[ad_1]
آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
اگر کوئی نیا سفر اختیار نہیں کرتے
اگر کوئی نئی چیز نہیں پڑھتے
اور اگر زندگی کی آوازیںسننا بند کر دیتے ہیں
اگر اپنے آپ پر غور کرنا ختم کر دیتے ہیں
آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
جب آپ اپنی عزت نفس کو کچل دیتے ہیں
جب آپ دوسروں کواپنی مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتے
آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
اگر اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہیں
اگر روزانہ ایک ہی رستے پر چلتے ہیں
اگر آپ تبدیلی کے عنصر کو بھول جاتے ہیں
اگر نئے رنگ پہننا چھوڑ دیتے ہیں
اگر آپ اجنبی لوگوں سے بات کرنا بھول جاتے ہیں
تو آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
اگر آپ جذبات کو ختم کر دیتے ہیں
اور اپنے اندر طوفان کو ختم کر دیتے ہیں
وہ تمام چیزیں جو آپ کی آنکھوں کو روشنی بخشتی ہیں
جن سے آپ کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے
تو آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
اگر اپنے اندر مہم جوئی کو ختم کر دیتے ہیں
اگر نئے خواب دیکھنا بند کر دیتے ہیں
اگر آپ اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتے
کہ عقل و دانش سے تھوڑی دیر کے لیے بھاگ جائیں
تو آپ آہستہ آہستہ مرنا شروع کر دیتے ہیں
اپنے آپ کو آہستہ آہستہ مرنے نہ دیجیے
اپنے آپ کو خوش رکھنا نا بھولیے
یہ لازوال نظم چلی کے شاعر Pablo neruda کی ہے جس کو ادب کا نوبائل پرائز مل چکا ہے۔اس نظم کے ایک ایک لفظ کو بار بار پڑھیے ۔ ہر حرف پر غور کیجیے اور اپنی زندگی کو اپنے ہاتھ میں لیجیے ۔
کوئی بھی انسان خوشی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ بہر حال خوشی ہے کیا اور اسے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی ہمارے ملک میں کیا ہے اور کیسے گزرتی ہے ۔ یہ وہ پہیلی ہے جسے کوئی بھی انسان اپنے آپ سے بہت کم پوچھتا ہے۔ حالانکہ یہ انسان کی زندگی کا سب سے اہم سوال ہے۔ ہمارے معاشرے کو غور سے دیکھیے۔ مجھے اس میں انسانی زندگی کی روانی ‘خوبصورتی اور زندگی کی حرارت بہت کم نظر آتی ہے۔
ابتدائی عمر پڑھنے لکھنے میں گزر جاتی ہے۔ مگر یہ چند خوش قسمت لوگ ہی ہوتے ہیں جو اپنے عمر کے اولین حصے میں علم کی روشنی کے قریب ہوتے ہیں۔ کروڑوں بچوں کی زندگی اسکول اور کسی بھی تعلیمی درس گاہ سے بہت دور رہتی ہے۔ ان کی زندگی میں بچپن آتا ہی نہیں ہے۔ کوئی چھوٹا بن کر ‘ کسی مستری کے پاس کام کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اور کوئی بچہ یا بچی کسی امیر گھر کی خادم یا خادمہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک نیا باب کھلتا ہے جس میںکسی نہ کسی سطح پر شادی ہوتی ہے۔ اور پھر قوانین قدرت کے مطابق اولاد ظہور پذیر ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ذمے داریوں کا وہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ خانگی ذمے داریاں قبر تک پیچھا کرتی ہیں ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان کو ادا کرتے کرتے مرد اور عورت ‘ قبرستان تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ زندگی کا وہ دائرہ ہے جس میں نناوے فیصد لوگ سانس لے رہے ہیں ۔ ان کے حساب سے شاید وہ زندہ ہوں مگر دراصل وہ صرف سانسیں لیتے ہوئے ‘ایک مردہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔اور صرف تدفین کا انتظار حاصل نظر ہوتا ہے۔غور کیجیے‘ تدبر فرمائیے۔ ہم ایک حد درجہ روایتی زندگی گزار کر جہان فانی سے بے نامی میں غم سمیٹتے ہوئے فوت ہوجاتے ہیں۔
اپنی زندگی پر غور کیے بغیر، زندگی مجبوری میں گزار دیتے ہیں۔ اکثریت کو تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس لیے زندہ ہیں۔ خوشی کیا ہے ‘وہ غموں کی کمی کو خوشی کا نام دیتے ہیں ۔ مگر رنگ برنگی ‘ لہلہاتی ہوئی خوشی کبھی بھی پہچان نہیں پاتے۔کئی بار تو وہ خوشی اور غم میں تفریق ہی نہیںکرپاتے ۔ اور بس اسی کو زندہ رہنے کا نام دیتے ہیں۔
پیبلو کی نظم کو پڑھیے اس کا ایک ایک لفظ آپ کو زندگی کی حقیقت بتا رہا ہے۔ اپنے آپ سے خود پوچھیے کہ آپ نے کتنے عرصے سے کوئی نئی جگہ نہیں دیکھی ‘ کوئی نیا سفر نہیں کیا۔ ضروری نہیں کہ آپ کا سفر سیکڑوں یا ہزاروں میل دور جگہ کے لیے مختص ہو۔ ذمے داری سے عرض کر سکتا ہوں کہ لاہور شہر میں رہنے والے ‘ اپنے ہی شہر کی خوبصورت ترین جگہوں سے ناواقف ہیں ۔اس شہر میں کتنے لوگ ہیں جو کسی دن ‘ لاہور کے نایاب ترین باغ ‘ لارنس گارڈن میں خاموشی سے جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور وہاں کے درختوں ‘ پھولوں ‘ پودوں اور پرندوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جواب سن کر حیران ہو جائیں گے ۔ لاہور میں رہنے والے‘ اس نایاب ترین باغ سے برس ہا برس تک اپنے آپ کو محروم رکھتے ہیں۔ بہت سے قریبی دوستوں سے پوچھا کہ کیا آپ لاہور کے قدیم علاقے میں جا کر اس کی گزشتہ شان و شوکت کا نظارہ کرتے ہیں یا کبھی کیا ہے۔ نانوے فیصد لوگوں کا جواب نفی میں ہو گا۔
آپ سے دوسرا سوال کرتا ہوں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو کوئی نئی کتاب ‘ نیا رسالہ ‘ نیا ناول ‘ نیا ادب ‘ یا نئی شاعری پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچا جواب دیجیے ۔ اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیے۔ اکثریت کسی بھی نئے مطالعہ سے اپنے آپ کو مسلسل محروم رکھتی ہے۔ ایک قریبی دوست نے بتایا کہ وہ سال ہا سال سے اخبار نہیں پڑھتا ۔ کتاب پڑھنی تو بڑی دور کی بات ہے۔ آپ لوگوں سے کتاب سے دوری کی وجہ پوچھیں تو اکثریت غم روز گار کو جواز بنا کر نئے علم سے دوری کودرست ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ مگر نہیں ۔ چوبیس گھنٹے میں اگر آپ کسی جدید علم کا ایک صفحہ بھی ذاتی مسرت کے لیے پڑھتے ہیں تو سمجھئے کہ آپ درست راستے کی طرف ہیں۔ ضمنی سوال کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں لوگوں کی نخوت اور احساس برتری شاید ہمالیہ سے بھی اوپر ہو ۔ لیکن کتنے مرد اورخواتین ہیں جو اپنی قدر خود کرنا جانتے ہیں۔
اگر آپ روز مرنا نہیں چاہتے تو اپنی عادات کو بدل کر دیکھیے۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے راستے کو تبدیل کردیجیے۔ اپنی روٹین کو یکسر طور پر نامکمل سمجھیں اور اسے ایک سو اسی ڈگری کے زاویے پر بدل دیجیے۔ اپنے منتخب کپڑوں کے رنگوں کو تبدیل کرتے رہیے ۔
آہستہ آہستہ خاموشی سے مرنا بند کردیں گے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ اپنے اندر کے جذبات کو قائم رکھیے۔ دل کی دھڑکنوں کو تیز تر کیجیے۔ جو چیزیں آپ کوحد درجے محفوظ نظر آتی ہیں ان کو روند کر آگے نکل جایئے ۔ نئے خواب دیکھیے۔ بلکہ میں یہ عرض کروں کہ خود نئے خواب بنیے اور پھر ان خوابوں کا پیچھا کیجیے ۔ زندگی میں ایک بار صرف ایک بار ہوش مندی اور دانش مندی کو بستر کے سرہانے چھوڑ کر گھر سے باہر نکلیے۔ زندگی کا ایک دن یا ایک گھنٹہ یا چند منٹ عقل و خرد سے محروم ہو کر گزارئیے ۔ آپ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئیں گے۔ خوش رہنا سیکھئے ۔ مت بھولیے کہ خوش رہنا ہی اصل زندگی ہے ۔ ورنہ آپ آہستہ آہستہ روز مرنا شروع کر دیں گے۔
[ad_2]
Source link