[ad_1]
پریشان کر دینے والی باتیں بہت سی ہیں جیسے جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنوں کا مسلسل دہشت گردی کا شکار ہو جانا اور جمعیت کی طرف سے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت۔ یہ موضوع پریشان کر دینے والا ہے لہٰذا اس پر بات ہونی چاہیے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے یعنی ہمیشہ دکھی اور مایوس کر دینے والی باتوں سے ذرا نظر بچا کر کیوں نہ کچھ امید بھری باتیں کر لی جائیں جیسے مریم نواز کی حکومت کے سو دن۔
انتخابات سے چند روز قبل ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی۔ سرکار دربار میں طویل عرصے تک ذمے داری انجام دینے والے یہ بزرگ خاصے مایوس تھے۔ بانی پی ٹی آئی سے اس لیے کہ وہ نہ کوئی بات سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جب کسی قوم کا ستارہ گردش میں آجائے تو اس کی قیادت ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے بارے میں ان کی رائے اس لیے مثبت نہیں تھی کہ اس کا مستقبل مریم نواز شریف ہیں لیکن چوں کہ ان کے اپنے الفاظ میں وہ زعم کا شکار ہیں، اس لیے ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اپنی اس ’دلیل‘ کی بنیاد پر وہ پاکستان کی سیاست اور اس بنا پر اس کے مستقبل سے مایوس تھے۔ انتخابات کے سو دن بعد ان سے ابھی تک ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن کبھی یہ موقع ملا تو میں ان سے یہ پوچھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ اب ان کی رائے کیا ہے؟
یہ درست ہے کہ مریم نواز نے اپنی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر ایک بھرپور تقریر کی ہے اور تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ گزشتہ 13 ہفتوں کے دوران میں انھوں نے کیا کچھ کیا ہے اور آیندہ کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن اگر وہ تقریر نہ بھی کرتیں تو بہت کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے مشکل حالات میں اتنے بہت سے کام جو پنجاب میں ہوئے ہیں، کیسے ممکن تھے؟پاکستانیوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں آزمائش میں ہی کھلتی ہیں۔ آزمائش اور چیلنجوں کو عام طور پر بدقسمتی تصور کیا جاتا ہے لیکن دراصل وہ مواقع ہوتے ہیں اور مریم نواز نے ان مواقع سے بھرپور فایدہ اٹھایا ہے، کسی ایک موقع اور چیلنج کو خالی جانے نہیں دیا، نتیجہ سامنے ہے۔
مریم نواز کی سو دن کی کارکردگی اور اس کے پس پشت کامیابی کے راز کو جاننا ہو تو ان کی حکمت عملی کے چند اہم نکات پر توجہ دینی ہوگی۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت کا تعلق ہے، اس دور کی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران میں کوئی کام نہیں ہوا، پہلے سے جو کام ہو چکے تھے، انھیں بھی ضایع کر دیا گیا بلکہ تباہ کر دیا گیا۔ اس عہد کی دوسری خوبی یہ تھی کہ صوبے کے وسائل پانی کی طرح بہائے گئے۔ اس کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ لاہور کا کچرا اٹھانے اور تلف کرنے کا بنا بنایا نظام تباہ کر کے شہر کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا۔
مریم نواز کی حکمت عملی کا دوسرا نکتہ بیوروکریسی کو پر اعتماد بنا کر مکمل طور پر متحرک کرنا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں حکومت نے اپنی بے تدبیری سے بیوروکریسی کے ساتھ فاصلہ پیدا کر لیا تھا۔ یہ بے تدبیری دو طرح کی تھی۔ اول، اس وقت کے وزیر اعظم نے سینئر افسروں کو دھمکا دھمکا کر ان کا حوصلہ پست کر دیا تھا اور دوسرے نیب کے ذریعے بے بنیاد کارروائیاں کر کر کے انھیں خوفزدہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں بیوروکریسی نے خوفزدہ ہو کر اس زمانے میں کوئی کام نہیں کیا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے کسی فائل پر دستخط کر دیے تو یہ عین ممکن ہے کہ کل یہی فائل ان کے ہی خلاف استعمال کرلی جائے۔ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ریاستی مشینری نے کام کرنا ہی بند کر دیا تھا۔
اس صورت حال نے پاکستان کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ مریم نواز نے اس مایوس کن صورت حال میں بیوروکریسی کا اعتماد بحال کر کے اسے متحرک کیا ہے۔ (وفاق میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی یہی کیا ہے لیکن اس وقت پنجاب کا ذکر ہے)۔ اعتماد کی بحالی کے بعد بیوروکریسی کے متحرک ہو جانے سے گویا جادو ہو گیا ہے۔ سرکاری افسران کے متحرک ہو جانے سے حکومت کی کارکردگی صفر سے سو پر جا پہنچی ہے۔ یہ بات تاریخ میں یقیناً یاد رکھی جائے گی۔
ان کی حکمت عملی کا ایک اور نکتہ اشیائے صرف خاص کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول ہے۔ آٹا، روٹی اور دیگر اشیا کے نرخوں پر کنٹرول کی وجہ سے پنجاب کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے اور وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بنیاد پر عوام کی بھاری اکثریت نے مریم نواز شریف کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ حکومت پنجاب نے مہنگائی کے جن پر قابو پانے کے لیے ایک اتھارٹی بنا دی ہے جس کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔
حکومت پنجاب کی کامیابی کا ایک اور راز محکمہ صحت میں اصلاحات ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں اسپتالوں سے مریضوں کو ملنے والی دوائیں بند کر دی گئی تھیں اور اسپتالوں کو نجی تحویل میں دینے کی تیاری کر لی گئی تھی۔ اس وجہ سے یہ شعبہ کسمپرسی کا شکار ہو چکا تھا۔ موجودہ حکومت نے صرف سو دنوں میں اس شعبے کی کایا پلٹ دی جس پر عوام نے سکون کا سانس لیاہے۔ صحت کے محکمے کی طرح تعلیم کے محکمے میں بھی بڑی مثبت تبدیلی آئی ہے خاص طور پر پرائمری جماعتوں کے بچوں کو دودھ اور ناشتے کی فراہمی غیر معمولی فیصلہ ہے جس سے بچوں کی صحت کا معیار بھی بہتر ہو گا اور تعلیم کا معیار بھی۔ مریم نواز نے طالب علموں خاص طور پر طالبات کو اعتماد دیا ہے اور انھیں الیکٹرک بائیک دے کر ان کے لیے نقل و حرکت کے مسائل حل کیے ہیں۔ اس فیصلے نے معاشرے کو کئی جست آگے بڑھا دیا ہے۔
اس حکومت کا ایک اور بڑا کارنامہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس سے حکومت کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے اور عوام کو اپنے مسائل کے حل میں تیزی اور آسانی میسر آئی ہے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے پنک بٹن اور مریم کی دستک جیسی اختراعات غیر معمولی اور قابل تقلید ہیں۔ یہ چند ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے مریم نواز نے بہ طور وزیر اعلیٰ خود کو منوا لیا ہے۔
[ad_2]
Source link