16

حریت فکر و نظر کا امام جری حسینؓ

[ad_1]

’’میں راہِ خدا میں سر دینا گوارہ کرلوں گا مگر ذلّت کے ساتھ زندگی قبول نہیں کروں گا۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

’’میں راہِ خدا میں سر دینا گوارہ کرلوں گا مگر ذلّت کے ساتھ زندگی قبول نہیں کروں گا۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

محرم ایسے وقت میں طلوع ہو رہا ہے جب مقبوضہ کشمیر بھارتی محاصرے میں ہے اور فلسطین میں اسرائیل کے مظالم مسلمانوں کے سینوں کو چھلنی اور آزادی و حریت کے متوالوں کو دل گرفتہ کیے ہوئے ہیں، عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکے داروں کی کشمیر پر خاموشی اور فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کو جواز بخشنے کے لیے سرتوڑ کوششوں جیسے اقدام مظلومین عالم کے قلوب و اذہان پر چھائے اندھیروں کو مزید گہرا کرتی ہے وہیں ایک روشنی کا چراغ ایسا بھی ہے مظلومین جہاں اور مجاہدین آزادی کے لیے حوصلہ اور امید کی صورت جگ مگا رہا ہے جیسے ہی طاقت وروں کا استبداد حد سے بڑھنے لگتا ہے تو مظلوموں کے ہاتھ دنیائے آزادی کے اس عظیم راہ بر نواسہ رسول الثقلینؐ حضرت امام حسینؓ کی جانب بیعت کے لیے لپکنے لگتے ہیں جس نے ظلم و جور کی بیعت کو حقارت سے جھٹک ڈالا تھا۔

محرم مظلوموں کے لیے شفا بخش ہے، اس ماہ مقدس میں رقم ہونے والے درس کربلا کے سبب حریت پسندوں کے دل و نظر میں فتح کے یقین کی روشنیوں کی ضوفشانیاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں اس یقین میں ہر بڑھتے ظلم کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ استعمار و استکبار اور ملوکیت و آمریت کے فرستادے اس چراغ حریت و آزادی کو بجھانے کے لیے ہر حربہ آزما چکے ہیں لیکن اس کے پروانوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، جبر و منافقت کی آندھیاں اس چراغ کو کیسے بجھا سکتی ہیں جسے فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسینؓ نے اپنے اور اپنے جاں نثاروں کے لہو سے جاودانی بخشی ہو۔

وصال رسالت مآب ﷺ کے محض 50 برس بعد دین خدا اور شریعت مصطفیؐ پر کڑا ترین وقت آگیا وہ دین جس کے لیے سسکتی ہوئی انسانیت نے صدیوں نے انتظار کیا تھا، جس کے لیے آمنہ کے چاند ﷺ نے لاتعداد مصائب برداشت کیے، خاندان نبی ہاشم نے شعب ابی طالب کی سختیاں جھیلیں، ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبریؓ فاقے برداشت کرتے ہوئے دنیا سے چلی گئیں، پاکیزہ صحابہ کبارؓ نے لاتعداد مصائب برداشت کیے، خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کو اپنا وطن مکہ چھوڑنا پڑا۔104جنگوں اور غزوات کے زخم برداشت کرنا پڑے اس دین کی سچائی پر ملوکیت کا پروردہ اس انداز میں حملہ آور ہُوا کہ نزول وحی کو مشکوک بنانے لگا۔

60 ہجری ماہِ رجب میں یزید کے تخت حکومت پر متمکن ہوتے ہی اسلام پر ملوکیت کا مہیب سایہ مزید گہرا ہونے لگا، دین میں تبدیلیاں ہونے کا راستہ ہم وار ہو گیا، شریعت میں حکم رانوں و اہل اقتدار کی منشاء کے مطابق تغیرات ہونے لگے۔ رسول خدا ﷺ کی امانت میں خیانت ہوتی نظر آنے لگی، اسلامی شعائر کا منبروں سے مذاق اڑایا جانے لگا۔ یہ صورت حال نبیؐ کی گود کے پالے امام حسینؓ کے لیے ناقابل قبول تھی۔

امام حسینؓ وارث دین خدا تھے، کتاب خدا کے محافظ تھے، کیسے ان خیانتوں پر خاموش رہتے۔ حسینؓ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی محنتوں کو ضایع ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جعفر طیارؓ کے بازو کٹ گئے، حضرت عمار یاسرؓ کی ماں سمیّہ نے شہادت قبول کی۔ رسول کریمؐ کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کا جگر چپایا گیا، اس دین کو اپنی آنکھوں کے سامنے حسینؓ کیسے مٹتا اور محو ہوتا دیکھ سکتے تھے۔ بدر و حنین کے معرکوں کی روح بچانا حسینؓ کا فریضہ تھا۔ حسینؓ کے سامنے رسولؐ کی حدیث تھی: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تم میں چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رکھو گے تو کبھی گم راہ نہیں ہوگے۔ ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت۔‘‘ (صحیح مسلم متفق علیہ، ترمذی، ابو داؤد)

اہل بیت رسولؐ کا نمائندہ گم راہی کا باب کھلتا ہُوا کیسے دیکھ سکتا تھا۔ امت کی ہدایت حسینؓ پر فرض تھا، قرآن کی لاج بچانا حسینؓ پر واجب تھا۔ ایک طرف مسلمانوں کی کثیر تعداد یزید کی بیعت کرچکے تھے لیکن اس لاکھوں کی بیعت میں امام حسینؓ کی کمی تھی، یزید کو معلوم تھا کہ جب تک نبی ﷺ کا نواسہ اس کی بیعت نہیں کرلیتا اس کی ناجائز حاکمیت ناجائز ہی رہے گی، لہذا اس نے حکومت سنبھالتے ہی جہاں مختلف علاقوں کے گورنروں کو خطوط ارسال کرکے اپنی جانشینی سے آگاہ کیا وہاں ایک خط گورنر مدینہ ولید بن عتبہ کے نام ارسال کیا جس کے ہم راہ ایک الگ رقعہ تحریر تھا جس میں فرزند رسول ؐسے بیعت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ رقعے میں تحریر تھا کہ حسین ابن علیؓ پر سختی کرو اور جب تک وہ بیعت نہ کریں، انہیں کسی قسم کی مہلت نہ دی جائے، چناں چہ ولید نے امام عالی مقامؓ سے بہ حکم یزید بیعت طلب کرنا چاہی جس کے جواب میں آپؓ نے فرمایا:

’’اے ولید! ہم خاندانِ نبوتؐ اور معدن رسالت ہیں، ہمارے گھروں پر فرشتوں کی آمد و رفت اور رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے، خدا نے اسلام کو ہمارے گھر سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام ہوگا، ہمارا گھر شروع سے آخر تک اسلام کے ہم راہ ہے مگر یزید کی بیعت کی توقع مت کرنا۔ کیوں کہ یزید مردِ فاسق، شراب خور، بے گناہوں کا قاتل، خد ا و رسولؐ کے احکام کو پامال اور سرعام فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے۔ کوئی مجھ جیسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام عالی مقامؓ نے اس گفت گُو میں اپنا موقف واضح فرما دیا کہ وہ یزید کی بیعت اور اس کی حکومت کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ لہذا امام حسینؓ نے گم راہی و ضلالت کے نمائندے کے سوال بیعت کو رد کرتے ہوئے دنیا کے طاقت ور ترین حکم ران کے سامنے حرف انکار بلند کردیا۔ جب سارا عالم اسلام خاموش تھا نبیؐ کا نواسہ اور ہدایت کا نمائندہ حسینؓ جابر سلطان کے سامنے خاموش نہ رہ سکا۔ نبی کی گود کے پالے حسینؓ اگر یزیدیت کے سامنے معمولی لچک کا مظاہرہ کرتے تو اسلام کی بنیادیں پامال ہو جاتیں، اسلام کا چہرہ مسخ ہو جاتا۔ یزید کے کردار کو عین دین سمجھ لیا جاتا۔ نوزائیدہ اسلام اسی طرح ملاوٹ کا شکار ہو جاتا جیسا کہ انسانوں نے سابقہ انبیائؑ کے ادیان اور شریعتوں کے ساتھ سلوک کیا تھا۔ حسینؓ دین مصطفیؐ کے پاسبان بن کر اپنے پورے خاندان کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ 28 رجب کو نانا کے شہر مدینہ کو چھوڑا اور مکہ حج کے لیے آگئے اور جب یہ دیکھا کہ یزید کے فرستادے امام حسینؓ سے جنگ کے لیے سرزمین حرم پر وارد ہو چکے ہیں تو خون خرابے سے کعبہ کی حرمت بچانے بچانے کے لیے حج کو عمرے میں تبدیل کرتے ہوئے 8ذوالحجہ 60ہجری کو مکہ بھی چھوڑ دیا اور کربلا بسانے چل پڑے۔

امام حسینؓ نے یزید ِ نابکار کے خلاف اپنے قیام کے اسباب اور مستقبل کی پالیسی کو مکمل طور پر واضح کرتے ہوئے فرمایا:

’’خدا کی قسم! میں اپنا ہاتھ ایک فرد ذلیل کی طرح تمہارے سامنے نہیں لاؤ ں گا نہ غلاموں کی طرح تمہارے سامنے سے بھاگوں گا، تم لوگوں نے مجھے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے تاکہ قتل ہو جاؤں یا ذلت و خواری کو قبول کروں، مگر میں پہلی شق کو قبول کرتے ہوئے راہِ خدا میں سر دینا گوارہ کرلوں گا مگر ذلت کے ساتھ زندگی قبول نہیں کروں گا۔ شہادت ہمارے گھر کی میراث ہے۔ میرے وفادار اصحاب اور خانوادہ رسالت ؐ کے پاک و پاکیزہ افراد جنہوں نے میری تربیت کی وہ سب کے سب طاہر و مطہر ہیں اور صاحبانِ عزت و استقامت ہیں، وہ تمام کریم افراد جواں مرد عزت کی قتل گاہ پر کمینوں کی اطاعت کو ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔‘‘

حسینؓ نبیؐ کا محبت کا استعارہ تھے۔ حسینؓ کے لیے جنّت سے روح الامین اور ملائک پوشاکیں لے کر آتے تھے۔ حسینؓ یہ بھی بتا نا چاہتے تھے اگر رسول خدا ﷺ میری سواری بنا کرتے تھے، میرے پشت پر سوار ہوجانے پر اپنے سجدے کو طول دے دیا کرتے تھے، اﷲ اور رسولؐ نے حسینؓ کو اتنا بلند مقام عطا فرمایا تھا تو حسینؓ کو اپنے کردار و عمل اور آزمائش کے میدان میں ثابت کرنا تھا کہ نبیؐ کے نواسے کے سوا اس مقام اور درجہ کا کوئی اہل نہ تھا۔ وہی اﷲ تو ہے جس نے تمہیں زمین پر جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ درجے دیے تاکہ اس نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔

حسینؓ نے آزمائش کے میدان میں اپنی قربانی سے بتاد یا کہ جو منصب اﷲ و رسولؐ نے انہیں دیا اس کا اہل ان کے سوا کوئی اور نہیں، حسینؓ نے اس آزمائش کے معرکے میں پوری کائنات میں منفرد و بے مثال 72ساتھیوں کا نذرانہ پیش کیا، انسانیت کے سرمایے دین اسلام کو بچانے کے لیے اپنا کُل سرمایہ لٹا دیا، اپنے بھائی عباسؓ کے بازو دیے، نوجوان بیٹے علی اکبرؓ کا جگر دیا، بھتیجے قاسم ابن حسنؓ کی لاش کے ٹکڑے ہونا قبول کیا، ششماہے معصوم علی اصغرؓ کے گلے پر تیر لگتا دیکھا، علی ابنی ابی طالبؓ کے نو بیٹے کربلا کے رن کی نذر کیے، عقیل ابن ابو طالبؓ کے سات بیٹے قربان ہوئے، شہید موتہ جعفر طیار ابن ابو طالب کے بیٹے اور پوتے شہید ہوگئے غرض یہ کہ ابو طالب کا پورا گھرانہ اور ساری اولاد اسلام کے تحفظ کے معرکہ میں قربان ہوگئی۔ اور جب مزید ضرورت پڑی تو حسینؓ نے اپنی بہنوں اور رسولؐ کی نواسیوں کی چادریں بھی اسلام پر وار دیں لیکن اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دینا گوارا نہ کیا۔

امام حسینؓ نے رسالت کا مذاق اڑانے والے یزید کو رسوائے تاریخ کردیا، جس یزید نے منبر پر بیٹھ کر یہ شان رسالتؐ میں یہ گستاخی کی تھی کہ بنو ہاشم نے حکومت کے لیے ڈھونگ رچایا تھا نہ کوئی فرشتہ اترا تھا نہ وحی آتی تھی۔ حسینؓ نے اپنے کٹے ہوئے گلے سے قرآن سنا کر زمانے کو بتا دیا کہ قرآن حق تھا میرے صادق و امین نانا محمد مصطفیؐ نے وحی کے بغیر کبھی کوئی کلام ہی نہیں کیا تھا۔

اﷲ کا وعدہ ہے تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا، اﷲ نے حسینؓ کے ذکر کو لازوال کردیا، آج شہادت حسینؓ کو چودہ سو سال سے زیادہ بیت چکے ہیں لیکن جیسے ہی محرم کا چاند طلوع ہوتا ہے غم حسینؓ پر ہریالی آجاتی ہے، حسینؓ کی شہادت کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں وہیں ظالمین ڈکٹیٹروں، جابروں اور غاصبوں پر خوف طاری ہونے لگتا ہے کہ حسینؓ کا درس پھر تازہ ہوگیا، جب تک حسینؓ کا درس زندہ رہے گا ظالموں پر یہ خوف طاری رہے گا۔ صیہونیت و استعماریت اپنی طاقت اور مکاری کے زور پر کتنے ہی معاہدے کر ڈالیں، کتنے قانون بدلیں، آزادی و حریت کی تحریکوں پر کتنے ہی الزامات دھریں جب جب محرم کا چاند نکلے گا ان کی سازشوں کو تار تار کرنے کے لیے آزادی و حریت کی نئی کونپلیں پھوٹیں گی اور ظلم کی بنیادوں پر ایک لرزہ طاری ہوتا رہے گا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں