19

بھارت میں 300 یونٹ بجلی مفت

[ad_1]

راشد محمود وطن عزیز کے سینئر اداکار ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بجلی کا زیادہ بل آنے پر نوحہ کناں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کو کافی عرصے سے کام نہیں ملا اور اب وہ اتنا زیادہ بل آنے پر اسے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

وڈیو میں وہ اپنے رب سے موت دینے کی التجا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور ماتم کناں ہیں کہ حکمران طبقہ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکا۔ راشد محمود پاکستان کی ایک جانی پہچانی شخصیت اور بظاہر کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب بجلی کے بل نے انھیں اتنا زیادہ پریشان کر دیا تو سوچنا چاہیے کہ عام آدمی کا کتنا بُرا حال ہو گا۔

حکمران طبقے کا بنیادی فرض

دنیا کے ہر ملک میں حکمران طبقے کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عوام کی ضروریات پوری کرتا رہے۔انھیں خوراک، رہائش، روزگار، علاج ،پانی، سیوریج اور بجلی وگیس و پٹرول کی سہولیات آسانی سے مل جائیں۔ جس ملک میں عوام کو یہ سہولیات میّسر نہ آئیں تو سمجھ لیں کہ اس کا حکمران طبقہ اپنا بنیادی فرض ہی ادا کرنے میں ناکام ہو چکا۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ایسے بدنصیب ملکوں میں ہوتا ہے جہاں حکمران طبقہ عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکا۔بجلی کا معاملہ ہی لے لیجیے۔

کرائے کے بجلی گھر

آبادی بڑھنے کے باعث جب پاکستان میں بجلی کی طلب بڑھی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکمران طبقہ مزید ڈیم بناتا تاکہ زیادہ بجلی پیدا ہو سکے۔اس نے مگر کمپنیوں کو کرائے کے بجلی گھر چلانے کے ٹھیکے دینے شروع کر دئیے۔حکمرانوں پہ الزام لگتا ہے کہ ان معاہدوں کے ذریعے رشوت لی اور اپنی تجوریاں بھری گئیں۔ کرائے کے ان بجلی گھروں کو متعین رقم ہر حال میں ادا کرنا تھی ، چاہے ان سے بجلی نہ بھی خریدی جائے۔ ایسے نامعقول بلکہ ملک دشمن معاہدوںکا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہر سال اربوں روپے کرائے کے بجلی گھروں کو دئیے جاتے ہیں اور وہ بھی ڈالر کی شکل میں! اس شیطانی چکر کا بدترین نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بجلی مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی گئی۔ جبکہ حکومت پر بھی کرائے کے بجلی گھروں کے قرضے بڑھتے چلے گئے۔

ہوش ربا تغاوت

اب حالت یہ ہے کہ پاکستان میں اب جو شہری دو سو یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرے تو اسے فی یونٹ بائیس روپے سے پینتس روپے کے مابین پڑتا ہے(اور دو ماہی، سہ ماہی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیرف میں اضافہ جاری رہتا ہے) پھر ٹیکسوں کی بھرمار کے سبب بل کی رقم مزید بڑھ جاتی ہے۔ دوسو یونٹ اور دوسوایک یونٹ کے مابین ہوش ربا تغاوت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پہلے اور دوسرے بل کے درمیان پانچ ہزار روپے سے بھی زیادہ کا مالی فرق پڑ جاتا ہے۔

ماضی میں یہ رواج تھا کہ تمام صارفین کو دو سلیبوں کی سہولت حاصل تھی۔ اب یہ سہولت صرف دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو حاصل ہے جو ’’پروٹیکٹیڈ ‘‘ کہلاتے ہیں۔ اگر کسی پاکستانی شہری کا بل دو سو یونٹ سے بڑھ جائے تو وہ اس کٹیگری سے نکل جاتا ہے۔پھر اس کٹیگری کا حصہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل چھ ماہ تک اس کا بل دو سو یونٹ تک آئے۔ورنہ پھر اس کی بجلی کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

آمدن کھانے والے بل

موسم سرما میں تو بجلی کم استعمال ہوتی ہے۔ مگر موسم گرما میں پنکھے ، کولر یا اے سی چلنے سے بجلی کا بل بڑھ جاتا ہے۔تب دو سو یونٹ تو آدھے مہینے میں ہی استعمال ہو جاتے ہیں۔اسی لیے بل بہت زیادہ آتا ہے۔اس بڑھوتری نے مگر پاکستان کے نچلے و متوسط طبقے کو حیران وپریشان کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ ان کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی ، گیس اور پٹرول کے بل نگل لیتے ہیں۔

کرائے کے بجلی گھر لگنے سے قبل 1992ء تک تین سو واٹ بجلی کا بل ڈھائی تین سو روپے آتا تھا۔اس کے بعد حکمران طبقے نے اپنی ناعاقبت اندیشی،لالچ اور نااہلی کے سبب عوام پر کرائے کے بجلی گھر مسلط کیے تو بل بڑھنا شروع ہو گیا۔ 1992ء تک ایک عام آدمی تھوڑی سے جدوجہد کے بعد بجلی کا بل ادا کر دیتا تھا۔اب نوبت یہ آ چکی کہ عام آدمی اے سی یا کولر استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ ہزارہا روپے کا بل اس پہ قیامت ڈھا دیتا ہے۔یوں پاکستانی حکمران طبقے نے اپنے عوام کا جینا مشکل بنا دیا اور ان کو سہولتیں کم ہی فراہم کیں۔

بھارتی حکمران طبقے کی کامیابی

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے پڑوسی اور دیرینہ حریف، بھارت میں بجلی کافی سستی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہاں دہلی، پنجاب، جھاڑکھنڈ، راجھستان ، تامل ناڈو اور دیگر ریاستوں میں ریاستی حکومتیں تین سو سے دو سو یونٹ تک بجلی اپنے شہریوں کو ’’مفت ‘‘فراہم کرتی ہیں۔ یوں بھارت میں نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں شہری مذہب، نسل و زبان کی تفریق کے بغیرمفت بجلی سے مستفید ہو رہے ہیں۔انھیں یہ خوف اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی کہ ہزارہا روپے کا بل آ گیا تو وہ کیسے ادا ہو گا؟

یہ عیاں ہے کہ عوام کو سہولتیں دینے میں بھارت کا حکمران طبقہ اپنے معاصر حکمران طبقے سے آگے نکل گیا اور اپنی ذمے داریاں زیادہ بہتر انداز میں انجام دینے میں کامیاب رہا۔ اس کی عوام دوست کوششوں، سرگرمیوں اور منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں پاکستان کی نسبت کم مہنگائی ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے نے قرضوں اور سود کی رقم ادا کرنے کے لیے عوام کو تختہ مشق نہیں بنایا۔ معنی یہ کہ اس نے ٹیکسوں کا بوجھ بھارتی عوام پر نہیں لادا جو کسی بھی مملکت میں مہنگائی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور یہ مہنگائی براہ راست عوام کو متاثر کر کے اس کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔

پاکستان بہتی الٹی گنگا

ریاست ِ بھارت کا مجموعی قرض (یا پبلک ڈیبٹ)پاکستان سے زیادہ ہے، مگر بھارتی حکمران طبقہ اپنے وسائل بروئے کار لا کر قرضے اتارتا اور سود دیتا ہے۔ پاکستان میں مگر الٹی گنگا بہنے لگی ہے… پاکستانی حکمران طبقہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک وغیرہ سے اربوں ڈالر کے قرضے لیتا اور انھیں ادا کرنے کی ذمے داری عوام پہ ڈال دیتا ہے، وہ اس شکل میں کہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے اور ان کی شرح بھی ہر سال بڑھا دی جاتی ہے۔حالانکہ سبھی ماہرین متفق ہیں کہ ایک مملکت میں ٹیکس زیادہ ہونے سے معیشت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، مگر لگتا ہے، پاکستانی حکمران طبقے کو اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ خوفناک امر یہ ہے کہ قرضوں کی رقم کا بیشتر حصہ کرپشن یا بے فائدہ منصوبوں کی نذر ہو جاتا ہے اور ان سے عوام کو کم ہی فائدہ پہنچتا ہے۔

قرضوں کا انبار

یہ یاد رہے کہ 1988ء میں پاکستان کے مجموعی قرضے کی مالیت’’ 630.5 ارب روپے ‘‘تھی۔گویا 1947ء سے لے کر 1988ء تک، ان اکتالیس سال میں پاکستانی حکمران طبقے نے ملک وقوم کو 630.5 ارب روپے کا مقروض بنایا۔جبکہ 1989ء سے کر 2018ء تک،ان انتیس برسوں میں اس طبقے نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو مزید ’’30 ہزار ارب روپے‘‘ کا مقروض بنا ڈالا۔اب پچھلے چھ برس میں یہ عدد ’’81 ہزار ارب روپے ‘‘سے بھی بڑھ چکا۔گویا صرف ان چھ برسوں میں حکمران طبقے نے ریاست پاکستان پر مذید ’’پچاس ہزار ارب روپے ‘سے زائد رقم کا مجموعی قرض چڑھا دیا۔

روٹی نہیں تو کیک کھاؤ

یہ حساب یہ تلخ حقیقت آشکارا کرتا ہے کہ پچھلے چھتیس برس کے دوران ہمارا حکمران طبقہ اپنے اخراجات کو آسمان پہ لے گیا ۔اس نے شاہانہ اور پُرآسائش طرززندگی اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اور اب پاکستانی عوام ٹیکس پہ ٹیکس دے کر اپنے حکمران طبقے کا شاہانہ طرززندگی برقرار رکھنے پر مجبور ہیں۔مگر کب تک؟یہ وہ سوال ہے جو حکمران طبقے کو اپنے سامنے ضرور رکھنا چاہیے تاکہ وہ حقائق سے آشنا رہے۔ ورنہ کہتے ہیں کہ فرانس کی ملکہ میری نے بھی عوامی انقلاب کے دوران عوام کے ہاتھوںقتل ہونے سے قبل کہا تھا کہ لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کھا لیں۔

عوام دشمن عمل جاری

پاکستان کے سیاست داں ہر الیکشن سے قبل دعوی کرتے ہیں کہ وہ عام آدمی کو دو سو یونٹ بجلی مفت مہیا کریں گے۔ مگر یہ وعدہ کبھی ایفا نہیں ہوا بلکہ اقتدار میں پہنچ کر وہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے کا عوام دشمن عمل جاری رکھتے ہیں۔ پڑوس پہ نظر ڈالیے تو نئی دہلی اور بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ پارٹی اول الذکر ریاست میں دو سو اور آخرالذکر ریاست میں تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کر رہی ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت، بی جے پی نے بھی حالیہ الیکشن سے قبل عام آدمی کو مفت بجلی فراہم کرنے کی غرض سے ایک عمدہ منصوبے کا آغاز کیا۔

بھارتی حکومت کا زبردست منصوبہ

یہ منصوبہ ’’پرائم منسٹر سوریہ گھر مفت بجلی یوجنا‘‘کہلاتا ہے۔اس کے ذریعے بھارت میں کوئی بھی شہری اپنے گھر ایک کلو واٹ سے تین کلو واٹ تک کا سولر سسٹم بہت کم قیمت پر لگا سکتا ہے۔ بھارت میں تین کلو واٹ کا سسٹم ڈیرھ لاکھ روپے کا ہے جو ماہانہ تین سو یونٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ اس کو لگانے کے لیے بھارتی حکومت شہری کو 78 ہزار روپے دے گی۔ بقیہ رقم بینک مہیا کرے گا جسے نہایت تھوڑی قسط میں واپس کرنا ہو گا۔قسط کی رقم صرف 106 روپے ماہانہ ہے۔ یوں نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی شہری بھی اب حکومتی منصوبے سے فائدہ اٹھا کر تین سو یونٹ ماہانہ بجلی تقریباً مفت پا سکتے ہیں۔ اب ان کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ بھی اپنے گھر میں کولر یا اے سی بھی لگا لیں۔ گویا یہ بھارتی حکومت کا زبردست عوام دوست منصوبہ ہے جو عام آدمی کی بھلائی اور اس کی زندگی آسان بنانے کے لیے شروع کیا گیا۔

کیا ہوا تیرا وعدہ

پاکستان میں بھی سندھ کی پی پی پی حکومت اور پنجاب میں ن لیگی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ دو تا تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت سولر سسٹم دیں گے ، مگر یہ بات صرف اعلانات تک ہی محدود ہے۔ عملی طور پہ کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بھارت میں بی جے پی حکومت نے حالیہ ماہ فروری میں اپنے ’’پرائم منسٹر سوریہ گھر مفت بجلی یوجنا‘‘ منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اس کے تحت عام شہریوں کے گھروں میں سولر سسٹم لگانے کا آغاز ہو چکا۔

پی ٹی آئی کی غلطی

1989 ء سے پی پی پی اور ن لیگ باری باری پاکستان پر حکومت کرر ہی ہیں۔اس دوران پرویز مشرف کی فوجی حکومت بھی رہی۔ ان حکومتوں کو کامیابیاں ملیں تو ناکامیاں بھی ، مگر یہ بات ضرور ہے کہ انھوں نے عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ لادنے سے گریز کیا۔ٹیکسوں کی شرح میں بھی بے محابا اضافہ نہی کیا گیا ۔ دراصل ان سیاسی جماعتوں اور فوجی حکومت کو بھی علم تھا کہ ٹیکس زیادہ کیے تووہ عوام میں نا مقبول ہو جائیں گی۔ یہ خطرہ وہ مول نہیں لے سکتی تھیں۔

حقائق سے عیاں ہے کہ 2018ء میں حکومت سنبھال کرنئی جماعت ، پی ٹی آئی نے نہ صرف نئے ٹیکس لگائے بلکہ مروج ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھا دی۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ یوں وہ زیادہ رقم جمع کر کے اول عوام دوست منصوبے شروع کرنا چاہتی تھی۔ دوم قرضے بھی اتارے جانے تھے۔ عملی طور پر مگر یہ ہوا کہ پی ٹی آئی نے عالمی وقومی مالیاتی اداروں سے بے پناہ قرضے لے کر اپنے اخراجات کی رقم ادا کی۔ یوں ریاست پر قرضوں کا مذید بوجھ پڑ گیا۔

باقاعدہ ریت بن گئی

لرزہ خیز بات یہ ہے کہ نئے ٹیکس لگانے اور مروج ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی جو نئی ریت پی ٹی آئی نے ڈالی، اسے اب حکمران طبقے نے باقاعدہ طور پر اپنا لیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر سال بجٹ کے ہتھیار کی مدد سے اپنی آمدن میں اضافہ کر لیتا ہے۔اس دعوی کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کا حالیہ بجٹ ہے۔ اس میں وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار حکمران طبقے نے پچھلے بجٹ کے مقابلے میں اپنی آمدن ’’چالیس فیصد‘‘ تک بڑھا لی۔ اور یہ اضافہ نئے ٹیکس لگانے اور مروج ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی طرح اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوا۔ بے حسی اور عوام کی مشکلات سے ناآشنائی کی حد یہ ہے کہ بچوں کے دودھ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔

سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کر کے بھی عوام کو مالی و ذہنی پریشانی میں مبتلا کیا گیا جو ان ڈائرکٹ ٹیکس ہے۔ یعنی امیر اور غریب کے فرق کو خاطر میں لائے بغیر لاگو کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی ایک اہم وجہ پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ میں اضافہ ہے۔ اس سچائی کی پروا کیے بغیر مگر حکومت نے پٹرول کی لیوی دس روپے بڑھا دی۔ گویا حکومت اب صرف ایک ٹیکس، پٹرول کی لیوی کی مد میں عوام سے ستر روپے فی لیٹر بٹور رہی ہے۔ اسی طرح افغانستان سے جو سبزیاں اور اشیائے خوراک آتی تھیں، ان پر بھی دس فیصد نیا ٹیکس لگ گیا۔

اپنا سسٹم نہیں چھیڑنا

پاکستانی حکمران طبقے کے اقدمات سے آشکارا ہے کہ وہ بتدریج عوام کو دی جانے والی مالی سہولتیں و مراعات المعروف بہ سبسڈیاں ختم کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر یہ طبقہ ملک وقوم سے مخلص ہوتا، عوام کی بھلائی چاہتا تو سب سے پہلے اپنے اخراجات کم کرتا۔ اپنے پھیلاؤ کو بھی روکتا جو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پہ اب ہر وزارت میں سیکڑوں سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں۔ لگتا ہے، یہ ادارے اس لیے تخلیق کیے گئے تاکہ بیوروکریٹ ان کے ڈائرکٹر، ڈپٹی ڈائرکٹر اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر بن کر لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات پا سکیں۔ پاکستانی حکمران طبقے نے ایسا کوئی عوام دوست قدم نہیں اٹھایا…بلکہ پارلیمنٹ کے جس اجلاس میں ٹیکسوں سے لدا پھندا حالیہ بجٹ منظور ہوا، اس میں ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل منظور کر لیا۔ کئی ماہرین اور دانشوروں نے حکمران طبقے کے اس طرزعمل کو شرمناک اور پریشان کن قرار دیا۔

نجی ملازمین پہ بڑھتا بوجھ

اسی طرح بجٹ کے ذریعے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس تا پندرہ فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن پاکستان کی افرادی قوت میں سرکاری ملازمین کی تعداد ساٹھ پینسٹھ لاکھ ہے۔ بقیہ کروڑوں پاکستانی نجی ملازمتیں کرتے یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کی آمدن میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ بذریعہ بجٹ ان کی آمدن کا کثیر حصہ ٹیکسوں کی زد میں آ گیا۔ معنی یہ کہ ان کی آمدن حکومتی اقدامات کی وجہ سے بڑھنے کے بجائے الٹا گھٹ گئی۔

’’ 3 ہزار 477 ارب روپے‘‘ کے نئے ٹیکس

حکومت وقت نے حال ہی میں 18ہزار 877 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ۔اس میں دکھایا گیا کہ 10 ہزار 377 ارب روپے ٹیکسوں اور متعلقہ مد سے حاصل ہوں گے۔ پچھلے سال کے بجٹ میں یہ عدد 6 ہزار  900ارب روپے تھا۔ گویا نئے بجٹ میں حکومت نے عملی طور پہ عوام ِ پاکستان پر’’ 3 ہزار 477 ارب روپے‘‘ کے نئے ٹیکس لگا دئیے۔ 2022ء کے بجٹ میں ٹیکسوں اور متعلقہ مد سے حاصل شدہ رقم 4 ہزار 900 ارب روپے دکھائی گئی تھی۔ نئے بجٹ کی رو سے پاکستان اس سال 9 ہزار 775 ارب روپے سود کی رقم کی مد میں ادا کرے گا۔ پچھلے سال سود کی رقم 7 ہزار 300 ارب روپے تھی۔ جبکہ اس سے پچھلے سال یہ عدد 3 ہزار 950 ارب روپے تھا۔ گویا صرف دو سال کے عرصے میں سود کی رقم میں’’ 5ہزار 825 ارب ‘‘روپے کا اضافہ ہو گیا۔ سود کی رقم میں اس قیامت خیز اضافے کو عوام ِ پر ٹیکس لگا کر ہی پورا کیا جا رہا ہے۔

عوام کے حواس مختل

درج بالا اعداد وشمار کو دیکھ کر ہی خیبر سے لے کر کراچی تک ، ہر جگہ عام آدمی یہ کہنے لگا ہے کہ حکمران طبقہ اس کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا کر خود عیاشیاں کر رہا ہے۔ دراصل بڑھتی مہنگائی نے عوام کے حواس مختل کر دئیے ہیں اور اب وہ مزید بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ اگلے سال اگر حکمران طبقے نے عوام پہ مزید ٹیکس لگائے تو خدشہ ہے کہ پاکستان کے طول وعرض میں انتشار و بے چینی جنم لے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سری لنکا اور حال ہی میں کینیا کی طرح حکومت کے خلاف خون ریز ہنگانے شروع ہو جائیں۔

حکمران طبقہ کیا کرے؟

یہ خوفناک وقت آنے سے قبل ہی پاکستانی حکمران طبقے کو خواب ِ غفلت کی نیند سے جاگ جانا چاہیے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ پاکستان کو مہنگائی کے گرداب سے نکالنے کی خاطر خود قربانیاں دے۔ مثلاً سرکاری ملازمین کو حاصل تمام مراعات ختم کر دی جائیں۔ جو اعلی سرکاری افسر ہیں، ان کی تنخواہوں میں کمی کی جائے۔ ریٹائرڈ سرکاری افسر بھی لاکھوں روپے ماہانہ کی پنشن پاتے ہیں۔ اس میں کمی لائی جائے۔ غرض حکمران طبقہ عملی اقدامات سے عوام کو دکھائے کہ وہ پاکستان میں حقیقی طور پر مہنگائی میں کمی لا کر عوام کو ریلیف دینا چاہتا ہے۔ ان کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہے۔خاص طور پہ قرضے لینے کے نشے سے چھٹکارا پانا بنیادی شرط بن چکا…گو پاکستانی حکمران طبقے کی حالت یہ ہو چکی کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی خبر یوں سناتا ہے جیسے کوئی بہت بڑی خوش خبری سنا رہا ہو۔ بقول شاعر مشرق ؒ

مگر یہ راز آخرکھل گیا سارے زمانے پر

حمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستانی حکمران طبقے نے اپنی موجودہ روش نہیں بدلی تو اسے جلد یا بدیر عوام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا ہو گا۔ اور جب عوامی انقلاب آئے تو بادشاہوں کے عالی شان محل بھی خس وخاشاک بن کر بہہ جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ یہی تلخ سچائی بخوبی اجاگر کرتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں