[ad_1]
گزشتہ سے پیوستہ گفتگو کرتے ہوئے ایک نہایت دل چسپ انکشاف دیکھتے چلیں۔ سید سلیمان ندوی صاحب نے اپنی ہی کتاب ’نقوش ِ سلیمانی‘ میں درج اس لسانی قیاس کی تغلیط اَزخود فرمائی کہ سندھ، اردو کا مولد ہوسکتا ہے۔ انھوں نے مشہور جریدے ’معارف‘ (شمارہ بابت جولائی 1933ء) میں شایع ہونے والے اپنے مضمون ’’اردو کیوں کر پیدا ہوئی‘‘ میں لکھا کہ ’’موجودہ معیاری اردو دہلوی زبان، دوسری زبانوں سے مل کر بنی ہے۔
آج کل بعض فاضلوں نے ’پنجاب میں اردو‘ اور بعض اہلِ دکن نے ’دکن میں اردو‘ اور بعض عزیزوں نے ’گجرات میں اردو‘ کا نعرہ بلند کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر ممتاز صوبے کی مقامی بولی میں مسلمانوں کی آمدورَفت اور میل جو ل سے جو تغیّرات ہوئے، ان سب کا نام اردو رکھ دیا گیا، حالانکہ اُن کا نام پنجابی، دکنی، گجراتی یا گُجری وغیرہ رکھنا چاہیے، جیسا کہ اُس دور کے لوگوں نے کیا ہے۔ یہ تغیّرات جب ممتاز صوبوں میں ہورہے تھے تو خود پایہ تخت دہلی میں تو اَور ہوتے‘‘۔
سید صاحب کی اس تحریر میں پہلا نکتہ خاکسار کی رائے سے لگّا کھاتا ہے کہ ہر علاقے میں مقامی بولی یا زبان سے اشتراک وتبادلہ فرہنگ کے سبب اردو نے کوئی نہ کوئی مقامی یا علاقائی شکل اختیار کی جسے بعد میں قبولیت عامّہ کی سند مل گئی، مگر اُن کایہ کہنا کہ خود دہلی میں بھی ایسا ہونا چاہیے تھا یعنی یہ کہ دہلی یا دِلّی کی زبان تو وہی رہی، جُوں کی تُوں….یہ بات صحیح نہیں۔ ایک محقق جناب شرف الدین اصلاحی نے خیال ظاہر کیا کہ محوّلہ بالا فضاء میں پروان چڑھنے والی زبانیں، اردو نہیں بلکہ پنجابی، گجراتی، دکنی، گُجری اور سندھی تھیں اور پھر اپنے مؤقف کی تائید میں ڈاکٹر محی الدین زورؔ صاحب کا بیان بھی نقل کردیا۔ یہ بھی علمی مغالطہ ہے۔ دکنی کوئی الگ زبان نہیں، اردوہی کی ایک قدیم بولی ہے جو آج بھی زندہ ہے۔
پنجابی اور گجراتی اُردو سے بطور زبان تشکیل کے اعتبار سے نسبتاً قدیم ہیں اور اُردو کی بڑی بہن ہیں۔ پنجابی کی جڑوں پر تحقیق ابھی تشنہ ہے اور بظاہر بات یہیں تک پہنچی ہے کہ بابا فریدالدین مسعود فاروقی المعروف گنج شکر (رحمۃ اللہ علیہ) ہی اردو، پنجابی اور سرائیکی کے اوّلین شاعر ومصنف تھے یا کم از کم یہ کہ محفوظ عبارتوں کی روشنی میں وہ قدیم قرار پائے، ورنہ اردو ئے قدیم (ہندوی) کا اوّلین صاحبِ دیوان شاعر مسعودسعد سلمان لاہوری اُن سے بھی دوصدیاں پہلے ہو گزرا تھا، البتہ اُس کا دیوان محفوظ نہیں۔
(کتاب ’اردو کی کہانی‘ میں درج ڈاکٹر سہیل بخاری کا انکشاف دوبارہ نقل کرتا ہوں کہ اردوئے قدیم کے عہد میں جب ابھی وہ باقاعدہ زبان بھی نہیں تھی، قدیم ہندو مرہٹی شاعر، گیانیشور اوّلیت کا شرف حاصل کرچکا تھا، حالانکہ اُس سے قبل حضرت شرف الدین احمد بِہاری اور اُن سے بھی پہلے بابا فرید کے نام ترتیب کے لحاظ سے پہلے آتے ہیں۔ تفصیل میرے راجستھان والے مضمون میں گزری ہے)۔ دیگر یہ کہ اُنھوں نے بھی سیدسلیمان ندوی کی غلطی دُہرائی کہ زبان گوجری کو گُجری لکھ دیا۔ اس بابت خاکسار نے اپنے تین اقساط پر مبنی مضمون ’اردو کی ماں گوجری؟‘ میں بہت پہلے لکھا تھا جو آنلائن دستیاب ہے اور وادی کشمیر کی دونوں جانب، نیز دنیا میں دیگر مقامات پر خوب نقل کیا گیا۔ یہاں راقم یہ کہنا چاہتا ہے کہ فقہی مباحث کی طرح لسانی مباحث میں بھی عقلی ومنطقی دلائل کے ساتھ ساتھ نقلی دلائل چلتے ہیں یا استعمال ہوتے ہیں، انھیں یک رُخا جذباتی رنگ دے کر کوئی حتمی فیصلہ صادرنہیں کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ کوئی بھی زبان یا بولی دیگر زبانوں کے اشتراک کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتی۔ سندھی میں عربی کے اثرات موجود ہیں تو محض فتحِ سندھ کے دور سے شامل نہیں ہوئے، بلکہ بہت سا ذخیرہ الفاظ اردو کے طفیل داخل ہوا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ویدوں کے عہد میں ابتدائی مراحل طے کرنے والی، تصویری رسم الخط کی حامل عربی کے الفاظ اور فقرے بھی یقیناً سندھی سمیت تمام علاقائی زبانو ں میں کہیں نہ کہیں یا کسی نہ کسی شکل میں قدرتی طور پر داخل ہوئے ہوں گے۔
اس باب میں تحقیق کرنی ہوگی۔ سندھ میں صدیوں مختلف اقوام کے جنگجو، سیاح، تاجر اور عام لوگ داخل ہوکر عارضی یا مستقل سکونت اختیار کرتے رہے اور عین فطری بات یہ ہے کہ ان کا براہ ِراست اثر اور دخل یہاں کی مقامی بولیوں اور زبانوں پر اس طرح پڑتا رہا کہ ایک نئی زبان تشکیل پانے لگی۔ سندھی کے ذخیرہ الفاظ میں عربی اور فارسی کے اثرات نمایاں ہیں، ترکی کے حصے پر شاید کسی نے تحقیق نہیں کی، دراوڑی کی بابت آگے چل کر بات ہوگی اور تھر کی دوسری طرف، راجستھان سے مارواڑی اور ہم رشتہ زبانوں کے اثرات بھی بعض بعض جگہ بہت زیادہ واضح ہوچکے ہیں۔ اس بارے میں خاکسار کے راجستھان سے متعلق قسط وار مضمون میں بھی کچھ ذکر ہوچکا ہے۔
’’اردو کی طرح سندھی بھی ایک مخلوط اور مرکب زبان ہے۔ ’آفتاب ادب‘ کے مصنف محمد سہوانی لکھتے ہیں،’یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سندھی، سنسکرت، عربی، فارسی اور کسی قدر انگریزی کی ترکیب سے ایجاد ہوئی ہے‘۔ اردو اور سندھی دونوں زبانوں کا تعلق ہند آریائی خاندان سے ہے اور دونوں عربی اور فارسی کے سایہ عاطفت میں پلی بڑھی ہیں۔ اردو اور سندھی حروف تہجی میں ث، ح، خ، ز، ص، ض ط، ظ،ع اور ق کی موجودگی عربی اثرات کا نتیجہ ہے،۔ اردو اور سندھی کا رسم الخط بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ایک ہی ہے۔ سندھی کا خط نسخ تو خالص عربی ہے۔
اردو کا خط نستعلیق جو فارسی کہلاتا ہے، بنیادی طور پر عربی ہے، برصغیر پاک و ہند میں یہی دو زبانیں ایسی ہیں جو ہند آریائی ہوتے ہوئے بھی عربی رسم الخط اپنائے ہوئے ہیں‘‘۔ (’’اردو سندھی کے لسانی روابط‘‘ ازجی ایم اصغر، روزنامہ جنگ، کراچی، مؤرخہ 28 اپریل، 2021ء)۔ راقم سہیل کا خیال ہے کہ عجلت میں مضمون نگار بہت کچھ نظراَنداز کرگئے۔ پنجابی کا شاہ مُکھی رسم الخط نستعلیق ہے، بلوچی کا بھی یہی ہے، براہوئی کا بھی، شمالی علاقہ جات کی اکثر زبانوں کا بھی یہی ہے، البتہ کچھ نے پشتو اور سندھی کی طرح نسخ اپنایا ہے۔ اس بارے میں تحقیق کی جائے تو عربی یا عربی الاصل فارسی [Perso-Arabic] رسم الخط کی حامل زبانوں کی فہرست اچھی خاصی طویل نکلے گی۔
