سے فلسطین کے الحاق فیصلہ ایک اہم فیصلہ لے کر آیا۔عدالت قائم کرنے والے معاہدے کے تحت وہ اپنے دائرہ اختیار کو صرف رکن ممالک کے اندر یا ان ریاستوں کے شہریوں کے ذریعے ہونے والے جرائم پر استعمال کر سکتی ہے۔امریکہ، روس اور چین کی طرح اسرائیل بھی اس کا رکن نہیں ۔ تاہم فلسطین کی جانب سے عالمی عدالت جرائم کے رکن کی حیثیت سے قبولیت کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی ریاست کے افراد کے ذریعے کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم اب فاتو بنسودا کے دائرہ اختیار میں آ گئے۔

16 جنوری 2015 ء کو، فلسطین میں شمولیت کے چند ہفتوں کے اندر فاتو بنسودا نے ایک ابتدائی مقدمہ شروع کیا جسے عدالت کی قانونی حیثیت میں “فلسطین کی صورت حال” کہا جاتا ہے۔ اگلے مہینے دو آدمی جو پراسیکیوٹر کا نجی پتا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، دی ہیگ میں ان کے گھر آئے۔واقعے سے واقف ذرائع نے بتایا کہ ان افراد نے پہنچنے پر اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، لیکن کہا کہ وہ ایک نامعلوم جرمن خاتون کی جانب سے فاتو بنسودا کو ایک خط دینا چاہتے تھے جو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ اس لفافے میں سیکڑوں ڈالر نقد اور اسرائیلی فون نمبر والا ایک نوٹ تھا۔

واقعے کے بارے میں عالمی عدالت جرائم کی جائزہ رپورٹ کی معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ مردوں کی شناخت کرنا یا ان کے مقاصد کو مکمل طور پر معلوم کرنا مشکل تھا، لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اسرائیل پراسیکیوٹر کو یہ اشارہ دے رہا تھا کہ وہ جانتا ہے، وہ کہاں رہتی ہے۔ عالمی عدالت نے واقعے کی اطلاع ولندیزی حکام کو دی اورفاتو بینسودا کے گھر پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرتے ہوئے اضافی حفاظتی انتظامات کر دیے۔

فلسطینی علاقوں میں عالمی عدالت جرائم کی ابتدائی انکوائری ان حقائق کی کھوج کی متعدد مشقوں میں سے ایک تھی جو عدالت تب ممکنہ مکمل تحقیقات کے پیش خیمہ کے طور پر کر رہی تھی ۔پراسیکیوٹر کے دفتر کے اہلکاروں کا خیال تھا کہ عدالت جاسوسی کی سرگرمیوں کے خطرے سے دوچار ہے ۔لہذا انھوںنے خفیہ پوچھ گچھ سے بچاؤ کے لیے انسداد نگرانی کے اقدامات متعارف کرا دئیے۔

اب پتا چلا ہے کہ اسرائیل میں وزیر اعظم کی قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو عالمی عدالت اور فاتو صاحبہ کے خلاف متحرک کیا تھا۔ نیتن یاہو، کچھ جرنیلوں اور جاسوسی اداروں کے سربراہان نے اس آپریشن کی اجازت دی تھی تاکہ اسرائیلی حکمران طبقے کو کسی قسم کی قانونی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔متعدد اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ جرنیل چاہتے تھے ، ملٹری انٹیلی جنس بھی اس کوشش میں شامل ہو، جس کی قیادت دیگر جاسوس ایجنسیاں کر رہی تھیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے ، سینئر افسران الزامات سے بچ جائیں ۔”ہمیں بتایا گیا تھا کہ سینئر فوجی افسران مغربی کنارے میں عہدے قبول کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں خوف ہے کہ ان پر کبھی ہیگ میں مقدمہ چل جائے گا۔‘‘ایک ذریعے نے انکشاف کیا۔

عالمی عدالت جرائم کے خلاف جاری مہم میں ملوث دو اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں نے بتایاکہ وزیر اعظم کے دفتر نے ان کے کام میں گہری دلچسپی لی۔ ، ایک نے کہا، نیتن یاہو کا دفتر عدالتی اہلکاروں کی نگرانی کے سلسلے میں “ہدایات” بھیجے گا۔ ایک اور نے وزیر اعظم کو عالمی عدالت کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے والی رپورٹوں کے سلسلے میں “جنونی” قرار دیا۔

ہیک شدہ ای میلز اور مانیٹر کالز

اسرائیل کی انٹیلی جنس سرگرمیوں سے واقف پانچ ذرائع نے بتایا کہ انھوں نے معمول کے مطابق فاتو بنسودا اور ان کے عملے کی فون کالز کی جاسوسی کی جو فلسطینیوں کو کی جاتی تھیں۔ اسرائیل کی طرف سے عالمی عدالت جرائم کے نمائندوں کو مشرقی یروشلم سمیت غزہ اور مغربی کنارے تک رسائی سے روکا گیا۔ انھیں اپنی زیادہ تر تحقیق ٹیلی فون کے ذریعے کرنے پر مجبور کیا گیا۔

مدعا یہی تھا کہ ان کی جاسوسی سہل طور پر کی جا سکے۔فلسطینی ٹیلی کام کے بنیادی ڈھانچے تک اسرائیل کی جامع رسائی کی بدولت انٹیلی جنس آپریٹو عدالت کے اہلکاروں کے آلات میں اسپائی ویٔر نصب کیے بغیر ان کی کالیں پکڑ سکتے تھے۔’’اگر فاتو بنسودا نے مغربی کنارے یا غزہ میں کسی بھی شخص سے بات کی، تو وہ فون کال انٹرسیپٹ سسٹم میں داخل ہو جاتی۔” ایک ذریعے نے بتایا۔ ایک اور نے کہا کہ پراسیکیوٹر کی جاسوسی پر اندرونی طور پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔”وہ سیاہ فام اور افریقی تھی، تو کس کو پرواہ ہوتی؟”

 خفیہ ملاقاتیں

اسرائیل نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بیک ڈور سیاست سے بھی کام لیا۔ اسرائیلی عالمی عدالت کے اہل کاروں سے خفیہ طور پہ ملاقاتیں کرتے رہے۔یہ ملاقاتیں انتہائی حساس تھیں۔ اگر انھیں عام کیا جائے تو ان میں اسرائیلی حکومت کی یہ سرکاری پوزیشن کمزور کرنے کی صلاحیت ہے کہ اس نے عدالت کا اختیار تسلیم نہیں کیا۔ملاقاتوں سے واقف چھ ذرائع کے مطابق اسرائیلی وفد اعلیٰ سرکاری وکلا اور سفارت کاروں پر مشتمل تھے جنہوں نے دی ہیگ کا سفر کیا۔ دو ذرائع نے بتایا کہ ملاقاتوں کی اجازت نیتن یاہو نے دی تھی۔

اسرائیلی وفد کو وزارت انصاف، وزارت خارجہ اور ملٹری ایڈووکیٹ جنرل کے دفتر سے بھیجا گیا تھا۔ یہ ملاقاتیں 2017 ء اور 2019 ء کے درمیان ہوئیں اور ان کی قیادت ممتاز اسرائیلی وکیل اور سفارت کار ٹال بیکر نے کی۔مقصد اسرائیل کے خلاف جاری مقدمے کی تفصیلات جاننا تھا۔ آئی سی سی کے ساتھ اسرائیل کی بیک چینل ملاقاتیں دسمبر 2019 ء میں ختم ہوئیں، جب فاتو بنسوڈا نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے، اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ایک “معقول بنیاد” موجود ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی مسلح گروپوں نے مقبوضہ علاقوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

ذاتی دھمکیاں

2019 کے آخر اور 2021 کے اوائل کے درمیان موساد کے ڈائریکٹر، یوسی کوہن نے فاتو بنسودا کو تحقیقات آگے نہ بڑھانے کے لیے قائل کرنے کی خاطر اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ کوہن پراسیکیوٹر سے رابطہ کرنے، غیر اعلانیہ طور پر سامنے آنے اور اسے ناپسندیدہ کالوں کا نشانہ بنانے میں لگا رہا۔ ابتدائی طور پر دوستانہ ہونے کے باوجود ذرائع نے بتایا، کوہن کا رویّہ تیزی سے دھمکی آمیز اور ڈرانے والا بن گیا۔اسرائیل نے پراسیکیوٹر پر دباؤ ڈالنے کے لیے انھیں بدنام کرنے کی مہم بھی چلائی۔متعدد ذرائع کے مطابق موساد نے مواد کا ایک ذخیرہ حاصل کیا تھا جس میں فاتو بنسودا کے شوہر کے خلاف بظاہر اسٹنگ آپریشن کی نقلیں موجود تھیں۔ تاہم چیف پراسیکیوٹر کو بدنام کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔

آئی سی سی کے خلاف ٹرمپ کی مہم

مارچ 2020 میں فاتو بنسودا کی جانب سے فلسطین کا مقدمہ پری ٹرائل چیمبر میں بھیجے جانے کے تین ماہ بعد اسرائیلی حکومت کے ایک وفد نے مبینہ طور پر واشنگٹن میں سینئر امریکی حکام کے ساتھ عالمی عدالت جرائم کے خلاف “مشترکہ اسرائیلی وامریکی جدوجہد” کے بارے میں بات چیت کی۔ایک اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اپنے ڈیموکریٹک پیشرو سے زیادہ دوست سمجھتے تھے۔

امریکی مسلح افواج کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کے خوف سے ٹرمپ انتظامیہ عالمی عدالت کے خلاف اپنی جارحانہ مہم میں مصروف ہو گئی جس کا اختتام 2020 کے موسم گرما میں فاتو بنسودا اور اس کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کے ساتھ ہوا۔اسی سال جون میں ایک پریس کانفرنس میں ٹرمپ انتظامیہ کی سینیٔر شخصیات نے عالمی عدالت کے حکام پر پابندیاں عائد کرنے کے اپنے ارادے کا اشارہ دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ انہیں “پراسیکیوٹر کے دفتر کی اعلیٰ ترین سطح پر مالی بدعنوانی ” کے بارے میں غیر واضح معلومات موصول ہوئی ہیں۔امریکا نے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کبھی عوامی طور پر کوئی معلومات فراہم نہیں کیں، اور جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے مہینوں بعد یہ پابندیاں ہٹا دیں۔

کریم خان کی آمد

اسرائیل میں عالمی عدالت جرائم کے نئے چیف پراسیکیوٹر، کریم خان کا خیرمقدم کیا۔ ان کی تقرری کو “امید کی وجہ” کے طور پر دیکھا گیا، لیکن 7 اکتوبر کے حملے نے “اس حقیقت کو بدل دیا”۔غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے تیسرے ہفتے کے اختتام تک کریم خان رفح بارڈر کراسنگ پر تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مغربی کنارے اور جنوبی اسرائیل کا دورہ کیا۔انھیں 7 اکتوبر کے حملے میں بچ جانے والوں اور ہلاک ہونے والے لوگوں کے لواحقین سے ملنے کی دعوت دی گئی۔

فروری 2024 میں کریم خان نے ایک سخت الفاظ میں بیان جاری کیا جسے نیتن یاہو کے قانونی مشیروں نے ’’ناشائستہ ‘‘ سے تعبیر کیا۔ ایکس پر پوسٹ میں انھوں نے اسرائیل کو غزہ کے سب سے جنوبی شہر، رفح پر حملہ کرنے کے خلاف متنبہ کیا جہاں اس وقت 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔انہوں نے لکھا “میں رفح میں اسرائیلی افواج کی مبینہ بمباری اور ممکنہ زمینی دراندازی پر گہری تشویش کا شکار ہوں۔جو لوگ قانون کی تعمیل نہیں کرتے ہیں، وہ بعد میں جب میرا دفتر کارروائی کرے گا، تو شکایت نہ کریں۔” اسرائیلی حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے کہا، ’’اس ٹویٹ نے ہمیں بہت حیران کیا۔‘‘

کریم خان کے ارادوں پر اسرائیل میں خدشات اس وقت بڑھ گئے جب اسرائیلی حکومت نے میڈیا پہ افشا کیا کہ اس کا خیال ہے، عالمی عدالت کا پراسیکیوٹر نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ جیسے دیگر سینئر حکام کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کرنے پر غور کر رہا ہے۔اسرائیلی انٹیلی جنس نے خان اور ان کے دفتر میں موجود دیگر اہلکاروں کی ای میلز، اٹیچمنٹ اور ٹیکسٹ پیغامات کو ’’پڑھ‘‘ لیا تھا۔ یہی پس منظر تھا کہ نیتن یاہو نے عوامی بیانات کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا کہ گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست آسکتی ہے۔ اس نے “آزاد دنیا کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ عالمی عدالت جرائم کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہوں” اور “اس خطرناک اقدام کو روکنے کے لیے اپنے اختیار میں تمام ذرائع استعمال کریں”۔اس نے مزید کہا: “اسرائیل کے رہنماؤں اور فوجیوں کو جنگی مجرم قرار دینے سے سام دشمنی کی آگ پر جیٹ ایندھن ڈالا جائے گا۔” واشنگٹن میں سینئر امریکی ریپبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے پہلے ہی خان کو دھمکی آمیز خط بھیجا تھا جس میں واضح تنبیہ کی گئی تھی:

“اسرائیل کو نشانہ بنایا تو ہم آپ کو نشانہ بنائیں گے۔”

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کریم خان نے مگر سپرپاور امریکا کی جانب سے آنے والے دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور آخرکار دو انسانیت دشمن اسرائیلی لیڈروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے اپنی جنگ کا آغاز کر دیا۔ یہ لڑائی مگر بہت طویل ہے اور اس کا نتیجہ بھی واضح نہیں۔اس کے باوجود عالمی عدالت جرائم داد وتحسین کی مستحق ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کو کسی حد تک قانونی کارروائیاں کر رہی ہے۔ شاید اس کی مہم سے خصوصاً اہل فلسطین اور اہل مقبوضہ کشمیر کے لیے کوئی اچھا نتیجہ برآمد ہو جائے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں