[ad_1]
رات کے تقریباً ساڑھے تین بجے ہوں گے، جعفر ایکسپریس بلوچستان میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ کچھی بولان کا کوئی ویرانہ تھا جہاں اچانک ٹرین نے بریک لگائی۔ آخری سے پہلے ڈبے کے ٹھنڈے کمپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے مجھے لگا کہ کوئی اسٹیشن ہو گا۔
اچانک کہیں سے مختلف آوازوں کا شور بلند ہوا جو آہستہ آہستہ قریب آتا محسوس ہوا۔ یہ تو بلوچستان کا خطرناک علاقہ ہے، یہ سوچ کر میں اٹھ بیٹھا۔ ہمت کی اور دروازے سے سر باہر نکالا، کیا دیکھتا ہوں کہ بندوقیں لٹکائے اور چہروں کو ڈھکے کچھ آدمی ٹرین کے قریب بڑھ رہے ہیں جن کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔
یہ دیکھ کر میرا خون خشک ہو گیا اور علیحدگی پسندوں کے حوالے سے اپنے تمام تر وہم مجھے سچ ہوتے نظر آئے۔
یوں تو سوموار کو اسپتال میں بہت مصروفیت ہوتی ہے لیکن انوار بھائی نے میسج ہی ایسا کیا تھا کہ وقت نکال کہ کال کرنا لازمی ٹھہرا۔
حافظ آباد کے شُدھ چاول جیسا انوار بھٹی، مجھے تکیہ تارڑ سے ملا تھا اور ہماری دوستی ابھی نئی نئی تھی۔ تکیہ تارڑ لاہور میں ماڈل ٹاؤن پارک کا وہ خوب صورت گوشہ ہے جہاں مشہور سیاح اور ادیب، مستنصر حسین تارڑ صاحب روز صبح واک کے بعد محفل سجاتے ہیں۔ یہاں ان کے دوستوں سمیت ملک بھر سے بھانت بھانت کے لوگ ان سے ملنے آتے ہیں۔ پہاڑوں کے دیوانوں اور صحراؤں کے جوگیوں کی محفلیں جمتی ہیں اور ہم جیسے کم علم اپنی جھولیاں بھر کے اٹھتے ہیں۔
انوار بھائی آج کل لاہور کے اسلامیہ کالج سول لائنز میں انگریزی کے لیکچرار ہیں اور میرے سفر کے جنون سے خوب واقف ہیں۔
بیس مئی کو نہ جانے کیا سوچ کے انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ شاہ جی، کوئٹہ چلیں؟؟؟ کوئی عقل و شعور والا شریف بندہ ہوتا تو ہیٹ ویو کی وجہ سے فوراً منع کر دیتا لیکن الحمد للہ، ایسا دماغ رکھتے ہی نہیں جو سفر کی آفر پر دوبارہ سوچے۔
یہ بھی مت سمجھیے گا کہ ہم دنیا جہان کے ویلے ہیں، اتفاقاً کچھ دن پہلے ہی ضلع بھر میں چوبیس مئی کی چھٹی کا اعلان کردیا گیا تھا۔ اللہ نواب صادق محمد خان عباسی پنجم، سابق والئی ریاست بہاولپور کے درجات بلند کرے جن کے یومِ وفات پر یہ اضافی سرکاری چھٹی رحیم یارخان سمیت پورے بہاول پور ڈویژن میں بھی کی جا رہی تھی۔
سو جمعہ اور اتوار کی دو چھٹیوں کے ساتھ ہفتہ اور سوموار کی چھٹی کی عرضی ڈالی اور انوار بھائی کو کنفرم کردیا کہ مابدولت آپ کے ہمراہ بلوچستان کی قدم بوسی کو تیار ہیں۔
موصوف تو شاید نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے، جھٹ سے آنے جانے کے ٹکٹ بُک کروالیے اور مجھے مطلع کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بلوچستان میں اپنے دوستوں کو فون گھمانے شروع کردیے۔
چمن جانے کی شدید خواہش بھی نہ جانے کب سے دل میں دبی تھی جو کوئٹہ کا سن کہ باہر آ گئی اور ہم نے ایک دن کوئٹہ سے چمن ٹرین پر جانے کا پلان بنانا شروع کردیا۔ لیکن نصیب میں زیارت کی زیارت لکھی جا چکی تھی۔
چوبیس مئی بروز جمعہ رات ایک چالیس پہ جعفر ایکسپریس خانپور رکی تو آنکھوں میں نئی منزلوں کا خمار لیے دو مسافر اپنے ڈبے میں جا بیٹھے۔ اندھیرے میں اپنی سیٹ ڈھونڈی اور باقی مسافروں کو تنگ نہ کرتے ہوئے برتھ بچھا کے سو گئے۔ اوپر سوئے انوار بھائی کو تو فوراً نیند آ گئی تھی لیکن میں اوباڑو پہنچنے تک جا کے سویا۔
رات کے تقریباً ساڑھے تین ہوں گے، جعفر ایکسپریس بلوچستان میں داخل ہوچکی تھی۔ یہ کچھی بولان کا کوئی ویرانہ تھا جہاں اچانک ٹرین نے بریک لگائی۔
آخری سے پہلے ڈبے کے ٹھنڈے کمپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے مجھے لگا کہ کوئی اسٹیشن ہو گا۔ اچانک کہیں سے مختلف آوازوں کا شور بلند ہوا جو آہستہ آہستہ قریب آتا محسوس ہوا۔ یہ تو بلوچستان کا خطرناک علاقہ ہے، یہ سوچ کر میری سٹی گم ہوگئی اور میں اٹھ بیٹھا۔ ہمت کی اور دروازے سے سر باہر نکالا، کیا دیکھتا ہوں کہ بندوقیں لٹکائے اور چہروں کو ڈھکے کچھ آدمی ٹرین کے قریب بڑھ رہے ہیں جن کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔
یہ دیکھ کہ میرا خون خشک ہو گیا اور علیحدگی پسندوں کے حوالے سے اپنے تمام تر وہم مجھے سچ ہوتے نظر آئے۔۔۔۔
یہ نقاب پوش جتھا بھاگ کے ٹرین کے قریب آیا، اس سے پہلے کہ یہ مجھ پہ حملہ کرتے میری آنکھ کھل گئی اور سفر کا یہ پہلا خواب ٹوٹ گیا۔
اے سی کمپارٹمنٹ میں میرے علاوہ سب سو رہے تھے۔ بس اس بھیانک خواب کے بعد پھر پورے سفر میں مجھے نیند نہ آئی۔ کہتے ہیں خواب میں آپ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو پسِ پردہ آپ کے ذہن یا خیالات میں چل رہا ہوتا ہے۔ مجھے بلوچستان سے کبھی ڈر نہیں لگا اور ہمیشہ محبت ہی ملی لیکن انوار بھائی کے کچھ خدشات میرے بھی ذہن کے کسی خانے میں بیٹھ گئے تھے۔ اگلے دن صدقہ دینے کا سوچ کر خود کو مطمئن کرلیا۔
صبح چھے بجے کے قریب جعفر ایکسپریس روہڑی جنکشن پر رکی تو مجھے چائے کی طلب نیچے اتار لائی۔ یوں تو میں اسٹیشن کے کھانوں سے بالکل پرہیز کرتا ہوں (اور خصوصاً سخت گرمی میں کوئی بھی باسی کھانا یا گندا پانی آپ کی صحت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے) لیکن چائے مجبوری تھی۔ ایک سٹال سے گرماگرم چائے کا کپ پکڑا اور پورے اسٹیشن کا چکر لگایا۔ فوٹوگرافی کے ساتھ ساتھ کچھ قلیوں سے گپ شپ بھی ہوگئی۔ یہاں روہڑی سے دادو جانے والی ایک پسنجر ٹرین میں ’’کراچی سرکلر ریلوے‘‘ کا ایک ڈبا لگا نظر آیا۔
اس کا بھی ایک شان دار ماضی رہا ہے۔
کراچی واسیوں کی سہولت کے لیے پاکستان ریلوے نے 1969 میں کراچی سرکلر ریلوے کی بنیاد رکھی جو ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی سٹی سے لانڈھی اور ملیر چھاؤنی کے درمیان لوکل ٹرینیں چلتی تھیں۔ یہ ریلوے کراچی کے لوگوں میں بے حد مقبول ہوئی اور اس نے خوب منافع کمایا۔
ستر اور اسی کی دہائی اس کے عروج کا زمانہ تھا جب روزانہ کم و بیش 104 ٹرینیں چلائی جاتی تھیں، جن میں 80 مرکزی لائن جب کہ 24 لْوپ لائن ایک ریلوے برانچ لائن (ایسی لائن جو مرکزی ریلوے لائن سے نکلتی ہے اور تھوڑے فاصلے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہوجاتی ہے) پر چلتی تھیں۔ لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کی سازشوں نے اس کا بٹھہ بٹھا دیا۔
نوے کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا، اور اس کا ڈبہ مجھے آج روہڑی میں نظر آ گیا۔
