[ad_1]
سائنس دانوں نے توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک نیا خیال پیش کیا ہے جو بلند و بالا عمارتوں کو بڑی بڑی بیٹریوں میں تبدیل کردے گا، یہ جدت شہری علاقوں میں توانائی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
جرنل انرجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کششِ ثقل پر مبنی ایک نایاب خیال پیش کیا ہے جس میں بلند عمارتوں کی اٹھان اور عمودی قد کو توانائی کے ذخیرے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
لِفٹ انرجی اسٹوریج ٹیکنالوجی (Lest) نامی یہ خیال گِیلی ریت کے کنٹینروں کو یا دوسری زیادہ کثافت والی اشیاء کو اٹھا کر توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے۔
سائنس دانوں نے اس ٹیکنالوجی کے متعلق بتایا کہ Lest ذخیرے کی دو جگہوں کو جوڑتا ہے، جن میں سے ایک عمارت کے سب نچلے حصے میں جبکہ دوسرا حصہ اس ہی عمارت میں سب سے اوپر بنایا گیا تھا۔
عمارتوں میں نصب لفٹ جب نیچے سے اوپر جاتی ہیں تو توانائی، ذخیرہ کرنے والے کنٹینر کے اوپر اٹھنے کی وجہ سے ان میں مخفی توانائی کے طور پر ذخیرہ ہوجاتی ہے۔
پیش کردہ خیال میں، جب عمارت میں توانائی کی طلب کم تھی تو روبوٹوں نے لفٹ میں خوب وزن لادا اور عمارت کے اوپر کے حصے میں توانائی کو ذخیرہ کر لیا۔
محققین نے بتایا کہ کنٹینروں کو لفٹ میں لادنے یا اتارے جانے کا عمل خود کار ٹریلر نے انجام دیا جو اوپر یا نیچے بنائی گئی ذخیرہ کرنے والی جگہ سے کنٹینر نکال لیا کرتا تھا۔ یعنی ٹریلر لفٹ میں داخل ہوتا، اوپر یا نیچے جاتا، لفٹ سے باہر نکلتا اور ذخیرے کے مقامات پر کنٹینر کو رکھ دیتا۔
جب توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا، وزن کو لفٹ میں واپس رکھ کر نیچے بھیج دیا جاتا تاکہ مزید توانائی بنے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے اپلائیڈ سسٹمز انیلیسز کے محققین کے مطابق چونکہ لفٹ پہلے ہی عمارتوں میں لگی ہوئی ہیں اس لیے اس منصوبے میں کسی اضافی سرمایہ کاری یا جگہ کے مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
[ad_2]
Source link