[ad_1]
خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ کے اہم ترین اجلاس اور اس کے کیے گئے فیصلوں بلکہ خوش خبریوں کے بارے میں تو آپ نے سن لیا ہوگا۔عمران خان کی رہائی کا مطالبہ اور دوسرے معاملات سے تو ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں۔لیکن اس خوش خبری نے منتخب نمایندوں کو نہال کردیا ہوگا کہ صوبے (خیبر پختون خوا) میں نئی بھرتیوں کی برسات لانے کا فیصلہ ہوا ہے۔وزیراعلیٰ کے ہوم لینڈ پولیس کی (565) نئی آسامیاں نکال لی گئیں۔
ٹریفک سسٹم کے لیے بھی (1179) نئی پوسٹیں منظور کی گئی ہیں ظاہر ہے کہ باقی محکموں میں نوالوں کے ’’منہ‘‘ پیدا کیے گئے ہوں گے یا بہت جلد پیدا کرلیے جائیں گے کیونکہ گدھا اگر گدھے سے کم ہوں تو اس کے کان کاٹے جاتے ہیں (سینگ تو بیچارا پہلے سے ہار چکا ہے) اور اگر منتخب نمایندہ یا وزیر یا مشیر یا معاون دوسرے سے کم ہو تو اس کی ناک کٹ جاتی ہے۔اور ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ صوبائی حکومت نے ہر قسم کی نئی تقرریوں پر سے پابندی ختم کردی ہے۔
گویا ایک مرتبہ ’’خوان لغما‘‘ بچھ جائے گا۔نوکریوں کے’’نیلام گھر‘‘ شروع ہوجائیں گے منتخب نمایندے اور وزیر مشیر۔ اپنی اپنی ’’کٹلری‘‘ سجانا شروع کردیں گے۔ اور انتخابی اخراجات کی ’’بھرپائی‘‘ شروع ہوجائے گی۔اس سے جو سب سے بڑا فائدہ ہوگا وہ یہ ہے کہ نااہل نکمے نکھٹو لوگ ان منتخب نمایندوں کی برکت سے باروزگار ہوجائیں گے سارے منتخب نمایندے،وزیر، مشیر، معاون اپنے اپنے حلقوں کے نکھٹوؤں کو سرکاری محکموں میں گھسا کر’’کام نہ کرنے‘‘ کے ’’قومی کام‘‘ پر لگا دیں گے۔کچھ احمق لوگ جنھوں نے ہماری طرح ’’حماقت‘‘۔دانا دانشوروں سے سیکھی ہے۔
اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ سرکاری ادارے اور محکمے نکمے نکھٹوؤں سے بھر چکے ہیں اور یہ سب ان ہی منتخب نمایندوں وزیروں،مشیروں اور معاونوں کی برکت سے ہوا ہے۔لیکن ایسے احمق بھول جاتے ہیں کہ یہی تو سب سے بڑا نیک کام ہے جو یہ نیک بندے نہایت زور شور سے کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ذرا انصاف بلکہ تحریک انصاف سے کام لیجیے اہل قابل اور لائق فائق لوگوں کو تو ہر جگہ ’’جاب‘‘ مل سکتی ہے۔یہاں نہیں تو ملک سے باہر،ملک سے باہر بھی نہیں تو دنیا سے باہر جنت میں۔لیکن بیچارے نکمے نکھٹوؤں اور نالائق ناقابل بیچارے کہاں جائیں گے۔
ان کا دنیا میں اور کون ہے ان منتخب نمایندوں، وزیروں، مشیروں اور معاونوں کے سوا۔ اور اگر ان’’نیک لوگوں‘‘ کی وساطت سے بیچارے نکمے نکھٹوؤں کو سرکاری محکموں اور اداروں میں ’’کام نہ کرنے‘‘ کے’’قومی کام‘‘ پر نہ لگاتے تو یہ لائق فائق قابل اور اہل لوگ تو کام کرکرکے اور کروا کروا کر ان اداروں کو آرام گاہوں کے بجائے عذاب گاہ بنا دیں اور اگر لوگ سرکاری دفاتر میں واقعی کام میں مصروف ہوتے تو کرپشن کا دوسرا قومی کام بلکہ ’’قومی نظریہ‘‘ ختم ہوجاتا۔ ملک میں خوشحالی آجاتی اور آپ تو جانتے ہیں کہ دولت کی ریل پیل اور خوشحالی سے لوگ عیاشیوں میں پڑجاتے ہیں، بے راہرو ہوجاتے ہیں، خدا کو بھول جاتے ہیں، نیک اعمال چھوڑ کر بُرے اعمال میں پڑجاتے ہیں۔ سوچیے اگر ایسا ہوتا تو کتنا بُرا ہوتا۔ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب اہل لوگ۔کام کرکے اتنے خوشحال ہوگئے تھے کہ علامہ کو کہنا پڑا کہ
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
لیکن آج ان منتخب نمایندوں، وزیروں، مشیروں، معاونوں کی برکت سے ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے اور نیکی کا یہ عالم ہے کہ نمازی مسجدوں سے باہر نکل پڑرہے ہیں۔ہر چار قدم پر مسجد ہے مدرسے ہیں اور نیک لوگوں کی بھرمار ہے۔چندے کے دھندے میں پھندے اور پلندے ہیں۔اور ساری برکتیں کام نہ کرنے اور کرپشن میں بڑھوتری کی دین ہے اور کام نہ کرنے اور کرپشن کے یہ دور دورے ان نالائق اور نااہل لوگوں کے دم قدم سے ہیں اور یہ کمال جاکر ان سرچشموں پر پہنچتا ہے جن کو منتخب نمایندے اور وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
تمہی نے غم کی دولت دی بڑا احسان فرمایا
وگر نہ ہم زمانے بھر کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جاتے
بھرتیوں پر سے پابندی اٹھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان منتخب لوگوں کے لیے جن جن کارکنوں نے زندہ باد مردہ باد سے اپنے گلے بٹھائے اور سجائے ہیں۔ ان کو اپنی کارکنی اور کارکردگی کے صلے مل جائیں گے تو آیندہ کے لیے اور زیادہ کارآمد ہوجائیں گے۔ بیچ میں اس ’’کارکن‘‘ کے لفظ نے دم ہلانا شروع کردی ہے یہ بالکل ہی سائیں کبیر کے’’رونے‘‘ کا مقام ہے۔ کہ جو کچھ بھی نہیں کرتے اور مکمل طور پر’’کام نہ کرنے‘‘ کے قومی کام میں جتے ہوئے ہوتے ہیں یعنی یہ دھرنوں جلسوں جلوسوں اور نعرے لگانے والے۔ان کا ’’کارکن‘‘ کہاں جاتا ہے۔کونسا ’’کار‘‘اور کون سا کُن؟
رنگی کو نارنگی کہیں بنے ’’دودھ کو کھویا‘‘
چلتی کانام ’’گاڑی‘‘ رکھیں دیکھ کبیرا رویا
بہرحال کارکنوں کو معاوضہ دینا تو لازم ہے۔اور اس کا سب سے آسان اور بہتر طریقہ۔ یہی ہے کہ انھیں کام نہ کرنے کے ’’قومی کام‘‘ پر لگا دیا جائے تاکہ مستند ہوجائیں اور آیندہ بھی حسب ضرورت مستعمل کیے جائیں۔ویسے وہ طریقہ بھی بُرا نہیں کارکنوں کو بذریعہ انکم سپورٹ تنخواہیں دینا۔ لیکن وہ ایک’’مچھلی‘‘ دینے کا طریقہ ہے جب کہ یہ سرکاری محکموں میں گھسانے کا طریقہ جال خرید کر دینے جیسا ہے۔یہ تو معلوم نہیں ہوپایا ہے کہ اس مرتبہ صوبے کے فاتحین ’’مال غنیمت‘‘ تقسیم کرنے کے لیے کیا فارمولہ وضع کریں گے لیکن پچھلے دو مرتبہ کے فاتحین نے وہی طریقہ اختیار کیا تھا۔
جو بھارتی فلم۔جولی ایل ایل بی پولیس تھانوں کی نیلامی کے لیے اپنایا گیا تھا۔فلم میں ایک مقام پر پولیس کے افسران جمع ہوکر بیٹھے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ’’نیلامی‘‘ ایک حوالدار کررہا ہے۔حوالدار کسی ایک تھانے کا نام لیتا ہے، بیٹھے ہوئے پولیس والے بڑھ بڑھ کر بولی دیتے ہیں حسب معمول جس کے نام آخری بولی تین ہوجاتی ہے اس کا تبادلہ اس تھانے میں کرا دیا جاتا ہے۔تو تحریک انصاف کی گزشتہ فتوحات میں مال غنیمت کی تقسیم کا فارمولہ تقریباً ایسا ہی تھا۔’’نیلامی‘‘ ایک ایسا ایم پی اے کرتا تھا جو بعد میں ’’کورونا‘‘ کا شکار ہوکر اس نیک کام کے دوران پاسڈ اوے ہوگیا، وہ ایک مقدس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔
میرے بیٹے نے بتایا کہ وہ جب ایک پوسٹ کی نیلامی کے لیے اس کے پاس گیا تو اس کے ایک بزرگ عزیز کو ساتھ لے گیا۔ اس بزرگ کا لحاظ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس پوسٹ کی قیمت پچیس لاکھ طے ہوچکی ہے اور میں اس میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ اپنے حصے کے چار لاکھ نہیں لوں گا باقی اکیس لاکھ دوسروں کے ہیں وہ بہرحال دینا پڑیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمارے بس میں نہیں تھا اس لیے وہ پوسٹ کسی اور بولی دہندہ کو مل گئی ہوگی اور اب کے تو مہنگائی بھی بڑھ چکی ہے۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
[ad_2]
Source link