[ad_1]
26 جون کو ہر سال دنیا بھر میں انسدادِ منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصدمنشیات کے استعمال اور اس کی تجارت کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی دینا، صورتحال کا جائزہ لینا اور اس کی روشنی میں ضروری اقدامات اٹھانے پر زور دینا ہے۔
دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو باعث افسوس ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ اس وقت منشیات کے حوالے سے صورتحال کیا ہے، حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے، لوگ نشے کے عادی کیوں ہوتے ہیں، منشیات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’انسداد منشیات کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں اور ماہر نفسیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
آفتاب پھلروان
(انچارج نارکوٹکس انوسٹی گیشن یونٹ ایس پی پنجاب پولیس)
انسداد منشیات کے حوالے سے پہلے پولیس سٹیشنز کام کر رہے تھے۔ سڑکوں پر پڑے منشیات کے عادی افراد کو پکڑ کر سب اچھا کی رپورٹ دے دی جاتی تھی۔ اصل مسئلہ تو ڈرگ ڈیلرز کا تھا جو بااثر افراد تھے اور انہیں کسی بڑی انہیں کسی بڑی پشت پناہی حاصل ہوتی تھی۔ ان کے خلاف کارروائی کرنا پولیس سٹیشنز کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا اور مشکل بھی لہٰذا ایڈیشنل آئی جی، سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے پولیس میں ایک خصوصی ڈیپارٹمنٹ بنانے کا کہا جس کے بعد نارکوٹکس انوسٹی گیشن یونٹ (این آئی یو) قائم کیا گیا، اس نے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں۔ ہمیں حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔
پہلی مرتبہ کسی حکومت کی جانب سے انسداد منشیات پر سیاسی وِل دکھائی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی منشیات پر ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی ہے، انہیں اس کا بخوبی ادراک ہے کہ ہماری نوجوان نسل کس طرح نشے سے متاثر ہو رہی ہے لہٰذا انہوں نے ہمیں واضح ہدایت کی ہے کہ کسی کے دباؤ میں نہ آئیں ، اگر سیاسی دباؤ بھی ہو تو انہیں بتایا جائے، وہ اس سے خود نمٹیں گی، کسی سے نرمی نہیں برتی جائے گی۔اس سپورٹ کی وجہ سے آج منشیات کے کاروبار میں ملوث بااثر شخصیات اور بڑے ڈیلرز سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہم نے بڑے نیٹ ورکس اور ڈیلرز کی کمر توڑ دی ہے، سپلائی لائن ختم کر دی گئی ہے، اب جو چھوٹے ڈیلرز ہیں، ان کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
منشیات کے معاملے میں تھانوں کے ایس یچ اوز سمیت بیرون ملک سے نیٹ ورک چلانے والے بھی شکنجے میں ہیں،ان کے خلاف کیس درج ہوئے ہیں اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی ہیں۔ ہم ملک کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کر رہے ہیں،اب نارکوٹکس انوسٹی گیشن یونٹ کے اختیارات کو مزید بڑھایا جا رہا ہے جس کے بعد ہم خود مجرمان کی جائیداد ضبط کر سکیں گے۔ منشیات کی ترسیل روکنے کیلئے دنیا میں نئے طریقے آگئے ہیں۔
اس حوالے سے امریکا میں سکینرز موجو د ہیں جو گاڑی سکین کرکے نشے کی قسم اور وزن سمیت دیگر تفصیل دے دیتے ہیں۔ ہمیں بھی جدت کی طرف جانا ہوگا اورگاڑیوں کی چیکنگ کیلئے خصوصی سکینرز لگانا ہوں گے۔
منشیات کے روٹ کی بات کریں تو افغانستان سے باراستہ خیبر پختونخوا ، پنجاب میں منشیات کی سمگلنگ ہورہی ہے اور یہاں سے منشیات بھارت بھی سمگل کی جا رہی ہیں۔ ڈرون کے ذریعے بھی منشیات کی سمگلنگ ہوتی ہے، 1کلو سے10کلوگرام تک ڈرون کے ذریعے سپلائی کی جاتی ہے۔ تھائی لینڈ سے بیٹھ کرپاکستان میں ڈرون چلانے والا آئی ٹی انجینئر جو ایروسپیس کا ماہر بھی ہے، اس وقت کیمپ جیل میں ہے۔ اس کی اربوں روپے کی جائیداد بھی ضبط ہوچکی ہے۔
اسی طرح جارڈن گینگ بھی گرفتار کر لیا گیا جو پوش علاقوں میں منشیات سپلائی کر تا تھا۔ جو مجرمان اور ڈیلرز بیرون ملک بھاگ گئے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی جا ری ہے، ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی ہے۔
ہم اپنے گھر کی صفائی بھی کر رہے ہیں۔ ڈی ایس پی مظہر اقبال، تھانہ شاہدہ اور ہڈیارہ کے ایس ایچ اوز کے خلاف بھی منشیات کیس میں ایف آئی آرز درج کی گئی، انہیں نوکری سے برخاست کیا گیا اور جائیداد بھی ضبط کر لی گئی ہے۔ اس وقت منشیات ڈیلرز کے خلاف 15-CNSA کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے جو ناقابل ضمانت ہے۔ اس سے بھی سخت شق 9C ہے جس میں سزائے موت بھی ہے، اس نے ڈیلرز کی نیند اڑا دی ہے۔منشیات کے خاتمے کیلئے ہم ہر ممکن کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اب تک سینکڑوں کلو کے حساب سے منشیات ضبط کی ہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے مستقبل سے کھیلنے والوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
ڈاکٹر صداقت علی
(ماہر نفسیات)
60ء کی دہائی میں روایتی نشے، بھنگ ، چرس اور افیون تھے جبکہ شہروں میں مورفین کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا۔افغانستان میں جب روس کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے تو منشیات کی دنیا تک تجارت کا روٹ بدل گیا اور پاکستان اس کا نیا روٹ بن گیا۔ 70ء کی دہائی میں یہاں ہیروئن عام ہوگئی۔ چرس اور شراب نوشی کرنے والے بھی ہیروئن استعمال کرنے لگے۔ 2000ء میں کوکین پاکستان آئی ، اس وقت مہنگی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ عام اور سستی ہوگئی ۔ 2012-13ء میں ’’بریکنگ بیڈ‘‘ کے نام سے ایک سیزن بنا جس میں آئس بنانے کا آسان طریقہ بتایا گیا۔ اس کے بعد امریکا اور دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھا، پاکستان میں بھی آئس پہنچ گئی۔
ہمارے جیسے ممالک، جہاں کردار سازی پر توجہ نہیں دی جاتی وہاں غلط رویوں کا فروغ پانا آسان ہوتا ہے۔ اب آئس کا دور ہے اور یہاں لوگ خود بھی تیار کر رہے ہیں۔ منشیات کی طرف راغب ہونے کی بڑی وجہ معاشی ناانصافیاں ہیں۔ موڈ اور مزاج کی خرابی میں بھی نشے کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ نشہ کرنے سے موڈمیں بڑی تبدیلی آتی ہے جو نارمل حالت میں ممکن نہیں۔ اسی طرح ڈاکٹرنے دوا دی، مریض کو سکون ملا، وہ علاج مکمل ہونے کے بعدوہ ڈاکٹر سے رائے لیے بغیر خود ہی استعمال کرنے لگتا ہے اور نشہ کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نشہ کرنے والے 80 فیصد افراد کو اس کی لت نہیں لگتی، وہ اس کے عادی نہیں ہوتے، صرف 20 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جو اس کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جسمانی طور پر نشے کے قابل نہیں رہتے مگر پھر بھی نشہ کرتے ہیں اوراس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ معاشرے کے کارآمد افراد ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، سی ای اوز نشہ کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے، ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا، بچوں کو زندگی جینے کی سکلز سکھانا ہونگی۔ ہمارے ہاں کردار سازی پر کام نہیں ہوتا، بچے بڑے ہوکر بگڑ جاتے ہیں لہٰذا والدین، اساتذہ اور بچوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ 2برس کی عمر سے ہی بچے کی تربیت کریں، اسے انکار سننے کی عادت ڈالیں، معاشرے کے حساب سے تیار کریں، مشکلات کا مقابلہ کرنے کی تربیت دیں، بچوں پر ترس ہر گز نہ کھائیں۔بچے پر سب سے بڑا ترس یہی ہے کہ اس پر ترس نہ کھایا جائے۔
اکثر والدین اپنی محرومیوں کے پیش نظر بچوں کو ہر آسائش دیتے ہیں، انہیں انکار کی عادت نہیں ڈالتے، جب یہ بچے بڑے ہوکر مشکل صورتحال سے دو چار ہوتے ہیں تو حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور خود کو سکون دینے کیلئے منشیات کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ منشیات کی روک تھام کیلئے تعلیمی اداروں میں آگاہی سیشنز، میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دی جائے، تعلیمی نصاب میں بھی تربیتی مضامین شامل کیے جائیں۔
سید ذوالفقار حسین شاہ
(نمائندہ سول سوسائٹی)
منشیات کے حوالے سے سب سے بڑی سٹیک ہولڈر حکومت ہے، پھر والدین اور اساتذہ ہیں لہٰذا اگر تینوں اپنا درست کردار ادا کریں تو ملک کو منشیات سے پاک کیا جاسکتا ہے۔رواں برس انسداد منشیات کے عالمی دن کا موضوع تھا ’’ثبوت واضح ہے ، روک تھام پر خرچ کرنا ہوگا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پری وینشن پر خرچ کیا جائے ، لوگوں کو آگاہی دی جائے اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ منشیات کی روک تھام ہوسکے۔ منشیات کے حوالے سے کام صرف اس کی تجارت روکنا نہیں بلکہ آگاہی، ہسپتالوں کا قیام، منشیات کے عادی افراد کی بحالی و دیگر شامل ہیں۔ میں نے جمہوریت اور آمریت ، دونوں ادوار میں انسداد منشیات کیلئے کام کیا مگر بدقسمتی سے کسی بھی حکومت کی اس مسئلہ پر توجہ نہیں رہی۔ ہمارے ہاں ہر کام پولیس پر ڈالا جا رہا ہے، جو کام سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا ہے، وہ بھی پولیس کے ذمے لگا دیا گیا کہ سڑکوں سے نشہ کرنے والوں کو اٹھایا جائے۔
سوشل ویلفیئر اور صحت کے محکمے منشیات کے حوالے سے کام ہی نہیں کر رہے، جو ہو رہا ہے وہ معمولی ہے۔ افسوس ہے کہ حکومتوں اور اداروں میں نان پروفیشنل اور خوش آمد کرنے والے بعض افراد موجود ہیں جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں، وہ نہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے ہی آج تک منشیات کا تدارک نہیں ہوسکا۔ منشیات کا معاملہ معمولی نہیں ،اس کے ملک پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ پوری دنیا اس وقت کیمیکل پر بات کر رہی ہے، ہمارے ہاں کیمیکل کا استعمال زیادہ ہے۔ اس کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہم پر عالمی پابندیاں لگ سکتی ہیں لہٰذا حکومت کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ آئس لاہور میں ایسے مل رہی ہے جیسے ٹافی ہو، یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟ 2017ء میں اس کی ایک ڈوز 5 ہزار روپے کی تھی، اب 1200 روپے میں مل رہی ہے۔
لوگ گھروں میں آئس تیار کر رہے ہیں، 2 کیمیکل ملاتے ہیں اور آئس تیار ہو جاتی ہے، ایسے افراد پکڑے بھی گئے ہیں مگر یہ کام جاری ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو 2013ء میں 67 لاکھ افراد نشے کے عادی تھے، اس میں شراب نوشی کرنے والے شامل نہیں، آج یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ سے تجاوزک کر گئی ہے جو بہت بڑی تعداد ہے اور ملک کیلئے چیلنج بھی۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے، چائے خانے اور پوش علاقے منشیات کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ نوجوان نیکوٹین پاؤچ، آئس سمیت جدید اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں جو انہیں باآسانی دستیاب ہیں۔
نشہ عام ہے مگر افسوس ہے کہ منشیات کے حوالے سے صوبائی سطح پر کوئی پالیسی نہیں۔ وزیراعلیٰ کام کرنا چاہتی ہیں مگر نان پروفیشنلز کی وجہ سے مسائل ہیں۔ میری تجاویز ہیں کہ پناہ گاہوں کو منشیات بحالی سینٹرز میں بدلا جائے، خواتین کی بڑی تعداد نشے کی عادی، ان کے لیے الگ ہسپتال، سینٹرز قائم کیے جائیں، 18 برس سے کم عمر نشے کے عادی بچوں کے حوالے سے بھی پالیسی بنائی جائے، ب فارم کی بنیاد پر انہیں سینٹرز میں داخل کیا جائے اور ان پر خصوصی توجہ دی جائے۔
’ای‘ سگریٹ ، ویپ اور نیکوٹین پاؤچ کو قانونی شکل دینے والوں کے خلاف سخت اور بلاتفرقی کارروائی کی جائے۔ ہماری نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے، خدارا ہوش کے ناخن لیں، یونیورسٹی مالکان کو اعتماد میں لے کر تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک کیا جائے۔ والدین، اساتذہ، نان ٹیچنگ سٹاف کی تربیت کی جائے۔ اس وقت لاہور میں 7 ہسپتال ہیں جو منشیات کے عادی افراد کیلئے کام کر رہے ہیں، ان میں مینٹل ہسپتال سب سے بڑا ہے۔
اس کے علاوہ سر گنگا رام ہسپتال، جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں 7، 7 بیڈز جبکہ میو ہسپتال میں 10 بیڈز موجود ہیں، ہسپتالوں کی تعداد اور سہولیات کو بڑھانا ہوگا۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر منشیات کی روک تھام کے لیے سخت اور ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے، منشیات کی سپلائی کو ناقابل معافی جرم قرار دینا ہوگا۔ مطالبہ ہے کہ معصوم بچوں کا مستقبل بچانے کیلئے ذمہ داران کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
[ad_2]
Source link