24

شادی شدہ جوڑوں میں علیحدگی کا خمیازہ اکثر بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے

[ad_1]

 لاہور: شادی شدہ جوڑوں میں علیحدگی کی وجہ سے ان کے بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، کئی مرد و خواتین علیحدگی کے بعد دوسری شادی کر لیتے ہیں پھر شوہر یا بیوی بچوں کو کسی یتیم خانے یا چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیتے ہیں جہاں یہ بچے ایک احساس محرومی کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔

لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں 12 سالہ امن جاوید گزشتہ کئی ماہ سے مقیم ہے، بچی کے والد اسے یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ امن جاوید کی والدہ اور والد میں علیحدگی ہوچکی، والدہ نے دوسری شادی کرلی جبکہ والد اسے یہاں چھوڑ کر چلا گیا، یہ بچی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ رہی ہے۔

پنجاب میں لاوارث، یتیم اور بے سہارا بچوں کے نگہبان ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس اس وقت 150 بچے ایسے ہیں جو مستقل رہائش پذیر ہیں، ان میں 90 لڑکیاں اور 60 لڑکے ہیں۔ ان بچوں میں 35 سے 40 بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں علیحدگی ہوچکی ہے۔ بعض بچوں کے والد اور والدہ نے طلاق یا خلع کے بعد دوسری جگہ شادی کرلی۔ نئے شوہر/ بیوی نے پہلے بچوں کو قبول نہیں کیا اور پھر ان بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا۔

پنجاب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے بھی یتیم، بے سہارا اور ضرورت مند بچوں کے لیے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں سینٹرز بنا رکھے ہیں۔ پنجاب سوشل ویلفیئر کے ترجمان کے مطابق پنجاب میں اس وقت بچوں کے لیے 12 ماڈل چلڈرن ہوم جبکہ بچیوں کے لیے تین کاشانہ سینٹرز ہیں جن میں مجموعی طور پر 500 سے زائد بچے، بچیاں مقیم ہیں۔ ان بچوں میں کئی ایسے ہیں جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جن کے والد یا والدہ دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہوچکا ہے۔ یا پھر ان میں علیحدگی ہوچکی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ ایک سینٹر میں اگر 50 بچے ہیں تو ان میں 15 سے 20 بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں علیحدگی ہوچکی ہے، والد یا والدہ خود ان بچوں کی پرورش نہیں کر سکتے اور انہیں سوشل ویلفیئر کے سپرد کر دیتے ہیں۔

چائلڈ پروٹیکیشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن اور رکن صوبائی اسمبلی پنجاب سارہ احمد نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی بڑی وجہ عدم برداشت ہے، ان میں باہمی احترام، محبت اور برداشت کا فقدان ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے رویے اور سلوک کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین گھریلو تشدد، سسرال والوں کے نامناسب رویے اور شوہر کے بیروزگار یا منشیات کا عادی ہونے کی وجہ سے خلع لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

سارہ احمد نے کہا کہ یہاں جو بچے آتے ہیں ان کی تعلیم، صحت اور رہائش کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر ہی بچوں کو بیورو میں مستقل رہائش دی جاتی ہے۔ عدالت بیورو کو ان بچوں کی عارضی کسٹڈی دیتی ہے۔

بچوں کی نفسیات کی ماہر رابعہ یوسف نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ والدین کی شفقت سے محروم رہنے والے بچے احساس کمتری سمیت کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک خلا رہتا ہے، وہ عام بچوں سے الگ رہنا پسند کرتے ہیں، چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر ان میں بہت زیادہ غصہ ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کی طویل کونسلگ (رہنمائی) کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق بچوں کو لاوارث چھوڑے جانے کی اہم وجہ ان کے والدین میں علیحدگی ہے۔ اعدا و شمار کے مطابق لاہور کی 14ہزار خواتین نے سال 2023 میں خلع لیا، 7 ہزار کیس زیر التوا ہیں جبکہ لاہور کی 10 فیملی کورٹ میں مجموعی طور پر 13ہزار کیس دائر ہوئے۔

لاہور ہائیکورٹ کی وکیل اور گزشتہ کئی برسوں سے فیملی کیس لڑنے والی ثوبیہ قادر بٹ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ جوڑوں میں علیحدگی کے بعد بچوں کو لاوارث چھوڑے جانے کی چند وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم معاشی حالات ہیں۔ علیحدگی اختیار کرتے وقت جوڑے جذباتی ہوکر فیصلے کرتے اور  پریکٹیکل لائف کو نہیں دیکھتے۔ علیحدگی کے بعد اگر کوئی عورت یا مرد بچوں کی کسٹڈی لیتا ہے خاص طور پر خواتین تو وہ جلد ہی معاشی مشکلات کی وجہ سے بچوں کو کسی شیلٹر ہوم میں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس کے مرد یا عورت جب دوسری شادی کرتے ہیں تو دوسری بیوی، یا شوہر پہلی بیوی یا شوہر کو بچوں کو قبول نہیں کرتا/کرتی ہے۔ اسی طرح اگر بچہ کسی معذوری کا شکار ہو اور جوڑے میں علیحدگی بھی ہوجائے تو ایسی صورتحال میں بھی اکثر بچے کو شیلٹر ہوم میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات تیسرا فریق مرد یا عورت کو مجبور کر دیتا یا مشورہ دیتا ہے کہ وہ پہلے شوہر/بیوی کے بچوں سے جان چھڑائے اور انہیں کسی یتیم خانے میں چھوڑ آئے۔

ثوبیہ قادر بٹ کے مطابق بعض شیلٹر ہوم خود بھی لوگوں کو اس طرح کے مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ان کے حوالے کر دیں جہاں ان کی اچھی پرورش ہوگی کیونکہ ان شیلٹر ہومز کو بھی اپنا کام چلانے کے لیے بچے درکار ہوتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں