27

مشترکہ ترقی کی جستجو پر مبنی شنگھائی اسپرٹ

[ad_1]

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے، ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، مل کر ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا ہے، ایس سی او ترقیاتی منصوبوں کے لیے متبادل فنڈنگ کا طریقہ کار وضع کرے۔ خطے کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں جغرافیائی سیاسی محاذ آرائی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔

درحقیقت پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع شنگھائی تعاون تنظیم کو خطے کے لیے مثالی تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز فراہم کر رہا ہے۔ دوسری جانب علاقائی رابطوں اور اقتصادی انضمام کے لیے پاکستان چین اقتصادی راہداری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی تنظیم ہے جس کا باقاعدہ قیام 2001 میں ہوا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی یہ تنظیم دنیا کی سلامتی، امن اور ترقی پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گی۔

ایس سی او چارٹر کے آرٹیکل ایک کے مطابق اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے، جس میں باہمی اعتماد، دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور پر عمل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق دیرینہ تنازعات کے پرامن حل پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے، انھوں نے اپنی ترجیحات کی وضاحت کی جن میں رابطوں کا فروغ، ٹرانسپورٹ روابط، نوجوانوں کو بااختیار بنانا، غربت کا خاتمہ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان عملی تعاون میں اضافہ شامل ہے۔

سیاسی مفادات اور ذاتی فائدے کے لیے دہشت گردی کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کچھ بہتری لانے کی امید رکھنا شاید غلط نہ ہو، لیکن اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہونا شاید فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

اس خطے میں سابق یونین سے تعلق رکھنے والی ریاستوں کی اکثریت مسلمان ریاستوں پر مشتمل ہے۔ خود روس ریاست کے ساتھ قفقاز کے علاقے مسلم اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں۔ روسی ریاست اور مسلمانوں کے تعلقات میں کلیدی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ترکیہ، پاکستان اور ایران کا کردار بھی بڑھ گیا ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اس تنظیم کے رکن بنے تھے۔ اس وقت دنیا کے تمام علاقائی اتحادوں میں بھارت کو بہت اہمیت حاصل ہوگئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے روس، چین اور بھارت بڑے ممالک ہیں۔

1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں نے آزادی کا اعلان کیا‘ تو پاکستانیوں نے اس کا بڑے جذباتی انداز میں خیرمقدم کیا تھا،کیونکہ برِصغیر میں اسلام کو پھیلانے والے صوفیا میں سے اکثر وسطی ایشیا سے ہی آئے تھے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے بھی نئے اور آزاد مسلم ممالک کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر سفارتی، تجارتی، ثقافتی تعلقات قائم کرنے کا آغاز کر دیا۔ دوطرفہ بنیادوں پر دوستانہ اور قریبی تعلقات کو وسعت اور گہرائی فراہم کرنے کے لیے پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے اعلیٰ حکام نے ایک دوسرے کے متعدد بار دورے بھی کیے۔

تجارت، سرمایہ کاری، اقتصادی تعاون اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 1992 سے اب تک پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان درجنوں معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کے لیے ادارہ جاتی فریم ورکس بھی موجود ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ نہ تو پاکستان کی وسطی ایشیا کی ریاستوں اور نہ ان ریاستوں ہی کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے شعبے میں کوئی نمایاں پیشرفت ہوئی ہے؟ دوطرفہ تجارت کا حجم بھی خاصا کم ہے۔ ازبکستان کے ساتھ ہماری دوطرفہ تجارت ہی کو لے لیجیے، ماہرین کے مطابق آیندہ پانچ چھ برسوں میں دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تجارت کا حجم ایک بلین ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کی علاقائی درآمدی اور برآمدی تجارت میں کمی ہوئی ہے، مثلاً 2011 میں پاکستان کی اپنے ہمسایہ ملکوں کو برآمدات‘ اس کی کل برآمدات کا 12.2 فیصد تھیں‘ جب کہ 2018 میں یہ حصہ گھٹ کر 7.4 فیصد رہ گیا۔ 5 اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تجارت بند ہے، مگر دونوں ملکوں میں تجارت میں کمی کا رجحان 2011 اور 2012 سے ہی شروع ہو گیا تھا اور اس کی سب سے اہم وجہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے سے پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی تھی۔وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں پاکستان کے لیے سب سے موزوں راستہ وہ ہے جو افغانستان سے گزرتا ہے، کیونکہ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں تاجکستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے ملتی ہیں۔

پاکستان ان ریاستوں تک رسائی حاصل کرکے روس تک اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کا سلسلہ بڑھا سکتا ہے۔ یہی وہ مقصد ہے، جس کے حصول کے لیے 2010 میں ’’افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ کی رعایت پر نظرثانی کرتے ہوئے نئے معاہدے میں افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کی غرض سے رسائی کی دفعہ شامل کی گئی۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے واہگہ‘ اٹاری کے راستے افغانستان کو اپنے ٹرکوں میں بھارت کو تجارتی اشیا بھیجنے کی رعایت دی تھی۔ افغانستان اب تک اس رعایت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

تجارتی اشیا سے بھرے ٹرک پاکستان سے گزر کر واہگہ‘ اٹاری تجارتی پوسٹ پر پہنچتے ہیں اور وہاں سامان اتار کر واپس آجاتے ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو پاکستانی علاقے سے گزار کے افغانستان میں تجارتی اشیا پہنچانے کی اجازت نہیں ہے، لیکن پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان نے اپنی سرزمین سے تجارت کی غرض سے پاکستان کو وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی نہیں دی کیونکہ اس کے لیے اس نے پاکستان کے راستے بھارت سے افغانستان کو تجارتی سامان بھیجنے کی رعایت کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے چین کے راستے وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تجارتی رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے لیے پاکستان شاہراہ قراقرم کے ذریعے گلگت بلتستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ، جس کی سرحدیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سے ملتی ہیں کو ایک متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔پاکستان یا جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی روابط میں اب تک نمایاں اضافہ نہ ہونے کی وجہ افغانستان کی داخلی صورتحال ہے۔ ’’ یو ایس ایڈ‘‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق معاہدوں کے باوجود پاکستان میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کی طرف سے سرمایہ کاری نہ کرنے کی بڑی وجہ ملک میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال ہے۔

پاکستان کی طرف سے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے از سرِ نو کوششوں کے پسِ پردہ یہ یقین ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے ان کوششوںکی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی پاکستان کی اس رائے سے متفق ہیں، لیکن پاکستان اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی تعلقات کے راستے میں افغانستان میں سیکیورٹی کا فقدان واحد وجہ نہیں ہے۔ افغانستان کی طرح وسطی ایشیا کے ممالک بھی افغانستان اور پاکستان کے راستے جنوبی ایشیا کے باقی ممالک خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارت کی سہولت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق دورے کے دوران ازبکستان نے پاکستان سے پاکستان کے راستے بھارت سے تجارت کی رعایت کی بھی درخواست کی، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کے معمول پر آنے کے بعد ہی ایسی درخواست پر غور ہو سکتا ہے۔

اس سے پہلے ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان گیس پہنچانے کے لیے منصوبے کی مثال موجود ہے۔ جب تک اس منصوبے میں بھارت کو شامل نہیں کیا گیا‘ اس منصوبے کی تعمیر شروع نہیں کی جا سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وسطی اور مغربی ایشیا کے ممالک بھارت کو اہم اور منافع بخش منڈی سمجھتے ہیں اور ان ممالک کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بھارت تک توسیع دینے کا ہمیشہ مطالبہ کیا جائے گا۔ پاکستان کی ہر حکومت کو یہ امر پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔

گزشتہ بیس سال شنگھائی تعاون تنظیم کی بھرپور ترقی اور رکن ممالک کے باہمی مفادات اور تعاون میں نمایاں ثمرات کے حامل ہیں۔ باہمی اعتماد،باہمی مفادات، مساوات، مشاورت، متنوع تہذیبوں کا احترام،مشترکہ ترقی کی جستجو پر مبنی شنگھائی اسپرٹ کی رہنمائی میں ایس سی او سیاسی باہمی اعتماد کو بڑھانے، سلامتی و استحکام کی حفاظت کرنے، خوشحالی و ترقی کو فروغ دینے، عالمی انصاف و مساوات کے قیام اور امن و ترقی کو مستحکم بنانے کے لیے مزید مثبت کردار ادا کرے گی اور نئے طرز کے بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل اور معاشرے کی تعمیر کے لیے اہم تصور اور تجربات بھی فراہم کرے گی۔ بے شک ایس سی او کے ڈھانچے کے تحت پاکستان نہ صرف اپنی ترقی کے نئے مواقعے حاصل کرے گا بلکہ علاقائی و عالمی استحکام، انٹرکنکشن کو فروغ دینے میں بھی اپنا منفرد کردار ادا کرے گا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں