[ad_1]
آپؓ کا اسم گرامی عمر، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوں کہ نبی کریمؐ سیّدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیّدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے پر نبی کریمؐ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپؓ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینۂ مبارک پر دست نبوتؐ پھیر کر دعا دی: ’’یااﷲ! ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔‘‘ حضرت جبرئیلؑ بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا: میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپؓ کے مقابل آتا۔
ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظمؓ تمام غزوات میں رسول اﷲ ﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے با وجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بہ طور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کرکے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا، جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہوگئی۔ غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ، مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرمؐ کی وجہ سے سرِ تسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورۃ سنائی۔ کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انہی کے لیے ہے۔
غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیر المؤمنین عمرؓ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمرؓ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی کریمؐ نے اجازت کے ساتھ فرمایا: ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا۔‘‘ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے: نبی ﷺ کے اس مبارک جملے کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کفر و نفاق کے مقابلے میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبی ﷺ کے فیصلے کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کرانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: جو میرے نبی ﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔
کئی مواقع پر حضور نبی کریم ﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواج مطہراتؓ کے پردے، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلے سے پہلے اجازت، تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمرؓ کی رائے، مشورے اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 27 آیات قرآنی ایسی ہیں جو بہ راہ راست فاروق اعظمؓ کی تائید میں نازل ہوئیں۔
جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا: میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔ امیر المؤمنین کا خطاب سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا، کیوں کہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کو ’’خلیفۃ الرسولؐ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آپ ؓاپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔
آپؓ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپؓ کے زمانے میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ، آپؓ حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔ چناں چہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروقؓ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپؓ کے حوالے کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؓ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔
سیدنا عمرو بن عاصؓ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو بہ ذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رُو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروقؓ نے جواباً ایک خط تحریر فرما کر روانہ کیا کہ یہ خط دریا کی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بل کہ پہلے سے چھے گنا زیادہ پانی ہوگیا۔ آپؓ کے خط کا مضمون یہ تھا: اے دریا! اگر تُو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تُو اﷲ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔
کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابی ابن کعب، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا سعد اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔
نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ انتہائی معاملہ فہم، دانش مند، زیرک، ذہین اور دور اندیش خلیفہ تھے۔ آپؓ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ امیر المؤمین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو بیدار رہ کر گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات و واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔ امیر المؤمنین عمرؓ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکم رانی و خلافت کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو کہ اپنے خیمہ کے باہر بیٹھا ہو ا تھا۔ آپؓ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفت گو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمہ کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِزہ ہے۔ یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظمؓ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمہ میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمہ سے نے پکار کر کہا کہ امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوش خبری دیں۔ اس اعرابی نے جو ’’امیرالمؤمنین‘‘ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے باادب ہوگیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔
اسی طرح رات کو ایک گھر کے پاس سے گزرے تو اندر سے چند بچوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو وہاں موجود خاتون سے استفسار پر معلوم ہوا کہ بچے بھوکے ہیں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، جب کہ خاتون نے خالی دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھی ہے کہ بچے اسی طرح کھانا پکنے کا انتظار کرتے کرتے سوجائیں۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر ؓ یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوکر رونے لگے اور الٹے پیروں بیت المال میں آکر وہاں سے کچھ آٹا، چربی، چھوہارے، کپڑے اور کچھ نقدی لی اور اپنے غلام اسلم سے فرمایا کہ یہ سب میری پیٹھ پر لاد دے۔ اسلم کہنے لگے کہ امیرالمؤمنین میں لے چلوں گا مگر نہ مانے کہ روز قیامت تو پوچھ مجھ سے ہی ہونی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سب سامان اپنی پیٹھ پر لادا اور اس خاتون کے گھر جا پہنچے اور خود ہی دیگچی میں اشیاء خورد ڈال کر پکایا کہ آگ کا دھواں آپؓ کی ریش مبارک میں بھر گیا۔ کھانا تیار کر کے بچوں کو اپنے سامنے کھلا کر کچھ دیر مزید وہیں رکے رہے کہ بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا تو اب بھرے پیٹ کے ساتھ کھیلتے بھی دیکھ لیں۔
آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27 ذی الحجہ بہ روز بدھ مجوسی غلام ابُولؤلؤ فیروز نے نماز فجر ادائی کے دوران سیدنا عمرؓ کو خنجر مار کر شدید زخمی کردیا۔ اور یکم محرم الحرام کو اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعا، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63 برس کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ روضہ نبوی میں مدفون ہوئے۔
اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
[ad_2]
Source link