12

دورِ فاروقی اسلام کا روشن نظام ِحیات

[ad_1]

اسلامی سال 1445 ہجری ہم سے جدا ہورہا ہے اور نئے اسلامی سال کی آمد آمد ہے۔ آج سے ٹھیک دو یا تین دن کے بعد یکم محرم الحرام سے نیا اسلامی سال شروع ہونے جارہا ہے، محرم الحرام کو شہادتوں کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے اس کی پہلی تاریخ کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی المناک شہادت کا سانحہ رونما ہوا اور 10 محرم الحرام کو نواسہِ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے 72جانثاروں کی المناک اور درد ناک شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ اسی لیے دنیا بھر کے مسلمان محرم الحرام کے پہلے عشرے کو عشرہ فاروق و حسین کے عنوان سے مناتے ہیں۔

27 ذی الحجہ 23 ہجری کو نماز فجر کی امامت کے دوران ابو لولو فیروز نامی مجوسی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خنجر سے حملہ کیا، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا خود کش حملہ تھا جس میں خلیفہ وقت زخمی ہوئے اور اس حملے کے تین روز بعد یکم محرم الحرام 24 ہجری کو آپؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔آپؓ کے قبول اسلام کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور خود رسول اکرمﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدرد نصیب ہوا۔ وہ رفیق جس نے کلمہ پڑھا تو مسلمانوں کے لیے کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔

وہ رفیق جس کے اسلام لانے سے کعبے میں اللہ کی توحید کے سجدے شروع ہوگئے۔ وہ رفیق جو منبر پر بیٹھ کر بولے تو اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے ان کی آواز کو کئی میل دور پہنچا دے۔ وہ رفیق جو زمین پر درہ مارے تو اللہ زلزلے روک دے۔ وہ رفیق جو دریا کو خط لکھے تو اللہ دریا چلا دے۔ وہ رفیق جس کے لیے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کہیں کہ عمر! جہاں سے تم گزرو شیطان نہیں گزرے گا۔ وہ رفیق جس کے لیے پیغمبر کہیں کہ عمر! میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ آپؓ کے قبولِ اسلام کے لیے خود رسول اللہﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی۔

حضرت امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ سے کسی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے بارے میں پوچھا تو حضرت شاہ جی نے فرمایا کہ: ’’عمر رضی اللہ عنہ مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مْریدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام، حکمائے اسلام حتیٰ کہ غیر مسلم مفکرین نے بھی اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔

حضرت عمرؓ بن خطاب سابقون الاولونؓ اور عشرہ مبشرہؓ میں شامل ہیں۔ پانچ سو سے زائد احادیث مبارکہ آپؓ سے مروی ہیں۔آپ ایک عظیم عادل حکمراں، فاتح سیاست داں ومدبر اور منتظم بھی تھے۔ پیچیدہ فقہی مسائل میں آپ ؓ کی مجتہدانہ رائے تمام عقدے کھول دیا کرتی تھی، یہ حرف آخر کی حیثیت رکھتی تھی۔ نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ اس جانثار ساتھی کا دور خلافت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے جس پر چل کر فلاح انسانیت کے باب رقم کیے جاسکتے ہیں، دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کیا جاسکتا ہے، غریبوں کو غربت سے نکال کر امارت کے رستے پر ڈالا جاسکتا ہے، بے کسوں، محتاجوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی تنگدستی دور کی جاسکتی ہے۔

آئیے پیغمبر اسلامﷺ کے اس جلیل القدر صحابی کے دور خلافت کی چند جھلکیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور میں عظیم فتوحات کی بدولت  22لاکھ مربع میل تک اسلامی ریاست کی حدود پھیل گئی تھیں اور اس وقت کی دو سپر طاقتوں روم اور فارس کو عبرت ناک شکست دی۔ سید نا عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں اتنے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں کہ انسان اپنی تمام تر شعوری کوششوں کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آپ ؓ کے کس کارنامے کو سب سے بڑااور اصل کارنامہ سمجھے۔ ہم سیدنا عمر فاروقؓ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھتے ہیں کہ، آپؓ نے دینی شورائی بنیادوں پر ایسا آئینِ حکومت وضع کیا اورایسا عادلانہ نظام قائم کیا جو مسلمانوں کی جملہ سعادتوں اور ترقیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بنیادی حقوق کا ضامن تھا۔

سید ناعمرؓ ہر وقت اپنی قوم کی فکر میں رہتے خلافت کے ابتداء میں جب اقتصادی حالت بہترنہیں تھی تو ان کے چہرے کی سفیدی ماند پڑنے لگی اور انھوں نے خودپرلازم کیا کہ اس وقت تک گھی استعمال نہیں کروں گا جب تک قحط سالی ختم نہیں ہو جا تی۔ سیدنا عمرؓ کی زندگی اور خلافت امت کے لیے امن وسکون اور کامیابی کا زینہ تھی۔ بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے کہ 24/7 کام کرنے کی اصطلاح جو آج ہم استعمال کرتے ہیں، یعنی ہفتے کے سات دن اورہر دن کے چوبیس گھنٹے۔ اس اصطلاح کو پہلی بار سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور حکومت میں لاگو کیا۔

خلیفہ ثانی عمر فاروق اور ان کا عملہ کسی بھی کام کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتا تھا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ “آج کا کام کل پر ڈالنے سے کام جمع ہوجاتا ہے اور کبھی مکمل نہیں ہو پاتا”۔ گورنروں کا تقرر، ججوں کا انتخاب، فوجی افسروں کا چناؤ، لشکروں کی تربیت و تنظیم، فوجی نقل و حرکت کے احکام، کمک بھیجنا، نقشے بنانا، شہروں کی حدیں کھینچنا، قانون سازی، تقسیم مال غنیمت، حدود و تعزیرات کا اجرا وغیرہ، یہ تمام خدمات آپؓ اپنی صوابدید، دور اندیشی، فہم و فراست سے انجام دیتے رہے۔

ان جلیل القدر خدمات کے ساتھ آپ خاک نشین تھے۔ عوام کے ساتھ مل جل کر رہتے، یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی خلافت کا زمانہ آج تک عدل و امن اور انتظام کے لحاظ سے دنیا کا اعلیٰ ترین مثالی دور مانا گیاہے۔ چودہ صدیاں قبل حضرت عمرؓ نے ایک صالح معاشرہ کے لیے بنیادی اصول وضع کر دیے تھے۔ حکمران کے حقوق بھی ہوتے ہیں اور فرائض بھی۔ اسی طرح رعایا کے حقوق اور فرائض ہوتے میں۔ جماعت خیر خواہی اور اطاعت کے ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔

حضرت عمر ؓ نے فرمایا: “اطاعت ہوگی تو جماعت قائم رہے گی۔ اطاعت کے بغیر جماعت قائم نہ رہ سکے گی۔” سچی بات یہ کہ اطاعت کے بغیر نہ کوئی جماعت قائم رہ سکتی ہے، نہ ادارہ، نہ خاندان، نہ تنظیم۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور ِ خلافت میں اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد، رعایاسے ان کے فرائض سے متعلق باز پرس کی۔ اس سے ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جس میں ہر فرد اپنے دینی، معاشرتی وسماجی فرائض اور قانونی واجتماعی ذمے داریوں کو احسن طریقے ادا کرنے لگا۔ جس سے ایک قابل رشک صورت حال پیدا ہوگئی، جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

آج ہم دور فاروقی کی درخشندہ مثالوں اور کارناموں کو سنتے ہیں اور ان کی روشنی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، پاکستان جو دنیا کی واحد ریاست ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن یہاں اسلام ہے نہ جمہوریت۔ کاش ہم امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑتے تو آج ہم غیروں کے محتاج نہ ہوتے، ہماری معیشت آئی ایم ایف کے آگے گروی نہ پڑی ہوتی، ہم پائی پائی کے محتاج نہ ہوتے، دنیا میں ہمیں ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، لوگ بھوک ، افلاس اور بے روزگاری کا شکار نہ ہوتے، لوگوں کا اپنے اداروں اور نظام انصاف سے اعتماد نہ اٹھ گیا ہوتا۔ ہم نے محمد عربیﷺ اور ان کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے راستے کو چھوڑ دیا ذلت ہمارا مقدر بن گئی، اگر آج بھی ہم اس راستے کو اپنا لیں تو تمام مسائل اور مشکلات سے نکل کردنیا میں باوقار مقام حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس راستے پر چلنا پہلی شرط ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں