[ad_1]
سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’بے شک! شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتدائے آفرینش سے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے۔ ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں (ناحق قتل) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطے پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اﷲ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو! سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔‘‘
حضرت قتادہؓ نے فرمایا: ’’ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر ’’یومِ عاشورہ‘‘ کے روزے کے متعلق کثرت سے احادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزے کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔
ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے عاشورہ کے روزہ کی فضیلت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا:
’’اس سے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ (مسلم)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآب ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا۔ اس پر موسیؑ نے اس دن شُکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سُن کر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ہم تمہاری نسبت حضرت موسیؑ کے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔ پس رسول اﷲ ﷺ نے خود روزہ رکھا اور صحابہؓ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)
روایات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عاشورہ کو حضرت آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ کے کنارے پر ٹھہری تھی۔ حضرت موسیٰؑ کو فرعون سے نجات ملی تھی اور فرعون غرق ہُوا تھا۔ حضرت عیسیؑ کی ولادت ہوئی اور اسی دن آسمان پر اٹھائے گئے۔ اسی دن حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ حضرت یوسفؑ کنعان کے کنویں سے نکالے گئے اور حضرت سلیمانؑ کو مملکت عطا ء ہوئی۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر خرچ میں فراخی کی تو اﷲ تعالیٰ تمام سال اس کے رزق میں فراخی فرمادے گا۔‘‘
ماہ محرم میں حضرت امام حسینؓ کی شہادتِ عظمیٰ کا واقعہ اسلام کی تاریخِ عزیمت کا ایک لافانی باب ہے۔ یہ اسلام کی راہ میں قربانی کا بے مثال واقعہ ہے۔ وہ عظیم ترین نمونہ ہے جس کی ابتداء حضرت اسمٰعیلؑ سے ہوتی ہوئی جناب امام عالی مقامؓ تک پہنچتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس تاریخ کو انتہائی مختصر طور پر بیان فرمایا:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسمٰعیلؑ
واقعہ کربلا میں جناب امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت کو زمانہ گزر چکا ہے لیکن یہ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ اب بھی ذہنوں میں اس طرح تازہ ہے جیسے یہ واقعہ ابھی حال ہی میں پیش آیا ہو۔ حضرتِ امام حسینؓ نے شمع محمدیؐ کو بجھنے سے بچانے کا جو فرض عظیم انجام دیا وہ اس بات کی اہم مثال ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خاندانِ محمدیؐ کی ہی ایک جلیل القدر شخصیت جناب امام حسینؓ کو یہ منصب و اعزاز عطا کیا۔
حضرتِ امام عالی مقام حسینؓ کا اعزاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلامی نظام ِ اجتماعی کے تحفظ کی خاطر شہادت عظمی کو قبول فرمایا۔ اس طرح شہادتِ امام حسینؓ حق کی حفاظت کے لیے آخری حد تک خود کو لٹا دینے اور سب کچھ نچھاور کر دینے کا آخری استعارہ اور روشن علامت بن گئے۔
حضرتِ امام حسینؓ نے شہادت کا جو نمونہ پیش کیا، وہ محض اپنی ذات تک محدود نہیں۔ انہوں نے اپنے پورے خاندان کو، شیر خوار بچوں اور عفت مآب مستورات اہل بیتؐ سمیت پورے خاندان کی قربانی رب تعالی کے حضور پیش فرمائی۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا تنہاء نواسۂ رسول کریم ﷺ کی شہادت حصولِ مقصد کے لیے کافی نہ تھی؟ اس کا جواب بھی ہمیں افکار حسینؓ ہی سے ملتا ہے کہ نوجوانانِ جنّت کے سردار حضرتِ امام حسینؓ کے سامنے پوری انسانیت کے لیے یہ نظیر قائم کرنا تھی کہ حق کی علم برداری اور دین کا احیاء اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دین سے محبت رکھنے والا اس کے لیے اپنی کسی بھی عزیز سے عزیز متاع کو بھی اﷲ کی راہ میں لٹا اور مٹا دینے سے گریز نہ کرے۔
محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جس کے آغاز میں اسلامی تاریخ کا یہ عظیم واقعۂ شہادت، امتِ مسلمہ کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ اسی طرح اسلام کے لیے فداکارانہ جذبہ کے تحت سال کی ابتداء کریں اور پورے سال اس جذبے کو اپنے سینوں میں تازہ رکھیں۔
[ad_2]
Source link