[ad_1]
یکم محرم الحرام امیرالمومنین سیّدنا عمر الفاروق رضی اﷲ عنہ کا یوم شہادت ہے، سیدنا عمرؓ کا نام نامی اسم گرامی عمر اور کنیت ابوحفص جب کہ لقب فاروق ہے، آپؓ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام ختمہ تھا۔
حضرت عمر الفاروقؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جاکر مل جاتا ہے۔ سیدنا عمرؓ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے ہی ممتاز حیثیت کا حامل تھا۔ آپؓ کے جد اعلیٰ عدی عرب قوم کے مابین ہونے والے تنازعات میں ثالث کی حیثیت سے فیصلے کیا کرتے تھے اور قریش کے ملکی سطح کے معاملات میں سفارت کاری کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ باہمی تنازعات میں ثالثی اور قومی سفارت کاری کے دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسل در نسل چلے آرہے تھے۔
جب آپؓ جوان ہوئے تو عرب کے شرفاء کے جو مشاغل رائج تھے ان میں مشغول ہوگئے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی۔ اسی شباب کی عمر میں آپؓ نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھا۔ تعلیم و تعلم سے فراغت کے بعد تجارت کی غرض سے آپؓ نے اسفار شروع کیے جس میں آپؓ کو مالی منفعت کے ساتھ بہت سے تجربات بھی حاصل ہوئے۔
آپ رضی اﷲ عنہ کی خودداری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے قریش نے آپؓ کو سفیر کے منصب پر فائز کیا، قبائل کے مابین جب کوئی پیچیدہ صورت حال پیدا ہو جاتی تو آپؓ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم و فراصت و تدبر سے معاملات کو حل فرما دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی عمر ابھی ستائیس برس تھی کہ عرب کی سرزمین پر مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ صدا نہایت نا پسندیدہ تھی جس کی وجہ سے سخت برہم ہوئے، یہاں تک کہ جس کے بارے میں پتا چلتا کہ مسلمان ہوگیا ہے اس کے دشمن بن جاتے اور جس پر قابو چلتا اسے زدوکوب کرتے۔ ان کے خاندان کی ایک کنیز جس کا نام بسینہ تھا مسلمان ہوگئی تھی اس کو اتنا مارتے کہ تھک جاتے لیکن ظلم و تشدد برداشت کرکے بھی کوئی ایک بھی اسلام سے نہ پھرا، یہ اسلام کی حقانیت تھی۔
قریش کے سرکردہ شخصیات میں ابوجہل اور حضرت عمرؓ اسلام کی دشمنی میں صف اول کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے اسلام لانے کی دعا فرمائی کہ اے اﷲ! اسلام کو ابوجہل یا عمر بن خطاب سے معزز کر۔ مگر یہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمرؓ کی قسمت میں لکھ دی تھی ابوجہل کے حصہ میں کیسے آتی۔ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اسلام کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا دامن ایمان کی دولت سے بھر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعائوں کا اثر کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں سات سال اور دور مدینہ منورہ میں دس سال آپ ہر وقت آنحضرتؐ کے قریب رہے۔
آنحضرتؐ نے فرمایا، مفہوم:
’’جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا۔‘‘
حضور اکرم ﷺ، ابوبکر صدیقؓ و عمرؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جا رہے تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ہم تینوں قیامت میں اسی طرح اٹھیں گے۔
خلافت فاروق اعظم پر ایک نظر:
حضرت عمرؓ نے دس سال چھے ماہ دس دن تک 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی خلافت قائم کی۔ آپؓ کے دور میں 3600 علاقے فتح ہوئے۔ آپؓ کے دور میں 900 جامع مساجد اور 4000 ہزار عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ آپؓ کے دور میں قیصر و کسریٰ دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہُوا۔ فتوحات عراق، اریان، روم، ترکستان، اور دیگر بلادِ عجم پر اسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیدنا فاروق اعظمؓ کا بے مثال کارنامہ ہے۔ آپؓ کے عہد میں عدالت کے ایسے بے مثال فیصلے چشم فلک نے دیکھے جن کا چرچا چار دانگ عالم پھیل گیا۔ آنحضرتؐ کے آفاقی دین کی ترویج و ترقی اور دنیا بھر میں اسلام کی شان و شوکت کا سکہ بٹھانے کا سہرا حضرت فارق اعظمؓ کے سر جاتا ہے۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ کے ارشادات، مفہوم:
’’بلاشبہ! اﷲ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری و ساری کر دیا۔‘‘
’’میں دیکھ رہا ہوں کہ جناتی و انسانی شیاطین عمر سے بھاگتے ہیں۔‘‘
’’میں نے جنّت میں سونے کا ایک محل دیکھا، میں نے پوچھا کس کا محل ہے تو جواب دیا گیا کہ عمر بن خطاب کا۔‘‘
’’اے عمر! جس راستے پر تم چل رہے ہوگے اس پر شیطان چلتا ہُوا کبھی نہیں ملے گا۔‘‘
اس کے علاوہ بہت سی روایات سیدنا عمرؓ کے بارے میں ہیں۔
حضرت عمر کا عشق رسولؐ :
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کی نبی کریمؐ سے اتنی محبت بڑھی کہ حضورؐ کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد جب حضرت عمرؓ کو رسول پاک ﷺ کا زمانہ یاد آ جاتا تو آپؓ رونے لگتے اور روتے روتے بے ہوش ہوجاتے۔
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ آپؓ کے کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپؓ کی درخشندہ تاریخ سے 1400سال جگ مگ نظر آرہے ہیں۔ عدل و انصاف کے باب میں حضرت عمرؓ کا کوئی ثانی نہیں ان کے عالی اطوار، شان دار کردار اور قابلِ رشک زندگی سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
حضرت عمرؓ کی تائید میں27 قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کی شان میں 40 سے زاید احادیث رسولؐ موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ نے 63 سال کی عمر پائی۔ اسلامی مساوات کا سورج عہد فاروق میں 22 لاکھ مربع میل تک سکون و طمانیت کی روشنی بانٹتا رہا۔ حضرت سیدنا عمرؓ کا عدالتی نظام انتہائی آسان تھا اور سہل انصاف آپؓ کی خصوصیات میں ہے، جہاں کسی قسم کی رشوت، سفارش، جھوٹی گواہی، جانب داری اور بے ایمانی کا تصور ہی نہ تھا، اور خود خلیفہ وقت بھی عدالت کے رُو بہ رُو پیش ہوکر جواب دینے کا پابند تھا۔
[ad_2]
Source link