[ad_1]
’’کرامت صاحب، ایک مرحوم سیاسی کارکن کی 11سالہ پوتی کو مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ کرامت علی نے ٹیلی فون پر پوچھا ’’ اس بچی کو کیا ہوا ہے؟‘‘ جوابا کہا گیا ’’بچی کی ریڑھ کی ہڈی میں غیر معمولی گروتھ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فوری طور پر آپریشن نہ ہوا تو بچی کا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘ پھر کرامت صاحب نے سوال کیا ’’ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں؟‘‘ جواب میں بتایا گیا کہ ’’ بچی کا ایک خطرناک آپریشن ہوگا اور یہ آپریشن کراچی میں صرف ضیاء الدین اسپتال میں ہوسکتا ہے۔‘‘ کرامت نے پھر سوال کیا کہ ’’ کیا ڈاکٹر سے مشورہ کیا ہے؟‘‘ جواباً کہا گیا’’ڈاکٹر نے سرجن سے بات کی ہے۔
وہ بھی یہی حل تجویز کر رہے ہیں۔‘‘ کرامت صاحب بولے’’ اچھا میں کچھ کرتا ہوں اور ٹیلی فون بند ہوگیا۔‘‘ کرامت علی نے اگلے ہفتہ مختلف لوگوں اور اداروں سے رابطہ کیا اور پھر اسپتال کو رقم فراہم کردی گئی، جب آپریشن مکمل ہوا اور کرامت علی کو پھر ٹیلی فون پر اطلاع دی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’ میں نے احتیاط کے طور پرکچھ اور پیسے جمع کیے ہیں‘‘ مگر کرامت صاحب کو بتایا گیا کہ آپریشن کامیاب ہوا ہے، بچی تیزی سے صحت یاب ہورہی ہے۔
کرامت علی پاکستان کی مزدور تحریک کا ایک اہم ستون تھے۔ کرامت علی کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد ملتان میں آباد ہوا۔ یہ ایک نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا جہاں تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا گیا، یوں کرامت علی نے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی، ایمپریس کالج میں داخلہ لیا ۔ یہ 60ء کی دہائی کا آغاز تھا۔ ملک پر جنرل ایوب خان کی آمریت نے اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔ کراچی میں بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے تین سالہ ڈگری کورس کے نفاذ کے خلاف ایک مہم منظم کی تھی۔ این ایس ایف کے رہنماؤں معراج محمد خان، علی مختار رضوی، مختار علی خان، واحد بشیر، سید سعید حسن، آغا جعفر اور نفیس صدیقی وغیرہ کو کراچی بدرکر دیا گیا۔
کرامت علی ایک دن کالج پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کراچی سے آئے ہوئے طالب علم رہنما معراج محمد خان اور علی مختار رضوی ان کے کالج میں موجود ہیں۔ ان رہنماؤں نے طلبہ کو اپنی تحریک کے مقاصد اور حکومت کی کارروائیوں سے آگاہ کیا۔ ان رہنماؤں نے طلبہ کو بتایا کہ صوبہ مغربی پاکستان کی انتظامیہ ان رہنماؤں کوکسی ایک شہر میں رکنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ کرامت علی نے ان رہنماؤں سے پوچھا کہ ’’ ملتان میں رہنے کی اجازت کون دے گا؟‘‘ ان رہنماؤں نے کہا کہ ’’ ملتان کے کمشنر یہ اجازت دیدیں گے‘‘ یوں کرامت علی نے زندگی میں پہلی بار ایک جلوس نکالا۔ جلوس نے ملتان کے کمشنر ہاؤس پر دھاوا بولا۔ کمشنر صاحب نے این ایس ایف کے رہنماؤں کوکچھ دنوں تک ملتان میں رہنے کی اجازت دیدی۔
بعد ازاں کرامت علی روزگار کی تلاش میں کراچی آئے اور جناح کالج میں داخلہ لے لیا۔ جناح کالج نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا یونٹ خاصا مضبوط تھا۔ یہ 1968 کا سال تھا۔ جنرل ایوب خان نے اپنی حکومت کے اقتدار کے 10 سال مکمل ہونے پر ایک پروگرام ترتیب دیا تھا۔ کراچی کے میٹرک بورڈ میں اس سلسلے میں کوئی تقریب منعقد ہورہی تھی کہ این ایس ایف کے کارکنوں نے جن میں بصیر نوید، ضیاء اﷲ، عابد علی اور کرامت علی وغیرہ شامل تھے اچانک ہنگامہ شروع کردیا اور یہ پروگرام ناکام ہوا۔ کرامت علی نے گریجویشن کرنے کے بعد عملی طور پر اپنی زندگی کو مزدور تحریک کو منظم کرنے کے عمل کے لیے وقف کردیا۔
70ء کی دہائی میں مزدور رہنما عثمان بلوچ، یاور خان، واحد بشیر، مشتاق میمن اور بصیر نوید وغیرہ نے مزدور تحریک کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا تو متحدہ مزدور فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ مزدور فیڈریشن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکن شامل تھے جن میں سے بیشتر نے طلبہ تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یورپ سے تعلیم حاصل کرکے انقلابی جدوجہد میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے شامل تھے۔ اس فیڈریشن میں اکثریت تو چیئرمین ماؤ کے نظریات کے متاثرین کی تھی مگر کچھ نوجوان سوویت یونین کے مرد آہن جوزف اسٹالن کے منحرف دانشور ٹرائیکی کے حامی بھی تھے۔
60ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں ویتنام میں ہوچی منہ کی قیادت میں امریکی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد دنیا بھر کے نوجوانوں کو متاثرکر رہی تھی جس کی بناء پر یورپ میں نوجوانوں نے یونیورسٹیوں میں ویت نام سے امریکا کی فوجوں کی واپسی کے لیے تاریخی جدوجہد شروع کی ہوئی تھی۔ پاکستانی نژاد طارق علی اس تحریک کا اہم کردار تھے۔ متحدہ مزدور فیڈریشن میں عثمان بلوچ اور کرامت علی وغیرہ نئے جوش و جذبہ سے سرشار تھے۔ اسی زمانہ میں پیپلز پارٹی نے سوشل ازم کا نعرہ بلند کیا تھا اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان ہر فرد کا حق کے نعرہ کے ذریعے پنجاب اور سندھ کے عوام میں مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ڈاکٹر رشید حسن خان کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرتی تھی مگر کرامت علی اور ان کے ساتھی ذوالفقارعلی بھٹو کی تقاریر اور پیپلز پارٹی پر ایک تنقیدی نقطہ نظر رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب مارچ 1971 میں جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی بنگال کے عوام کی تحریک کو کچلنے والے آپریشن کی حمایت کی تو کرامت علی ان چند لوگوں میں شامل تھے جو اس آپریشن کی مخالفت کررہے تھے۔
دسمبر 1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور پیپلز پارٹی نے بقیہ پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ پیپلز پارٹی نے بڑے پیمانہ پر اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ 1972 کے ابتدائی مہینوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی صنعتوں اور بینکوں کو اپنی تحویل میں لیا۔ زرعی اصلاحات کے علاوہ تعلیم اور مزدوروں کی بہبود کے لیے اصلاحات نافذ کی گئیں مگر حکومت فوری طور پر مزدوروں کے مسائل کے حل پر توجہ نہ دے سکی۔ اس دور میں سرمایہ داروں نے ایک منظم منصوبے کے تحت کارخانوں میں تنخواہ نہ دینے ، مزدوروں کی برطرفی اور کارخانوں کے لاک آؤٹ کا حربہ استعمال کرنا شروع کیا تھا مگر سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو کی انتظامیہ نے مالکان کی حمایت کرنا شروع کردی تھی جس کی بناء پر جون 1972میں سائٹ کراچی میں مزدوروں کی برطرفی اور لاک آؤٹ کے خلاف مزدوروں نے احتجاج شروع کیا۔
متحدہ مزدور فیڈریشن کے رہنماؤں عثمان بلوچ ، کرا مت علی اور بصیر نوید وغیرہ کی قیادت میں مزدوروں کا احتجاج پرامن تھا مگر پولیس نے طاقت کا بیہمانہ استعمال کیا، جون کی تحریک میں کئی مزدور شہید ہوئے۔ عثمان بلوچ اور کرامت علی وغیرہ کو کئی برسوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ کرامت علی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی لیبر پالیسی خاصی بہتر تھی مگر فیڈریشن کو چلانے والے کمیونسٹ گروپ کی انتہا پسندانہ پالیسی کی بناء پر اس کے مثبت پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا گیا۔
کرامت علی جب جیل سے رہا ہوئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں مزدور تحریک کمزور ہوگئی تھی اور پھر اس کا فائدہ 1976 میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) نے اٹھایا۔ کرامت علی ہالینڈ چلے گئے۔ ہالینڈ کے ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (I.S.S) سے لیبر اینڈ ڈیولپمنٹ میں ماسٹر کیا۔ کرامت علی نے عثمان بلوچ وغیرہ کے ساتھ مل کر مزدوروں میں تنظیم سازی کا شعور پیدا کرنے اور مزدوروں کے معاملات پر تحقیق کے لیے ایک ادارہ پائلر قائم کیا۔
پائلر نے ٹریڈ یونین کے معاملات پر تحقیق کے لیے نمایاں کام کیا اور اس کے ساتھ بہت سارے انقلابیوں کے لیے پائلر روزگار کا ذریعہ بن گیا۔ کرامت علی سمجھتے تھے کہ اس خطے میں تمام ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہوجائیں اور تمام ممالک کی توجہ غربت کے خاتمے کی طرف مرکوز ہوجائے تو ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے زندگی کی آخری رمق تک جدوجہد کرتے رہے۔ کرامت علی کا جانا اس ملک کی ترقی پسند تحریک کے لیے ایک نقصان ہے۔ معروف شاعر توقیر چغتائی نے کرامت علی کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
لڑنے والوں سے کتنا لڑا ایک شخص
امن کے راستہ میں کھڑا ایک شخص
پاک بھارت کی سرحد پر پھولوں کے ساتھ
جنگ کو روکنے چل پڑا ایک شخص
لوگ کہتے تھے جس کو کرامت علی
قد میں چھوٹا مگر تھا بڑا ایک شخص
[ad_2]
Source link