[ad_1]
اگر ہم آج کل کے اپنے معاشی حالات کا جائزہ لیں اور پھر معاشی بدحالی کی وجوہات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ آج ہماری زندگی سے جو راحت و سکون اٹھ گیا ہے۔
ہماری آمدن سے جو خیر و برکت نکل گئی ہے اور افرادی و قومی ہر اعتبار سے ہمارے معاشی حالات جو بگڑتے جارہے ہیں، دوسری وجوہات کے علاوہ اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کاروبار اور لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی سے کام لیتے ہیں، ناپ تول میں کمی کوئی نئی بات نہیں بل کہ صدؤں سے کاروباری لوگ اس بُرائی میں پڑے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ آج کل ناپ تول کی ہیرا پھیری میں جتنی تیزی آچکی ہے اور بازاروں میں جتنے طریقے اپنائے جارہے ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے، حالاں کہ مسلمان ہونے کے ناتے ہم پر اﷲ اور اس کے حبیب کریم رسول اکرم ﷺ کے احکامات ماننا اور ان پر عمل کرنا ضروری بھی ہے اور اسی میں ہماری دینی و دنیاوی کام یابی کی ضمانت بھی۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے کئی جگہ انصاف کے ساتھ ناپ تول کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، سورۃ رحمٰن میں اﷲ پاک کا فرمان ہے، ترجمہ کنُزالعِرفان: ’’اور آسمان کو اﷲ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ تولنے میں ناانصافی نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔‘‘
ایک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے: ’’قیامت میں کم تولنے والے کا چہرہ سیاہ، زبان توتلی اور آنکھیں نیلی ہوں گی۔ اس کی گردن میں آگ کا ترازو ڈال کر دو پہاڑوں کے درمیان پچاس ہزار سال تک اسے عذاب دیا جائے گا، کہا جائے گا کہ یہاں سے یہاں تک تول۔‘‘
صحیح ناپ تول کی اتنی تاکید بھی ہے، غلط ناپ تول پر مختلف طرح کے عذابوں کی وعید بھی ہے نیز ملکی سطح پر اَوزان و پیمائش کا محکمہ بھی قائم ہے مگر اس کے باوجود ناپ تول کی چور بازاری میں کمی کے بہ جائے روز بہ روز زیادتی ہی ہو رہی ہے۔
آئیے! اس کی بازاروں میں رائج کچھ صورتیں ملاحظہ کیجیے:
(1) باتوں میں لفظ میٹر کہنا یا چیز کی قیمت میٹر کے حساب سے بتانا مگر ناپتے وقت گز سے ناپنا حالاں کہ گز 36 انچ کا جب کہ میٹر 39 انچ کا ہوتا ہے۔
(2) گز کو ناپنے کے لیے 36 انچ سے اور میٹر کو ناپنے کے لیے 39 انچ سے کم لمبائی والا آلہ استعمال کرنا جیسا کہ بعض دکان داروں نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے۔
(3) اینٹ، سِلیپ، بھیم اور ٹائلز وغیرہ کی پیمائش میں دھوکا کرنا۔
(4) کم وزن والے باٹ استعمال کرنا جیسا کہ بعض دکان دار ایسے باٹ رکھتے ہیں جن کے کنارے وغیرہ جھڑے ہوئے یا اپنی مرضی سے بڑی ہوشیاری سے جھڑوائے گئے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے باٹ کا وزن چند گرام کم ہو چکا ہوتا ہے۔ بعض دکانوں اور ٹھیلوں پر ایسے باٹ دکھائی دیتے ہیں جنہیں الیکٹرک ٹیپ یا شاپر سے چھپا دیا گیا ہوتا ہے، گاہک کو نہ تو اس کے چھپائے جانے کی وجہ معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ پتا چلتا ہے کہ باٹ پورا ہے یا پھر وزن ہلکا کرنے کے لیے مشین وغیرہ کے ذریعے کٹوا کر جھڑوایا گیا ہے۔
(5) باٹ کی جگہ چیز تولنے کے لیے پتھر یا اینٹ استعمال کرنا، گاہک نہیں جانتا کہ جس وزن کے لیے یہ اینٹ یا پتھر بہ طورِ باٹ استعمال کیا جارہا ہے یہ اس وزن کے باٹ کے برابر ہے یا کم۔
(6) باٹ تو پورا ہو لیکن تولنے میں کسی بھی طرح سے ہیرا پھیری اور بے ایمانی کرنا مثلاً چیز کو زور سے یا اونچائی سے ترازو میں ڈال کر فوراً ہی اٹھا لینا۔
(7) ترازو کے پلڑوں میں فرق رکھنے اور سامان والے پلڑے کو پہلے ہی وزنی رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنا، مثلا ًسامان والے پلڑے کے نیچے مقناطیس چپکا دینا یا پھر بھاری برتن رکھ دینا اور اس ہیرا پھیری کو گاہک کی نظر سے چھپانے کے لیے باٹ والے پلڑے میں پہلے ہی سے باٹ رکھ دینا وغیرہ۔
(8) کپڑا یا اِلاسٹک ناپتے وقت لچک دار کپڑے کو کھینچ کر ناپنا، اسی طرح بجلی کا تار، یا پانی کا پائپ وغیرہ گز یا میٹر کے اسکیل کے بہ جائے اپنے کاؤنٹر یا ٹیبل پر گز یا میٹر سے کم نشان لگا کر ان کے مطابق کم ناپ کر دینا۔
(9) ایسے غلط، چور سائز، غیر معیاری و غیر قانونی پیمائشی فیتے استعمال کرنا جن کی لمبائی کم ہوتی ہے ان کے ذریعے چند میٹرز، گز یا فٹ ناپے جائیں تو بہ ظاہر کچھ انچ کی کمی ہوتی ہے مگر چوڑائی وغیرہ ملا کر مجموعی طور پر اچھی خاصی کمی ہوجاتی ہے۔
(10) دودھ، کوکنگ آئل، مٹی کا تیل، مایع کیمیکلز، بلیچ، پیٹرول وغیرہ کو ماپنے کے پیمانے میں ہیرا پھیری کرنا جیسا کہ ایسی کپّی یا پیمانہ استعمال کرنا جس کی اندر کی سطح یا تلّا باہر سے دکھائی دینے والے تلّے سے اوپر ہوتا ہے یا پھر اندرونی پھیلاؤ اس کی اصل جسامت سے کم ہوتا ہے۔
(11) وزن کے بجلی والے ترازو کی سیٹنگ یا میٹر میں تبدیلی کرکے کم تول کر دینا یا ان میں تبدیلی تو نہ کرنا مگر یہ ترازو دکان کے اندر یا پھر کاؤنٹر پر ہی ایسی جگہ رکھنا کہ تول کے وقت گاہک دیکھ ہی نہ سکے جیسا کہ بعض دکانوں پر ایسا دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ تو ناپ تول میں کمی کی بعض وہ صورتیں تھیں جن کا تعلق ترازو، پیمانے، باٹ، پیمائشی فیتے یا پھر ناپ تول کے انداز میں ہیرا پھیری کرنے سے ہے مگر ان کے علاوہ آج کل ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کی بہت زیادہ استعمال ہونے والی ایک صورت ملاوٹ بھی ہے، ملاوٹ بھی درحقیقت ناپ تول میں کمی ہی کی ایک صورت ہے جس میں گاہک کو اس کی مانگی ہوئی چیز تو کم ہی ملتی ہے مگر اسی کمی کا وزن دوسری چیز سے پورا کردیا جاتا ہے مثلاً گاہک پچیس کلو یا پچاس کلو چاول وغیرہ کی کچھ بورؤں کا آرڈر دے تو بؤپاری ہر بوری میں دو تین کلو چاول کم کرکے اس کمی کو پتھر کی کنکرؤں کے ذریعے پورا کردے۔ تَھوک کے حساب سے جہاں خرید و فروخت ہوتی ہے وہاں بڑے پیمانے پر اصل چیز میں کمی کرکے اس کمی کو ملاوٹ کے ذریعے پورا کرنے کا رواج بہت بڑھ چکا ہے اور پھر جب یہ چیزیں چھوٹی دکانوں تک پہنچتی ہیں تو ہر گاہک کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، گویا ایسے بؤپاری اگرچہ خود کو ہوشیار اور سیانا سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر یہ مکار بہت سارے بندوں کے حقوق کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے رہے ہوتے ہیں، جس کا حساب قیامت کے دن دینا ان کے لیے واقعی بہت مشکل ہوگا۔
آئیے! ملاوٹ کے ذریعے ناپ تول میں کمی کرنے کی بھی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
(1) گھی میں ناقص تیل کی ملاوٹ۔
(2) دالوں، چاولوں اور مختلف اناجوں میں پتھر کی کنکریاں یا دیگر اجزا ملا کر تولنا۔
(3) کالی مرچ میں پپیتے کے بیجوں کی ملاوٹ۔
(4) دودھ میں پانی، اراروٹ یا مختلف نقصان دہ کیمیکلز کی ملاوٹ۔
(5) پانی کو گوشت اور مختلف سبزؤں کے ساتھ تول کر پانی بھی گوشت اور سبزی کے بھاؤ بیچنا۔
(6) مرچوں میں سرخ مٹی کی ملاوٹ کرنا۔
(7) پسے ہوئے دھنیے میں لکڑی کے بُرادے کی ملاوٹ۔
(8) اینٹوں کی بناوٹ میں سیمنٹ کی مقدار کم کرکے گاہک کی نظر میں اس کمی کو چھپانے کے لیے کلر کی ملاوٹ تاکہ دیکھنے میں لگے کہ سیمنٹ زیادہ مقدار میں ہے۔
(9) زندگی بچانے والی دواؤں میں ملاوٹ کرنا۔
غرض! اب ہول سیل مارکیٹوں میں کئی چیزیں ایک نمبر دو نمبر اور تین نمبر وغیرہ کہہ کر الگ الگ کوالٹی میں بیچی جا رہی ہیں، بعض صورتوں میں دکان دار کو خریداری کے وقت چیز کی کوالٹی کا ہلکا ہونا معلوم تو ہوتا ہے مگر وہ جان بوجھ کر ہلکی کوالٹی سستے داموں صرف یہ سوچ کر خرید لیتا ہے کہ اپنی دکان پر یہ دو نمبر چیز ہی ایک نمبر چیز کی قیمت میں دوسرے گاہکوں کو بیچ دوں گا۔
یہ تمام امور انتہائی گناہ اور انسانیت کو دھوکا دینے کے حربے ہیں، یہ ناانصافی بل کہ عوام کے حق پر کھلا ڈاکا بھی ہے، ہمیں ہر حال میں ان سے بچنا چاہیے اور رزق حلال کو ہر حال میں ترجیح دینا چاہیے، دھوکا دینے سے بہ ظاہر نفع معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے رزق میں خیر و برکت ختم ہوجاتی ہے اور آخرت میں ایسے تاجروں کو سخت عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔
اﷲ پاک ہمیں دین کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دوسروں کی ناانصافؤں سے اور دوسروں کے ساتھ ناانصافیاں کرنے سے بچائے۔ آمِین
[ad_2]
Source link