[ad_1]
ویب ڈیسک: ممکن ہے کہ یہ عنوان جدید دورمیں خصوصاً نوجوان قارئین کو عجیب لگے کہ بھئی سب کو پتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم میں اکثریت اس بنیادی نکتے سے آگاہ نہیں کہ دنیا بھر میں لسانی مسائل ایک زبان سے دوسری زبان تک مختلف ہوسکتے ہیں، مگر یہ مسئلہ اب تقریباً ہربڑی زبان کو درپیش ہے کہ اصل رسم الخط اور بولی ٹھولی کو، کسی بھی وقتی یا عارضی دِقّت کے سبب،پس پُشت ڈال کر انگریزی سے مِلا کر(یعنی Mixکرکے) بولا اور لکھا جارہا ہے،جسے عموماً Minglishکہاجاتا ہے یعنی انگریزی کا وہ رُوپ [Version]جو کسی مقامی زبان سے مل کر بنا ہو اور معیاری انگریزی سے مختلف ہو(English mixed with a local language)۔بعض ممالک یا علاقوں میں اسے اپنے مقامی اثرات کے سبب، کچھ اور نام بھی دیا جاتا ہے جیسے ہانگ کانگ، مَکاؤ،گوانگ دونگ اور گُوانگ چی[Hong Kong, Macau, Guangdong and Guangxi]کے چینی علاقو ں میں روایتی کینٹونیز کے زیرِ ا ثر[Cantonese-influenced Englis]،یا اُس سے مخلوط،کھچڑی انگریزی کو Chinglishکہتے ہیں۔تھائی لینڈ کے عوام انگریزی پر اپنی زبان کی یو ں چھاپ لگاتے ہیں کہ اُن کی انگریزی کو Tinglishکہاجاتا ہے۔مالٹا میں مقامی زبان مالٹیز کے اختلاط سے انگریزی کی وہ شکل بنی کہ اسے مِنگلش کے علاوہ کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے: Maltenglish, also known as Manglish, Minglish, Maltese English, Pepè or Maltingliz۔اس سے قطع نظر، امریکی انگلش کے ایک مقامی لہجے Appalachian English کواَمیرکِش [Amerikish]کہاجاتا ہے، مگر اس میں ویسی تبدیلیاں نہیں جیسی ہم پاکستانی یا ہندوستانی کرتے ہیں۔ہندوستانی خواندہ افراد ویسے بھی فرنگی کی زبان میں من پسند تبدیلیاں کرتے ہیں اور بہت کچھ کرچکے ہیں۔اُن کی زبان British-Indian-English یا مختصراً Binglishکہلاتی ہے۔پاکستانی انگریزی میں بھی تحقیق کا بہت سا مواد موجودہے، مگر اَبھی اُسے کوئی نام نہیں دیا گیا۔
جب ایک زمانے میں ہندوستانی ٹی وی چینل ’زی ٹی وی‘ کی نشریات کا آغاز ہوا اور مقامی زبان یعنی اردو۔یا۔ہندی/ہندوستانی میں زبردستی انگریزی الفاظ اور فقرے ٹھونس کر بولے جانے لگے تو اُسے ذرایع ابلاغ نے Zinglishاور Hinglishکا نام دیا۔ان عنوانات کے تحت مختصر مضمون اور مراسلے بھی خلیجی ممالک کے انگریزی اخبارات کی زینت بنے۔اب کچھ سال سے مراٹھی +انگریزی کو کھچڑی زبان کے طور پر Minglishکہاجانے لگا ہے۔
اب ایمانداری سے جائزہ لیں تو ہماری زبان بھی اردو سے زیادہ ایسی انگریزی زدہ، مخلوط زبان ہوچکی ہے جسے ماضی میں Urdishاور Minglishکہاجاتا تھا، پھر خاکسار نے اسے Burgerishکا نام دیا اور بعض حضرات اسے Paklish/Pinglishکہنا پسند کرتے ہیں۔
اس ساری تفصیل سے قطع نظر جب کہیں کسی جگہ، کسی ملک میں ایک سے زائد قومیں مل جُل کر رہتی ہیں اور اُن کے بیچ زبان کا معاملہ شعوری یا غیرشعوری اختلاط کے طفیل دیگر سے مختلف ہوجاتا ہے، ایک نئی بولی جنم لیتی ہے تو اُسے ’خیول‘ یا کریول کہتے ہیں۔زباں فہمی کے کسی مضمون میں خِیول۔یا۔کریول [Creole] کا ذکر مختصراً کرچکاہوں، ماریشس کے باب میں قدرے تفصیل بھی لکھی تھی۔اس کی تعریف یہاں مزید تفصیل سے دُہراتاہوں تاکہ مفہوم واضح ہوسکے:
A creole is a language that comes from a simplified version of another language, or the mix of two or more languages. In Haiti, people speak a creole that’s mostly based on French. When a new language is a variation on one or more older languages, you can call it a creole.
مفہوم یہ ہے کہ ” خِیول“ یا کریول کسی دوسری زبان کا ایک سادہ سا بہروپ یا دو (یا زائد) زبانوں کے ملاپ سے معرض ِ وجودمیں آنے والی بولی ہے۔ہَئیتی کے لوگ فرینچ زدہ خِیول بولتے ہیں۔مزید وضاحت میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ کسی ایک یا زیادہ قدیم زبانوں کے تغیر سے یہ بولی بنتی ہے۔یہ اصطلاح پہلے پہل فرینچ سیاح مِیشیل ژاژولے [Michel Jajolet, sieur de la Courbe]نے1685 ء میں استعمال کی تھی، جب وہ اپنے سفرنامے میں سینی گال (افریقہ) میں پُرتَگِیز کے زیر ِ اَثر بولی جانے والی زبان کی نشان دہی کررہا تھا۔یہ اصطلاح اٹھارویں صدی تک کسی دوسری زبان کے لیے استعمال نہیں ہوئی،نیز 1825ء کے بعد تک اس کا وسیع استعمال انگریزی زبان میں بھی نہیں تھا، جبکہ اس کی جگہ ’پاتوئی‘ [patois]مستعمل تھی۔مزید معلوم ہوا کہ اصل اصطلاح درحقیقت امریکاز میں موجود اسپین اور پرتگال کی نوآبادیات میں وضع کی گئی اور سولہویں صدی تک اس کا اطلاق اصل ہِسپانوی، پُرتگِیز اور اَفریقی نژاد لوگوں سے اِنہی کی مخلوط نسل کو الگ کرنے کے لیے ہوتا تھا۔
اس بنیاد کے بعد وہی ذکر آتا ہے(محولہ بالا) کہ سترہویں صدی کے آغاز میں پہلے فرینچ،پھر اِنگریزی میں یہ اصطلاح امریکی اور بحر ِ ہند کی نوآبادیات میں پیداہونے والے افریقی یا یورپی نژاد لوگوں کے لیے استعمال ہوئی۔یہی اصطلاح وسیع تناظُر میں انہی خطوں میں پائے جانے والے پودوں، جانوروں اور رسم ورواج کے لیے بھی استعمال ہونے لگی تھی۔(بحوالہ انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا)۔ملائیشیا میں قومی زبان مالے یا ملائی اور انگریزی کے ملاپ سے بننے والی خیول کو Manglishکہاجاتا ہے۔
اوپرکی یہ تمام گفتگو بظاہر ہمارے عنوان سے تعلق نہیں رکھتی، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب کوئی زبان یا کچھ زبانیں اس طرح کسی علاقے، شہر یا ملک کے باشندوں کی مقامی بولی ٹھولی پر اَ ثر اَنداز ہوتی ہیں کہ وہ ایک نئی بولی بولنے لگتے ہیں جو کہیں کہیں ترقی کرکے باقاعدہ (رسم الخط،قواعدِ صَرف ونحوکے ساتھ) زبان بن جاتی ہے تو اُسے کچھ اور نام دینا پڑتاہے۔
کچھ عرصے قبل بزم زباں فہمی کے فاضل، بزرگ رُکن ڈاکٹر محمد اَکرم چودھری صاحب نے عربی کی ایسی ہی مخلوط بولی کی نشان دہی کرکے ہمیں حیران پریشا ن کردیا تھا۔خاکسار نے اُن سے گزارش کی تھی کہ براہ کرم اس موضوع پر کوئی مبسوط نگارش عنایت فرمائیں۔اس سے قبل مجھے فارسی اور فرینچ میں ایسی ہلکی پھلکی مثالیں دیکھنے کو ملیں، بنگلہ، پشتو، سندھی، بلوچی،پنجابی اور بروشسکی میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو کے اختلاط سے کوئی مِلواں یا کھچڑی بولی بولی جارہی ہے۔ان سبھی زبانوں نے حسبِ ضرورت یا جدید کچھ عرصے قبل بزم زباں فہمی کے فاضل، بزرگ رُکن ڈاکٹر محمد اَکرم چودھری صاحب نے عربی کی ایسی ہی مخلوط بولی کی نشان دہی کرکے ہمیں حیران پریشا ن کردیا تھا۔
خاکسار نے اُن سے گزارش کی تھی کہ براہ کرم اس موضوع پر کوئی مبسوط نگارش عنایت فرمائیں۔اس سے قبل مجھے فارسی اور فرینچ میں ایسی ہلکی پھلکی مثالیں دیکھنے کو ملیں، بنگلہ، پشتو، سندھی، بلوچی،پنجابی اور بروشسکی میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو کے اختلاط سے کوئی مِلواں یا کھچڑی بولی بولی جارہی ہے۔ان سبھی زبانوں نے حسبِ ضرورت یا جدید بننے کی خواہش میں انگریزی کے الفاظ اور فقرے بے حساب اپنالیے ہیں۔(فارسی کی متعدد قدیم وجدید شاخوں سے کماحقہ‘ واقفیت نہ ہونے کے باوجود، بندہ یہی سمجھتا ہے کہ مخلوط بولی بولنا، شہری ایرانیوں کی اپنی رَوِ ش ہے)۔بروشسکی میں ایسے الفاظ کی ایک فہرست راقم نے اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider]میں شایع کی تھی۔
یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ مخلوط بولی اور سب سے زیادہ رومن رسم الخط کا استعمال ہمارے یہاں اردو کے ضمن میں ہورہا ہے۔
بربِنائے ضرورت کوئی مخلوط بولی بولنے کا شعوری اقدام یقینا مستحسن نہ ہوتے ہوئے بھی قبو ل کرلیا جاتاہے، مگر اِسے معیاری زبان یا جُداگانہ زبان کا درجہ ہرگز نہیں دیا جاتا۔ہمارے خطے میں دینی، علمی، ادبی ولسانی زوال کا یہ عالَم ہے کہ ہم نے پہلے اِنگریز کے زیرِ اثر، اردو کو م ٹانے کی کوشش یا مہم کا شعوری، غیرشعوری طور پر حصہ بننا گوارا کیا، پھر اپنی ہی مادری زبان، رابطے کی سب سے بڑی اور آسان زبان کو اِس طرح نقصان پہنچایا جیسے دودھ دوہنے کے بعد گائے یا بھینس بیکار ہوگئی اور اُسے طرح طرح سے اذیت پہنچاکر ٹھکانے لگانا مقصود ہو۔آج پاکستان،ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مقیم اردو گو اور اُردو داں طبقہ بجائے زبان سیکھنے سکھانے کے، رومن رسم الخط اپناکر یہ سمجھ رہا ہے کہ بس یہی شارٹ کٹ ہے، اسی طرح لکھو اور یہ سمجھ لو کہ دنیا بھر میں ہماری زبان سمجھ لی گئی ہے۔نوبت بہ ایں جا رَسےِد (نوبت یہاں تک پہنچ گئی) کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ رومن کیا ہے۔انھیں باقاعدہ بتانا پڑتا ہے کہ جناب رومن رسم الخط ہی نہیں، ایک زبان بھی ہے یا تھی جسے لاطینی [Latin]بھی کہتے ہیں اور جو عہدِ جدید میں مُردہ زبانوں [Dead languages]میں شمار ہوتی ہے۔اس کی زندہ اور جاری شکل ہے اِطالوی [Italian]جو علمی وادبی اعتبار سے بہت ہلکی یا خالی خالی ہے۔رومن رسم الخط میں انگریزی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں لکھی جاتی ہیں، مشرقی زبانو ں میں تُرکی بھی اسے اپنائے ہوئے ہے۔
ایک مرتبہ پھر اپنی قوم کو یہ بتاناچاہتا ہوں کہ اردو اپنے رسم الخط کی بجائے رومن میں لکھنا، ہماری نہیں، غیرملکیوں کی (وہ بھی عارضی یا وقتی) ضرورت یا مجبوری ہوسکتی ہے۔ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ غیرمُنقَسِم ہندوستان میں دَرآنے والے پُرتگےِز، ولندیزی (ڈچ)، المانوی (جرمن)، فرینچ اوراِنگریز عربی، فارسی وترکی کے ساتھ ساتھ یا ان کے بعد اردو سیکھنے میں کوئی دِقّت محسوس نہیں کرتے تھے، البتہ ہر قوم اور ہرطبقے میں غبی [Dull]،کُندذہن اور کمزور طالب علم بھی ہوتے ہیں جو کوئی زبان کُجا، کوئی بھی بات سیکھنے میں دیگرکی نسبت، زیادہ وقت لگاتے ہیں یا سِرے سے سیکھتے ہی نہیں۔ایسے ہی کچھ لوگوں نے اُردو یا ہندوستانی زبان سیکھنے(اوراِنہی جیسوں کو سکھانے) کے لیے رومن رسم الخط کا سہارالیاہوگا۔ہمیں پرانی کتب میں انگریز وں ہی کی مثالیں ملتی ہیں، مگر وہ اِن تمام اقوام کے آخرمیں آئے تھے،جبکہ جرمن کوئی بڑی تعدادمیں نہیں آئے، محض امتثال ِ امر کے لیے نام لیا۔سوال یہ ہے کہ قومی زبان بولنے اور جاننے والے افراد کی بہت بڑی تعداد جب اُردو کو مادری یا قریب قریب مادری زبان کے طور پر جانتی ہے، اس کا استعمال رابطے کے لیے کرتی ہے تولکھائی سیکھنے میں کونسی قباحت ہے؟اور سیدھی سادی زبان بولنے یا بولنا سیکھنے میں کونسے ہاتھی گھوڑے جوتنے پڑتے ہیں؟
کل تک چند مخصوص ’نودَولتیہ‘ عُرف ’برگر‘ یا نام نہاد ’اشرافیہ“ [Elite class]کا مسئلہ تھا کہ اگر اُردو سیکھ لی اور صحیح بول لی تو غضب ہوجائے گا، نوکروں اور ’اُردومیڈیم بدتمیز‘ لوگوں یا سبزی پھل والوں سے بولنے کے لیے اُلٹی سیدھی بولی بولنا کافی ہے……مگر افسو س،صد اَفسوس!
اور پرانے لوگوں کی طرح کہوں تو ’ہیہات، ہیہات‘ ! ’حَیف، صدحَیف‘…آج ہم جیسے ’غریب عوام‘کے گھروں اور اردگرد کے مکانوں میں بھی ایسے ہی ’نمونے‘ بڑی تعدادمیں پیداہوچکے ہیں جو آسان سے آسان بات کا مطلب ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھتے ہیں اور گنتی بھی، بھلے ہی سو تک نہ آتی ہو، نواسی کا مطلب ایٹی نائن سمجھ کر ہی کام چلاتے ہیں،لکھنا تو اُنہیں آتا ہی نہیں۔ابھی چندلمحے پہلے، افغان جمعدار لڑکا گھر کا کُوڑا چننے آیا تو اُس کی ایک غلط حرکت پر ڈانٹا اور جواب میں سُنا:Shit۔اب بھلے ہی اُ س کومطلب نہ معلوم ہو۔ہمارے یہاں کام کے لیے آنے والی بلوچ نژاد پنجابی ماسی کی لڑکی بھی (کچھ ہماری ’گھریلوسرکار‘ کی’غیررَسمی‘ ٹیوشن کے طفیل اور کچھ خودآموزش سے) ایسے ایسے انگریزی الفاظ بولنے لگی ہے کہ ہم حیران ہوجاتے ہیں۔اب اس باب میں افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ لوگ اپنا کام چلانے کے لیے اُلٹی سیدھی رومن اُردو لکھ تولیتے ہیں، مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح بھی لکھا ہے یا کچھ اور مطلب تو نہیں نکلے گا۔خاکسارکو ماضی میں ایم ایس این میسنجر اور یاہو میسنجر پر (محض اتفاقاً کسی لڑکی ہی سے) رومن اردو میں بات چیت عُرف Chatکرتے ہوئے یہ تلخ تجربہ ہوچکا ہے کہ مخاطب کو سیدھا سادا اُردو لفظ،فہم کی کمی کی وجہ سے گالی محسوس ہوا۔اُن دنوں اردوٹائپنگ عام نہیں تھی۔
د)۔متعدد حروف خصوصاًحرف دال، ذال اور ڈال کے اختلافات کو رومن اردومیں کسی بھی طرح صحیح پیش نہیں کیا جاسکتا۔
اب ذرا دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ عبارت تمام اِمکانات کے ساتھ پڑھیں یا کسی ’رومن زدہ‘ سے پڑھوالیں اور پوچھیں کہ کونسی عبارت صحیح لگی اور مطلب کیا سمجھ میں آیا۔رومن رسم الخط کی شان میں اور اس کے مضر اَثرات کی بابت بہت کچھ لکھا اور کہاجاچکا ہے۔میں مختصراً یہی کہتاہوں کہ رومن رسم الخط میں ہماری صوتیات کو سمونے اور بالکل ویساہی پیش کرنے کی ہرگز اہلیت نہیں جو ہمارے نستعلیق یا نسخ میں ہے۔
ان نکات پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی شعور ہرگز اس بات پر آمادہ نہیں ہوگا کہ اردو کا اپنا رسم الخط ترک کرکے رومن اختیار کرے جس میں لفظ کچھ سے کچھ اور معانی یکسر تبدیل ہوجائیں۔
جہاں ایک طرف انگریزی۔زدہ مخلوط بولی ٹھولی کا رِواج یا فیشن دنیا بھر کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہیں بعض جگہ اُردو کے چاہنے والے بھی اپنے مقامی لب ولہجے کی اردو سے ہمیں خوش کردیتے ہیں۔بنگلہ دیش کے ایک نجی ادارے نے فیس بُک پر خالص بنگلہ لہجے میں اردو کے چھوٹے چھوٹے کلِپ بناکر چلائے،بہت حیرت زا مسرت ہوئی۔
[ad_2]
Source link