16

چابہار بندر گاہ فنکشنل‘گوادر بندر گاہ اور کام سست

[ad_1]

ہمارے وزیر دفاع ، خواجہ محمد آصف، نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے :’’ ایران کی بندرگاہ ( چابہار) کا ایک ٹرمینل بھارت کے سپرد ہونے  سے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں ۔ کراچی بندرگاہ کا طاقتور مافیا، جو سالانہ چار ہزار ارب روپے کی کرپشن کرتا ہے، گوادر بندرگاہ کو چلنے نہیں دے رہا ، حالانکہ گوادر بندرگاہ ’’چا بہار ‘‘ بندرگاہ سے کہیں زیادہ گہری اور بہتر ہے ۔ گوادر اور بلوچستان میں دہشت گردی کی جو بھی وارداتیں ہوتی ہیں، اِنہیں اِس مافیا سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔گوادر بندرگاہ کامیاب ہو جائے تو بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریکوں کے لوگوں کو بھی روزگار ملے گا۔‘‘

مئی 2024 کے دوسرے ہفتے ایران اور بھارت کے درمیان ایک ایسا تجارتی اور اسٹرٹیجک معاہدہ ہُوا ہے جو چین کے ساتھ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ خواجہ آصف نے اِسی جانب اشارہ کیا ہے۔ ایران ، پاکستان کا ’’مسلمان برادر و ہمسایہ ‘‘ ملک ہے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ایران نے خالصتاً اپنے معاشی مفادات کو اولیت دی ہے۔ایران اور بھارت کے مابین متنوع قسم کے دفاعی و تجارتی معاہدے موجود ہیں۔ بھارت سے ’’چا بہار‘‘ بندرگاہ پر معاہدے پر دستخط کرتے ہُوئے ایران کے حکام نے پاکستان کی ہمسائیگی اور مفادات کے بجائے اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کیا ہے‘ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور ہمارے جملہ حکمران بھی اپنے وطن اور اپنے عوام کے مفادات کو پیشِ نگاہ رکھیں ۔

13 مئی 2024 کو ایران اور بھارت نے چا بہار بندرگاہ پر جو معاہدہ کیا ہے، یہ دراصل اُس تہرانی دَورے کا ثمر ہے جو بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، نے 8 سال پہلے کیا تھا ۔ ایرانی بندرگاہ پر یہ معاہدہ 10 سال کے لیے ہُوا ہے ۔یعنی چابہار نامی ایرانی بندرگاہ کے ایک اہم ترین حصے ( شہید بہشتی ٹرمینل) میں ایک عشرے تک بھارت کے انجینئر اور دگر عملہ موجود رہے گا ( چا بہار بندرگاہ کے دو حصے ہیں: شہید بہشتی ٹرمینل اور شہید کلنتاری ٹرمینل) بندرگاہوں کے معاملات کے ذمے دار بھارتی ادارے IPGL اور ایرانی ادارے PMO نے اِس معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔

بھارت کی طرف سے بندرگاہوں کے وزیر، سربندہ سونو وال، اور ایران کی جانب سے شپنگ کے وزیر،مہر داد بازر باش، نے دستخط کیے ہیں ۔ دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے ایرانی وزیر، مہر داد بازرباش، نے مسرت سے کہا:’’ ہم اِس معاہدے پر خوش ہیں ۔ ہمیں بھارت پر مکمل اعتماد اور اعتبار ہے ۔‘‘ بھارت ،جو پہلے ہی مبینہ طور پر چابہار بندرگاہ پر250 ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے ، نے معاہدے پر تازہ دستخطوں کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ چا بہار کے انفراسٹرکچر کو جدید تر بنانے کے لیے اب مزید 120 ملین ڈالر خرچ کرے گا ۔

نقشہ دیکھیں توچا بہار بندرگاہ بحیرئہ ہند میں پاکستانی بارڈر سے مغرب میں صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نظر آتی ہے ۔ یوں بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی چابہار پاکستان اور گوادر کی اسٹرٹیجک و تجارتی پوزیشن کو متاثر اور چیلنج کرنے والی ہے ۔ ایسے میں پاکستان کو بجا طور پر خطرات کی گھنٹی بجتی سنائی دے رہی ہے ۔ پاکستان نے جناب محمد نواز شریف کے وژن اور زیر نگرانی موٹروے تو اُن تجارتی اور اسٹرٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے تعمیر کی تھی کہ پاکستان سے براہِ راست افغانستان اور وسط ایشیا سے تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں گے ۔ بھارت بھی اپنا مال اِسی موٹر وے کے ذریعے افغانستان اور سنڑل ایشیا تک پہنچا سکے گا ۔ اور پاکستان تجارتی راہداری فراہم کرنے کے عوض بھارت سے فیس وصول کر سکے گا اور ڈالر کمائے گا ۔ گوادر بندرگاہ کی تیزی سے تعمیر بھی اِسی منصوبوں کی ایک شاندار کڑی تھی ۔

لیکن بُرا ہو ہماری ’’بُرا کریسی‘‘کا ، ہمارے تنگ نظر اور کند ذہن حکمرانوں کا کہ نواز شریف کے سارے منصوبے اور خواب خاک میں ملا دیے گئے۔ محض اپنے پاؤ گوشت کے حصول کے لیے ۔ اب بھارت چا بہار کی بندرگاہ کے ذریعے اپنا اربوں ڈالر کا سامانِ تجارت افغانستان اور وسط ایشیا تک پہنچا سکے گا ۔ لینڈ لاکڈ سینٹرل ایشیا تک اپنا مال پہنچانے کے لیے بھارت اب پاکستان کو بائی پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ اور پاکستان ہاتھ ملتا اور منہ دیکھتا رہ گیا ہے۔ سفارتی، تجارتی اور تزویراتی اعتبار سے بھی بھارت کی یہ غیر معمولی کامیابی ہے۔بندرگاہوں کے بھارتی وزیر، سربندہ سونو وال، نے کہا ہے :’’ہم چابہار کے توسط سے افغانستان سے نئے رشتے استوار کرنے کے شدید خواہشمند ہیں ۔‘‘ پہل کرنے کے لیے بھارت نے چا بہار کے راستے 25 لاکھ ٹن گندم اور 2 ہزار ٹن دالیں افغانستان تک پہنچا بھی دی ہیں۔ اِس پس منظر میں وزیر دفاع، خواجہ آصف ،نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے ، وہ بے بنیاد نہیں ہیں ۔

پاکستان کے لیے خاص پریشانی یہ ہے کہ امریکا بہادر نے ایران پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں ۔ یہ پابندیاں کسی بھی ملک کو ایران سے کسی بھی قسم کے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتیں ۔ اِنہی پابندؤں کے کارن امریکا ، کئی برسوں سے ، پاکستان کو ایران سے سستی گیس اور سستا تیل خریدنے کی اجازت نہیں دے رہا ۔ جب کہ دوسری طرف اب جب کہ بھارت نے ایران سے اتنا بڑا تجارتی معاہدہ کر لیا ہے ، امریکا خاموش ہے ۔

اُس نے بھارت کو دھمکی بھی دی ہے تو زیر لب ۔ ایک تجزیہ نگار کے الفاظ میں:Thinly Veiled Threatچابہار پر معاہدے کے فوراً بعد جب وائیٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی صحافؤں نے اِس پر سوالات اُٹھائے تو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ، ویدانت پٹیل،نے ہولے سے کہا:’’ ہاں ، ہمیں یہ سب معلوم ہے ۔ ایران پر پابندیاں بدستور اپنی جگہ قائم ہیں ۔ بھارت کو بھی اِس سلسلے میں کوئی استشنا نہیں ۔‘‘ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ویدانت پٹیل کا آہستگی سے جواب دینے کا مفہوم یہ ہے کہ امریکا دو عملی سے بھارت کو ایران سے تجارتی فائدے اُٹھانے کا اشارہ دے رہا ہے ۔

امریکا چا بہار کی شکل میں بھارت کی پہلی میجر اووَرسیز پورٹ وینچرپر یہ دو عملی کا مظاہرہ کیوں کررہا ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا کہ چین کے تعاون سے پاکستان گوادر کی بندرگاہ کو جدید اور پوری طرح فنکشنل بنا سکے ۔ امریکا چا بہار پر خاموشی اختیار کرتے ہُوئے بھارت کو آگے بڑھنے کی شہ دے رہا ہے ۔

بھارتی وزیر خارجہ ، جئے شنکر، نے بھی ایران پر امریکی پابندیوں کے پس منظر میں جو بیان دیا ہے، وہ اِس امر کا غماز ہے کہ چا بہار معاہدے پر امریکا دراصل بھارت کو شک کے پردے میں فائدہ اُٹھانے کی بین السطور اجازت دے رہا ہے ۔یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہُوا جب بھارت میں عام انتخابات ہو رہے تھے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے اِسے اپنی ایک اور بڑی عالمی سفارتی اور تجارتی کامیابی قرار دیتے ہُوئے چا بہار معاہدے کو انتخابات میں بطورِ ہتھیار بھی استعمال کیا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں