[ad_1]
پاکستان میں آج کل احمقوں کا مکمل راج قائم ہوگیا ہے آپ کو وہ باآسانی بڑے سے بڑے ایوانوں، ہاؤسز اور بڑے بڑے اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان دکھائی دیے جاسکتے ہیں اور اس دید ہ دلیری کے ساتھ وہ سارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں کہ عقل و دانش رکھنے والے انہیں دیکھتے ہی سر پٹ دوڑ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہم اس لحاظ سے بھی انتہائی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں کہ تقریباً پوری دنیا سے ناپید یہ انسانی مخلوق صرف اور صرف پاکستان میں ہی باآسانی دیکھنے، سننے کو نصیب ہے لیکن ایک زمانے میں پوری دنیا اس مخلوق سے دوچار تھی پھر وہ ناپید ہوتے ہوتے اب صرف پاکستان تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
آپ چاہیں کتنی ہی کیوں نہ کوششیں کر لیں لیکن پھر بھی آپ احمقوں سے نہیں بچ سکتے، آپ کی تمام کوششیں اس لیے بے سود ہوجاتی ہیں کہ آپ تو ہر ممکن ان سے بچنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ خود آپ سے آکر ٹکرا جاتے ہیں، اس لیے اگر ان سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں تو آج ہی سے اپنی کوششیں ترک کردیں کیونکہ آپ کو زندگی بھر احمقوں سے واسطہ پڑتا رہے گا، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ ان سے بچ نہیں سکتے۔
ایک مشہور فلسفی برسوں سے اپنے طالب علموں کو سیاست اور اخلاقیات کی تعلیم دے رہا ہے۔ اس کے شاگرد اسے ناپسند کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسلسل ان کی عقل کو حقیر سمجھتا ہے اور اس کے بارے میں شیخی بگھارتا ہے۔ ایک دن، ایک نوجوان لڑکی کلاس میں اس سے ایک سادہ سا سوال پوچھنے کے لیے ہمت پیدا کرتی ہے۔ ’’ کوئی عقل کیسے حاصل کرتا ہے؟‘‘ یہ فلسفی کو آف گارڈ پکڑتا ہے۔
وہ نہیں جانتا کہ کیا کہنا ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے سوال کا جواب نہیں جانتا، کیونکہ وہ اخلاقیات اور سیاسی فلسفے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، علمیات پر نہیں۔ لڑکی حیران ہو کر کہتی ہے کہ تم کتنے ہوشیار ہو اور ہم کتنے گونگے ہیں، لیکن تم اس سادہ سے سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ عقل کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی۔ اگلے دن، فلسفی نے لڑکی سے کہا، ’’ میں کل تمہارے سوال کا جواب نہ دینے کی واحد وجہ یہ تھی کہ میرے پاس اس کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں تھا، ورنہ جواب آسان ہے، تم خود شناسی سے عقل حاصل کرتے ہو۔
درحقیقت، حکمت حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔‘‘ لڑکی مسکراتی ہے، ’’ کیا آپ کو یقین ہے؟ اگر ہم خود سوچ کر ہی عقل حاصل کر سکتے ہیں تو ہم آپ سے کلاس کیوں لے رہے ہیں؟‘‘ فلسفی بے آواز ہے اور کلاس دوبارہ اس پر ہنسنے لگی۔ ایک عاجز فلسفی اگلے دن کلاس میں آتا ہے اور لڑکی سے مخاطب ہوتا ہے، ’’ میں معافی چاہتا ہوں کہ اتنے سالوں سے مغرور رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف کرسکتے ہیں۔ آپ نے مجھے ایک اہم سبق سکھایا ہے، آپ دوسروں سے حکمت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ لڑکی خوش ہے لیکن خوش ہونے کا فیصلہ کرتی ہے، ’’ تم احمق ہو۔ میں آپ سے کہیں زیادہ جانتا ہوں اور اس کلاس کو پڑھانا چاہیے، کیونکہ آپ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں سکھا سکتے۔‘‘ فلسفی نے اپنا افتتاح دیکھا، ’’ واقعی؟ میں حکمت حاصل کرنے کا تیسرا طریقہ سکھانے والا تھا جس کا ہم میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔
لیکن میرا اندازہ ہے کہ آپ ہمیں بتا سکتے ہیں۔‘‘ لڑکی اپنی گھمنڈ پر افسوس کرتی ہے، ’’میں نہیں کر سکتی‘‘ اس کے ہم جماعتوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ شرمناک حد تک توقف کے بعد اس نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ ’’آپ تجربے سے حکمت حاصل کرسکتے ہیں۔ گھمنڈ کے لیے اس طبقے کے سامنے شرمندہ ہونے کے تجربے نے مجھے عاجزی سکھائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ آپ کو بھی یہی سکھائے گا۔‘‘ کنفیوشس نے کہا ہے کہ ’’ تین طریقوں سے ہم حکمت سیکھ سکتے ہیں: پہلا، غور و فکر سے، جو سب سے عظیم ہے۔ دوسرا، تقلید سے، جو سب سے آسان ہے اور تیسرے تجربے کے لحاظ سے، جو سب سے تلخ ہے۔‘‘
دنیا میں کبھی احمقوں کی کمی نہیں رہی ۔ علامہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ تعالی نے احمقوں کے واقعات جمع کرکے ایک کتاب ’’ احمقوں کی دنیا‘‘ لکھی۔ انہوں نے یہ کتاب لکھنے کی تین وجوہات ذکر فرمائی ہیں :۔
1۔ ایک تو یہ ہے کہ ایک عقلمند انسان بیوقوفوں کی حکایت سن کر عقل کی عظیم نعمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے گا۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ احمقوں کے عجائبات پڑھنے سے عقل بیدار ہوجائے گی اور ان حماقتوں سے وہ شخص خود کو بچا لے گا۔
3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تھکاوٹ دور کرنے کے لئے بے بنیاد افسانوں اور کہانیوں کی جگہ، سچے اور عبرت آموز واقعات پڑھنے سے انسان کے دل و دماغ کو شعور و انبساط حاصل ہوگا اور ساتھ ہی عبرت و نصیحت بھی حاصل ہوگی۔
مولانا رومی نے بھی نصحیت کی غرض سے احمقوں کے حوالے سے حکایات لکھی ہیں ۔ایک حکایت ہے کہ’’ ایک چالباز بغداد سے حمص کی طرف گیا۔بیوی اس کے ہمراہ تھی۔ اس نے بیوی سے کہا: یہ احمقوں کا شہر ہے، میں ایک چال چلنا چاہتا ہوں تم میری مدد کرنا۔ اس نے کہا: بالکل ٹھیک ہے۔ اس نے کہاتم اپنی جگہ ٹھہری رہو اور میرے قریب مت آنا، ہر روز ایک پاؤ کشمش اور ایک پاؤ بادام لے کر معجون بنا لینا اور دوپہر کے وقت فلاں وضو خانہ کے پاس ایک صاف پتھر پر رکھ دینا۔
مزید کچھ نہ کرنا اور نہ ہی میرے پاس سے گزرنا۔ عورت نے ایسا ہی کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ شخص باہر نکلا۔ اس کے پاس ایک سوتی جبہ تھا جسے اس نے پہن لیا۔ ایک شلوار اور تہبند اپنے سر پر رکھ لیا اور ایک ستون کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے لوگ عموماً گزرتے تھے۔ دن بھر نماز پڑھتا رہا حتیٰ کہ رات بھی نوافل میں گزر گئی۔ سوائے مکروہ اوقات کے وہ مسلسل نماز پڑھتا رہتا یا بیٹھ کر ذکر میںمشغول رہتا، کسی شخص کے ساتھ بات نہ کرتا۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ اس کا پتہ چلا اور نگاہیں اس پر مرکوز ہو گئیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کھائے پئے بغیر عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ اہل شہر حیران ہوگئے۔ صرف دوپہر کے وقت قضائے حاجت وغیرہ کے لیے مسجد سے باہر نکلتا۔جب اس کا گزر وضو خانہ کے قریب پتھر پر بیوی کی رکھی ہوئی معجون اٹھاتا اور کھا لیتا۔ رات کے وقت چپکے سے پانی پی لیتا۔ اہل حمص یہ گمان کرتے کہ وہ کوئی چیز کھاتا پیتا نہیں۔
لوگوں کے نزدیک اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا۔ لوگ بات چیت کرنا چاہتے، لیکن وہ خاموش رہتا۔ جس کی وجہ سے لوگ دیوانہ وار اس پر ٹوٹ پڑے،بچوں اور مریضوں کو اس کے پاس لاتے، وہ ان پر اپنا ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دیکھا کہ وہ لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہو گیا ہے۔ اسی حالت میں ایک سال گزر گیا۔ ایک دن وہ چپکے سے اپنی بیوی سے ملا اور کہا جمعہ کے دن جب لوگ نماز پڑھنے کے لیے آئیں تو میرے پاس آنا ، میرے منہ پر تھپڑ رسید کرنا اور یہ کہنا: اے فاسق و فاجر تو نے بغداد میں میرے بیٹے کو قتل کر دیا اور بھاگ کر یہاں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے عبادت میں مشغول ہے۔
یہ ظاہر کرنا کہ تو بیٹے کے بدلہ میں مجھے قتل کرنا چاہتی ہے۔میں اعتراف کرلوں گا کہ میںنے اسے قتل کیا ہے لیکن اب توبہ کر لی ہے اور یہاں عبادت و ریاضت اور اپنے کئے کی تلافی کرنے کے لیے آیاہوں۔ میرے اقرار کے بعد قصاص لینے کے لیے بادشاہ کے پاس مجھے لے جانا کا مطالبہ کرنا۔ لوگ دیت پیش کریںگے لیکن قبول نہ کرنا یہاں تک کہ لوگ تجھے دس دیتیں دینے پر راضی ہو جائیں۔ مال سمیٹ کر اسی دن بغداد چلے جانا۔ میں بھی عنقریب بھاگ کر تجھے آ ملوں گا۔ اگلے دن انہوں نے طے شدہ منصوبے کے مطابق ناٹک رچایا۔ اور تمام مال اسباب سمیٹ کر وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔
[ad_2]
Source link