ٹرین روہڑی سے چلی تو مجھے دو خوبصورت مقامات کا انتظار تھا جنہیں دیکھنے میں ٹرین کے دروازے میں آٹھہرا۔ سب سے پہلا روہڑی جنکشن سے کچھ آگے کا وہ مقام جہاں سے کراچی اور کوئٹہ جانے والی لائنیں جدا ہوتی ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں یہ مقام کہیں محفوظ تھا۔ دوسرا سکھر کے ایوب پُل کو پار کرتی ٹرین سے سندھو دریا اور ستین جو آستان کا نظارہ، جو ایک لاجواب منظر ہے۔
سکھر، سندھ میں میرا پسندیدہ ترین شہر ہے اور میرے کچھ قریبی دوستوں کا آبائی وطن بھی۔ یہ شہر تاریخی، ثقافتی، سیاحتی و معاشی ہر لحاظ سے بہترین کہلایا جاسکتا ہے۔ ایک سیاح کے لیے اس شہر میں بہت کچھ ہے جیسے سات سہیلیوں کا مزار (ستین جو آستان)، سادھو بیلا مندر، معصوم شاہ مینارہ، گھنٹہ گھر، لائیڈ بیراج و میوزیم، لینس ڈاؤن پل، ایوب پل، لب مہران، ہندو تاجروں کے پرانے گھر، اروڑ کے کھنڈرات، پرانا شہر، مندر اور پارکس۔ یہ شہر آپ کو بور نہیں ہونے دے گا بشرطے کہ ٹھنڈے موسم میں جائیں۔ سکھر پر میرا تفصیلی مضمون آپ ایکسپریس کے گزشتہ شماروں میں پڑھ سکتے ہیں۔
سکھر کو الوداع کرتے ہی میں اپنی سیٹ پہ آ بیٹھا۔ ساتھی عوام اب آہستہ آہستہ جاگ رہی تھی۔ تب تک میں محمود کھوسہ کو میسیج کر چکا تھا، جو ڈیرہ اللہ یار میں ہمارے لیے ناشتے کا انتظام کرنے میں مصروف تھا۔ آٹھ بجے ہم دونوں پاکستان کے گرم ترین شہروں میں سے ایک، جیکب آباد اترے تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا جیسے دوپہر کے دو بج رہے ہوں۔
یہاں ٹرین نے پانی بھرنے اور سامان اتارنے میں کچھ وقت لگایا۔ یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ پاکستان ریلوے کی ٹریکنگ ایپ میں جعفر ایکسپریس کا روٹ صرف جیکب آباد تک دکھایا گیا ہے، آگے بلوچستان کے اسٹیشنوں کا کوئی نشان نہیں۔ یہ شاید وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔ گذشتہ کچھ سالوں میں بلوچستان میں ٹرینوں پر ہونے والے حملوں کے پیشِ نظر یہ ایک اچھا فیصلہ ہے تاکہ کوئی ٹرین کی لوکیشن کو ٹریس نہ کر سکے۔
بلوچستان میں ریل کی پٹری
تاریخ؛ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ہم پر سو سال حکومت کی، اس عرصے میں تین نسلیں پروان چڑھ جاتی ہیں۔ جہاں انگریز نے یہاں کی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے وہیں وہ اس خطے کو بہت کچھ دے کر بھی گیا۔ بلوچستان میں کہیں بھی ریل کا سفر کر کے دیکھ لیں آپ خود سمجھ جائیں گے کہ یہاں ریلوے ٹریک بچھانا کتنا مشکل ہے اور یہ کام گورے 1887 میں مکمل کر گئے۔ اس راستے پر مختلف پہاڑوں کو کاٹنا، پُل بنانا، بغیر پانی کے بیابانوں میں کام کرنا ایک جان جوکھوں کا کام ہے جس میں یقیناً آدھی سے زیادہ محنت ہندوستانی مزدوروں کی بھی ہے جو قابل تحسین ہے۔
انگریز سرکار نے موجودہ بلوچستان کے علاقوں میں جتنے بھی ریلوے ٹریک بچھائے وہ سب اسٹریٹجک نوعیت کے تھے۔ یہ لائنیں خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں جو آج عوام الناس کو بھی فائدہ پہنچا رہی ہیں۔
کوئٹہ چمن لائن سمیت ٹرانس بلوچستان، کوئٹہ زاہدان ریلوے بھی ایک اسٹریٹجک فوجی روٹ کے حصے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1857 میں ولیم اینڈریو (چیئرمین سندھ، پنجاب اور دہلی ریلوے) ایک وفد کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن سے ملا اور بولان پاس سے ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا۔ لیکن تب اس پر زیادہ توجہ نا دی گئی۔ شاید اس وقت دفاعی نقطہ نظر زیرِغور نہ تھا۔
اٹھارھویں صدی کے اختتامی دور کی بات ہے جب دوراندیش برطانیہ سرکار کو برفانی ریچھ روس سے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ گرم پانیوں کی تلاش میں افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ یوں اس کی حکم رانی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے اور وہاں اناج و سامان رسد پہنچانے کا بندوبست شروع کردیا۔
اب بلوچستان جیسے علاقے میں افغان سرحد پر سامان کی ترسیل کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑی تھا کہ سوچا اور ہو گیا۔ اس کے لیے سب سے اہم ذریعہ ریل تھی، سو انگریز سرکار نے افغانستان کے شہر قندھار تک ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔
اس مقصد کے لیے دو راستے تجویز کیے گئے تھے، ایک درہ بولان کے ذریعے کوئٹہ تک اور دوسرا سبی اور ہرنائی سے کوئٹہ۔ 1876 میں کیے گئے فزیبلٹی سروے کے بعد کوئٹہ و چمن کو درہ بولان کے راستے تسخیر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
1879 میں وائسرائے ہند کی منظوری کے بعد زمین کی خرید شروع کی گئی۔ اس وقت بلوچستان ایک علیحدہ صوبہ نہیں تھا بلکہ یہاں مختلف ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔
بیشتر ٹریک ریاست قلات سے گزرنا تھا سو خان آف قلات سے ایک اقرار نامہ لکھوایا گیا۔ چوںکہ 14 مئی 1854 کو مستونگ میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت انگلشیہ سرکار نے خان آف قلات کو ایک آزاد حکم راں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا نیز قلات کی ریاست کے جنوب سے لس بیلہ اور بحیرۂ عرب تک بھی خان آف قلات کی اتھارٹی تسلیم کی گئی تھی سو یہ کام آسانی سے ہوگیا۔
خان قلات سے ٹریک بچھانے سمیت اسٹیشنوں کے لیے ارضی حاصل ہوچکی تو لارڈ لٹن کے حکم پر سر رچرڈ ٹمپل نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 1879ء میں رُک تا سِبی لائن بچھانے کا کام شروع کرنے کا حکم دیا۔
جیکب آباد سے سبی کی طرف کئی مزدوروں کی محنت سے 134 میل لمبی ریلوے لائن بچھائی گئی اور جنوری 1880ء کو اہلیانِ سبی نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے اسٹیم انجن کو بھاپ اڑاتے سِبی میں داخل ہوتے دیکھا۔
سبی سے ریلوے لائن پہلے تیس کلومیٹر مغرب میں واقع رند علی (ڈھاڈر) اور پھر مشکاف جاتی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ راستہ ختم کر کے سبی سے سیدھا مشکاف تک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ مشکاف سے آگے چوںکہ بولان کا پہاڑی علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں راستہ نکالنا مشکل تھا۔ قابل انجنیئرز کی زیرنگرانی ان پہاڑوں میں کم و بیش انیس سرنگیں بنائی گئیں اور ریلوے ٹریک کو گزارا گیا۔ بولان سمیت دیگر دریاؤں اور ندیوں پر پُل تعمیر کیے گئے اور سخت موسمی حالات کے بعد یہ لائن 1887ء میں کوئٹہ پہنچ گئی۔
جب درہ بولان سے گزرنے والے ٹریک کو 1889 کا سیلاب بہا کر لے گیا تو کچھ عرصے بعد ایک اور ٹریک زیادہ اونچائی پر بنایا گیا لیکن وہ بھی پانی کے آگے ٹک نہ سکا۔ موجودہ دور کا ٹریک بولان میں ریلوے لائن بچھانے کی تیسری کوشش تھی جو بالآخر کام یاب ہوئی اور یہ ٹریک ابھی تک پاکستان ریلویز کے زیراستعمال ہے۔ جتنی مشکل سے یہ ٹریک بچھایا گیا ہے اتنی ہی مشکل اس کی مرمت بھی ہے۔ اس ٹریک کے ساتھ کہیں کہیں آپ کو پرانے ٹریکس کی ترک شدہ سرنگیں اور ریل بیڈ بھی اب بھی نظر آ جاتے ہیں۔
درہ بولان کی بات کریں تو یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔
ریل کے ذریعے لگ بھگ 63 میل لمبا یہ درہ برصغیر کے اہم ترین راستوں میں سے ہے جہاں سے کئی افواج و قافلوں کا گزر ہوتا رہا ہے۔ اس کے شرقی کونے پر ڈھاڈر ہے جو انتہائی گرم علاقہ ہے (جس کا درجۂ حرارت 51 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے) جب کہ دوسرے کونے پر کولپور جیسا ٹھنڈا شہر واقع ہے، جہاں سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں۔ سردیوں میں اپنے مال مویشیوں سمیت بہت سے گلہ بان اسی درے سے گزر کر کچھی کے میدانوں میں پہنچتے ہیں۔
بلوچستان سے گزرنے والا یہ ٹریک کچھی کے زرخیز میدانوں، سبی کے بیابانوں، بولان کے دروں اور پہاڑی سرنگوں سمیت کولپور و مچھ میں کوئلے کی کانوں کے قریب سے گزرتا ہے جہاں خوب صورت پل، ندی نالے، پہاڑ، سرنگیں، وادیاں اور درے کیا ہی پر لطف و دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔
آئیے، ہم ایک کے بعد دوسرے اسٹیشن پر چلتے ہیں اور ان کی تاریخ کھنگالتے ہیں۔
ڈیرہ اللہ یار؛ جیکب آباد اسٹیشن پر جیسے ہی ریل کی سیٹی بجی میرا جوش و خروش بڑھ گیا۔ اگلا اسٹیشن ڈیرہ اللہ یار تھا جہاں میں محمود بھائی کو لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد مل رہا تھا۔ اللہ اللہ کر کے ڈیرہ اللہ یار آیا اور ہمیں یار کا دیدار نصیب ہوا۔
جیکب آباد کے پاس واقع بلوچستان کا چھوٹا سا ضلع جعفر آباد، جعفر آباد سمیت ڈیرہ اللہ یار (جھٹ پٹ) کی تحصیل پر مشتمل ہے۔ ضلع کا نام تحریک آزادی کے سپاہی اور قائداعظم کے ساتھی ’’سردارجعفرخان جمالی‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ صدر مقام ڈیرہ اللہ یار کو پہلے جھٹ پٹ کہا جاتا تھا لیکن مقامی سردار ’’میر اللہ یار کھوسہ‘‘ کی وفات کے بعد اِسے ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
میرا دوست محمود کھوسہ اپنے قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے۔ یوں تو اس شخص سے دوستی سوشل میڈیا پر ہوئی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ یاری میں بدل گئی۔ بلوچستان میں سیلاب آیا تو میں نے محمود بھائی اور ان کے دوستوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کا دورہ کیا اور جھل مگسی میں ایک میڈیکل کیمپ لگایا۔ ساتھ ہی دریائے مُولا کے کنارے حسین نظاروں کا لطف بھی اٹھایا۔
بس تب سے محمود کھوسہ سے ایک اپنائیت والا تعلق بن گیا اور آج موصوف اسٹیشن پر ہمارے لیے ناشتہ لیے منتظر تھے۔ ٹرین رکی اور ہم بغل گیر ہوئے۔ چوںکہ یہ بلوچستان کا پہلا اسٹیشن تھا سو یہاں ٹرین کی چیکنگ کی گئی اور ایف سی کے جوان اپنے آلات سمیت ٹرین میں سوار ہوئے جنہوں نے ٹرین کو بحفاظت کوئٹہ پہنچانا تھا۔ ایک حساس علاقے میں ٹرین کی حفاظت کے لیے یہ بہترین قدم تھا۔
ڈیرہ اللہ یار سے ٹرین چلی تو ہم دوسرے ڈبے میں جا بیٹھے جو قدرے خالی تھا۔ انڈا، پراٹھا اور لسی کا ناشتہ کرتے ہوئے محمود بھائی کو دعائیں دیں۔ ناشتے کے بعد ہم دونوں اپنے ڈبے میں پہنچے اور ساتھیوں سے گفتگو شروع کی۔
چمن کے چمونے؛ ہم دونوں کے علاوہ کمپارٹمنٹ میں چمن سے تعلق رکھنے والے چار پٹھان لڑکے تھے جن کی عمریں لگ بھگ چودہ سے سولہ سال تک تھیں۔ چاروں آپس میں بھائی تھے اور بہاولپور کے صادق پبلک سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ چھٹیوں میں گھر واپس اپنے والد کے پاس جا رہے تھے۔
مجھے ان سے بات کر کے اور ان کے خیالات جان کے شدید خوشی ہوئی۔
سب سے پہلے تو یہ بات اپنے آپ میں ایک انوکھی اور زبردست تھی کہ چمن میں ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرنے والا ایک پٹھان، تعلیم سے اتنی محبت رکھتا ہے کہ اپنے چاروں بیٹے دوسرے صوبے میں پڑھنے بھیج دیے، وہ بھی صادق پبلک جیسے ایک تاریخی اور بہترین تعلیمی ادارے میں۔ بلوچستان میں تعلیم و شعور کی یہ آگاہی میں نے آگے بھی جگہ جگہ محسوس کی۔
ایک نوجوان اگرچہ تعلیمی نظام سے کچھ نالاں تھا لیکن پھر بھی باپ کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا۔ چھوٹے والا عزت اُللہ، جو گول مٹول اور معصوم سا تھا، اسے انگریزی بولنے اور سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس کی فرمائش پر میں نے تقریباً پون گھنٹہ اْس سے انگریزی میں دل چسپ گفتگو کی جس میں پاکستان کی سیاحت، تعلیمی نظام، امریکی جنگیں، افغانستان کی صورت حال، میرے بلوچستان کے سفر اور کوئٹہ سے میری محبت جیسے موضوعات شامل تھے۔ وہ انگریزی میں سوال کر کے بڑا محظوظ ہو رہا تھا اور میرا وقت بھی اچھا گزر رہا تھا۔ ٹرین کچھی کے زرخیز میدانوں سے گزر رہی تھی اور میری نظریں باہر گزرتے مناظر پر تھیں۔
ڈیرہ مراد جمالی؛ ڈیرہ اللہ یار کے بعد ٹرین ضلع نصیر آباد کے شہر ڈیرہ مراد جمالی جا رکتی ہے۔ نصیر آباد کا پرانا نام ’’ٹمپل ڈیرہ‘‘ تھا جو 1891 میں سبی کے پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایچ ایم ٹمپل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ناموں کے حوالے سے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں بہت کنفیوژن ہے جیسے ضلع جعفرآباد کا صدر مقام ڈیرہ اللہ یار ہے تو ضلع جھل مگسی کا گندھاوا، ضلع چاغی کا دالبندین اور ضلع کچھی کا ڈھاڈر۔ یہاں باقی صوبوں کی طرح تمام اضلاع کے نام صدرمقام پر نہیں رکھے گئے۔
ڈویژنل صدر مقام ہونے کے باوجود ڈیرہ مراد جمالی شہر کی حالت قابل افسوس ہے۔ یہ شہر کیا یہ پورا ڈویژن ہی انتہائی پس ماندہ ہے۔ تعلیم و صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر بھی تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ حالاںکہ نصیر آباد ڈویژن کے علاقے بلوچستان کے سب سے زرخیز علاقے شمار کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے منتخب نمائندے بالکل بھی عوام دوست نہیں لگتے۔
یہاں سے ٹرین کچھ چھوٹے اور متروک شدہ اسٹیشنوں کو کراس کرتی ہے جو کسی بیوہ کی مانگ کی طرح اُجڑے نظر آتے ہیں۔
ان میں نٹال، بختیارآباد ڈومکی، ڈمبولی، مٹھڑی، ڈنگرہ اور وزیرانی ریلوے اسٹیشن شامل ہیں۔
اس ویرانے سے گزر کے ایک بجے ٹرین نے سبی جنکشن پہ بریک لگائی۔
(جاری ہے)
[ad_2]
Source link