ہندآریائی زبانوں میں شامل دونوں زبانیں یعنی اردو اور سندھی کسی حد تک دَراوڑی سے تعلق واشتراک کے سبب، اُن سے بھی ہم رشتہ کہلاسکتی ہیں، مگر یہ دراوڑی نہیں جیسا کہ کسی صاحب نے لکھ دیا۔
معروف محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے خیال ظاہر کیا کہ ’’سندھی زبان بنیادی طور پر براہ ِ راست سنسکِرِت سے نہیں نکلی، بلکہ سنسکرت سے پہلے والے دور کی، وادی سندھ کی قدیم زبان ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدیم تحقیق کہ ’’سنسکرت سے پراکرِت، پھردراچڈ اپ بھرنش اور اُس سے سندھی نے جنم لیا ‘‘ مسترد کردی گئی۔ (سندھی زبان وادب کی تاریخ از ڈاکٹر نبی بخش بلوچ مترجمہ شذرہ سکندری)۔ انھوں نے اپنے مطالعے کی بناء پر یہ رائے قائم کی کہ:
ا)۔’’سندھ کی قبل اَز تاریخ، قدیم تہذیب کی زبان کے آثار، موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے ملی ہوئی مُہروں میں محفوظ ہیں۔ اس قبل از تاریخ زبان کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ’سامی صفت‘ زبان ہو جو عراق کی قدیم سُمیری تہذیب کی زبان کی ہم عصر ہو۔
مقامی طور پر اُس کی دراوڑی سلسلے سے بھی نسبت ہوسکتی ہے‘‘۔ (یہاں خاکسار تمام اہل زبان ودیگر محققین وقارئین وناقدین کی توجہ ایک مرتبہ پھر اس انکشاف کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ ڈاکٹر ابوالجلال ندوی نے اس بارے میں بہت محنت سے تحقیق کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ موئن جو دڑو اور ہڑپہ، نیز مہرگڑھ کی مُہروں پر درج زبان کوئی اور نہیں، قدیم اور ابتدائی عربی کی تصویری شکل ہے۔ اُن کی یہ تحقیق کوئی پینتالیس سال قبل منتشر مضامین کی شکل میں منظرِعام پر آئی جسے بعد میں جامعہ کراچی سے شایع ہونے والے علمی وادبی جریدے ’جریدہ‘ میں یکجا کرکے پیش کیا گیا۔ اس کا حوالہ میرے سلسلہ زباں فہمی میں کئی بار آچکا ہے: س ا ص)۔
ب)۔ ’’موجودہ سندھی زبان براہ ِ راست سنسکِرِت سے نہیں نکلی، بلکہ سنسکرت سے پہلے کی پراکِرِت یا پراکرتوں سے نکلی ہے۔ وہ ہندآریائی زبان ہے۔ لہندا (سرائیکی، بہاول پوری، ملتانی، ڈیروی، ہندکو)، کشمیری اور شمالی ہند کی داردی زبانیں اس کی بہنیں ہیں‘‘۔ (راقم یہاں تصحیح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ سرائیکی بطور زبان مُسلّم ہے اور بہاول پوری، مُلتانی اور ڈیروی اُسی کی شاخیں یا لہجے ہیں، دیگر لہجے اس پر مستزاد، جبکہ ہندکو یکسر جُدا زبان ہے۔ داردی نہیں دَردی صحیح اصطلاح ہے: س ا ص)۔
ج)۔ ’’بُودوباش کے لحاظ سے یہ تمام کی تمام، وادیٔ سندھ کی قدیم ہندآریائی زبانیں ہیں (یہ کیسے معلوم ہوا؟ : س ا ص)، لیکن ترتیب اور تاریخی ارتقاء کے لحاظ سے وہ اِس برّعظیم کی دیگر ہندآریائی زبانوں سے نرالی ہیں، کیونکہ ان کی بناوٹ اور نمو میں منڈا اور دراوڑی زبانوں کے علاوہ، ہندایرانی اور مغرب سے داخل ہونے والی دیگر زبانوں کے ا ثر کا بھی عمل دخل شامل رہا ہے‘‘۔ (یہاں مترجم خاتون کی زبان دانی کی آزمائش ہوگئی۔ صحیح یوں ہے: مغرب سے داخل ہونے والی دیگر زبانوں کا عمل دخل بھی شامل رہا: س ا ص)
د)۔ ’’سندھی اُس دراچڈ اپ بھرنش سے نہیں نکلی جس کا قدیم نحویوں نے ذکر کیا ہے۔ سندھی کا خمیر، سندھ کی سرزمین ہی میں تیار ہوا۔ اس کی اصل اور بنیاد اِس کا موروثی سرمایہ ہی ہے جس کی تاریخ، سنسکرت سے پہلے والی ’پروٹوپراکرت ‘ یا ’اولین پراکرت‘ تک پہنچتی ہے‘‘۔
پروفیسر حبیب اللہ غضنفر جیسے منفرد محقق کی رائے یہ تھی کہ سندھی ’پراچڈ اپ بھرنش‘ سے نکلی ہے، جبکہ لہندا ’کیٹی اپ بھرنش‘ سے معرضِ وجود میں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب آریا ہندوستان میں داخل ہوئے تو اُن کی زبان کو اہمیت (حاصل) تھی۔ اس کے بعد تقریباً ڈھائی ہزار سال تک ہر وہ زبان ترقی کرتی رہی جس کو شاہی سرپرستی حاصل ہوئی، مثلاً اشوک کے زمانے میں اردھ ماگدھی (مگدھی: س ا ص) کو عروج ہوا، اس کے بعد ہرش وردھن اور راجپوتوں کی فتوحات کے زمانے میں دوآبہ کی زبان شورسینی اور بعدازآں بِر ج بھاشا ادبی زبان قرار پائی۔ اس زمانے میں بھی یہیں کی ایک زبان کھڑی بولی پورے ہندوستان کی لنگوا فرانکا تھی‘‘۔
(’’اردو زبان کے آغاز واِرتقاء کے مختلف نظریے‘‘ مشمولہ ’زبان وادب۔ مطالعہ وتحقیق: غضنفر اکیڈمی، کراچی: ستمبر 1983)۔ انھوں نے ہارنل [A.F.Hornle] اور گریرسن[Sir George Abraham Grierson] کے نظریات کی روشنی میں بتایا کہ آریا دو مختلف ادوار میں اس خطے میں داخل ہوئے اور ایک گروہ نے پہلے گروہ کو برّعظیم پر قابض دیکھ کر جنوب کی طرف ہٹتے ہوئے مشرق کا رُخ کیا۔ ایک لسانی گروہ اندرونی کہلاتا ہے جس میں مغربی ہندی، مشرقی پنجابی، گجراتی، راجستھانی، بھِیلی اور خاندیشی شامل ہیں جبکہ بیرونی زبانوں میں، شمال مغرب کی لہندا اور سندھی، جنوب کی مرہٹی (مراٹھی) اور مشرق میں آسامی، بنگالی، اُڑیا اور بہِاری شامل ہیں۔ ان دونوں زبانوں کے بیچ میں پوربی ہندی رواج پذیرتھی، پہاڑی علاقو ں کی بولیاں (مثلاً) نیپالی وغیرہ اِن سے مختلف ہیں‘‘۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ بِہاری درحقیقت اردو کی قدیم بولی ہے جو آج بھی لہجے کے طور پر زندہ ہے۔
البتہ پوربی کو جُدا زبان سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ بھی اردو اور ہندی کی قدیم بولی ہے۔ آگے چل کر پروفیسر غضنفر نے گریرسن کے مفروضے کا تجزیہ کرتے ہوئے اُس سے بہتر رائے ڈاکٹر چٹرجی کی قرار دی جس کے قول کے مطابق ’’مدھ دیش (یعنی وسطی ہند: س ا ص)کی خاص زبان مغربی ہندی ہے، شمال مغربی ہندوستان (یعنی موجودہ پاکستان: س ا ص) کی زبان لہندا اور سندھی ہیں، مشرقی ہندوستان کی زبانیں بِہاری، اُڑیا، بنگالی اور آسامی ہیں، جبکہ جنوبی ہندوستان میں آریائی زبان صرف مرہٹی ہے‘‘۔
ماہرلسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری نے تمام مشاہیر سے قطع نظر یہ انکشاف کیا کہ ہندآریائی یا آریائی زبانوں کی تخصیص غلط ہے۔ یہ تمام زبانیں ہندوستانی اور دراوڑی ہیں۔ انھوں نے ارشادفرمایا: ’’پچھِم کے کچھ عالم اور اُن کی دیکھا دیکھی پاک بھارت کے کھوجی بھی اِن سب بولیوں (زبانوں) کو جو آج کل اِن دونوں دیسوں میں بولی جارہی ہیں، نئی بولیاں کہتے ہیں اور اِنھیں بولیوں میں اردو بھی گِنی جاتی ہے، پَر یہ اُن لوگوں کی بھول ہے جو بولیوں کو نئی اور پرانی جیسی بھانتوں میں بانٹتے ہیں، کیوں کہ سنسار کی ہر بولی جو آج کل بولی جارہی ہے، بہت پرانے جُگ (زمانے) سے چلی آرہی ہے……….پھر یہی لوگ آج کل پاک بھارت میں بولی جانے والی سبھی بولیوں کو ہندآریائی بھی کہتے ہیں، پَر پہلی بات کی طرح اس بات کا بھی اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ سب بولیاں ٹھیٹھ ہندوستانی اور دَراوڑی ہیں کیونکہ یہ ہندوستان میں انگریزوں اور مسلمانوں کیا آریاؤں کے آنے سے بھی پہلے بولی جاتی تھیں اور اسی طرح بولی جاتی تھیں جیسے آج بولی جارہی ہیں اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ رِگ ود میں جو ہندوستان کی سب سے پرانی کتاب مانی جاتی ہے اور جو آریوں کے یہاں آئے پیچھے آریائی بولی میں لکھی گئی ہے، ان دیسی بولیوں کے اَن گنت بول، محاورے اور گرامری رُوپ ملتے ہیں‘‘۔ (’’اردو کی کہانی‘‘)
مندرجہ بالا ساری بحث سے ہمارے موضوع کا براہِ راست تعلق نہیں، مگر یہ محض تعارف میں لکھنا ہوتا ہے۔
سندھی زبان کی تعریف اور مباحث میں ناواقفین نے کئی مقامات پر ٹھوکر کھائی ہے۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا (ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز) کی جلد اوّل میں بیان کیا گیا کہ سندھی کی پانچ شاخیں ہیں: سرائیکی جو سندھ کے مشرقی حصے میں بولی جاتی ہے اور جس میں بہاول پور کا علاقہ بھی شامل ہے، تھریلی جو تھرپارکر کے علاقے میں بولی جاتی ہے، لاڑی، کچّھ جو کچھ اور کاٹھیاواڑمیں بولی جاتی ہے اور وِچولی جو خاص سندھ میں بولی جاتی ہے اور یہی موجودہ سندھی ہے‘‘۔ تعجب ہے کہ سرائیکی کو محض لسانی اشتراک ومماثلت کی بناء پر سندھی کی شاخ قرار دے دیا، جبکہ اکثر قوم پرست پنجابی اسے پنجابی زبان کا حصہ قرار دیتے ہیں، البتہ کچّھی کو ماہرین نے سندھی کی شاخ سمجھا ہے اور انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا میں بھی سرائیکی کے متعلق یہی لکھا گیا کہ یہ سندھی سے قریب ترین ہے۔
[Its closest relative is Siraiki, with which it shares the four distinctive implosive consonants /b/, /d/, /g/, and /j/, which are pronounced with indrawn breath and contrast phonemically with the usual /b/, /d/, /g/, and /j/. Sindhi also preserves the old short final vowels lost in most other Indo-Aryan languages—e.g., gharu ‘house,’ ghara ‘houses,’ versus Siraiki (and Urdu) ghar ‘house, houses.’
مزیدبرآں:
Sindhi is further distinguished by numerous items of vocabulary and by many complexities in its grammatical system, such as a large number of irregular past participles—e.g., ditho ‘saw’ from disanu ‘to see,’ muo ‘died’ from maranu ‘to die’—and the use of suffixed pronouns, as in atha-mi ‘is mine,’ atha-si ‘is his.’]
(جاری)
[ad_2]
Source link