[ad_1]
اس امر سے انکار نہیں کہ ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کے لیے امن و امان کا قیام ناگزیر ہے۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے کہ جمہوریت کی بقا اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ امن و امان کو برباد کرنے والے تمام شرپسند اور دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کردیا جائے۔ ایک طویل عرصے سے ملک کے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گرد عناصرکا خاص نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ہماری سیکیورٹی فورسزکے بہادر جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن، رات دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے سرگرداں ہیں۔ ابھی چار روز پیشتر دس دہشت گردوں نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی، تاہم سیکیورٹی فورسزکی بروقت اور موثرکارروائی کے باعث انھیں ناکامی اور موت کا سامنا کرنا پڑا۔ تمام دس دہشت گرد جوابی کارروائی کے دوران مارے گئے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ہمارے آٹھ بہادر جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کی اس مذموم کارروائی کی ذمے داری ٹی ٹی پی کی سسٹر تنظیم حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کر لی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افغانستان سے پاکستان پر حملوں میں ملوث ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین سطح افغانستان کی طالبان حکومت سے باضابطہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے باز رکھے۔ اور ان کے خلاف بھرپورکارروائی کی جائے۔ کے پی کے کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک دیہی صحت مرکز پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت پانچ شہری شہید ہوگئے جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ تین دہشت گرد موقع پرجاں بحق ہوگئے اور دو سیکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا ضلع ہے۔
یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج ملک بھر میں بالعموم اور صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص پوری جاں فشانی اور موثر طریقے سے کارروائیاں کر رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد جہنم واصل ہو چکی ہے۔ ان میں سے کچھ تو زیر زمین چلے گئے اورکچھ دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے۔ اور افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔
بجا کہ ملک کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کر رہے ہیں، سیاسی اور عسکری قیادت بھی اس ضمن میں ایک پیج پر ہے اور دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں قیام امن کے لیے دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور وار کرنے کے لیے’’عزم استحکام‘‘ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں تحریک انصاف اور جے یو آئی نے اس پراپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے اور اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لانے پر اصرارکیا ہے۔ چند روز پیشتر موجودہ حکومت کی جانب سے یہ خبریں میڈیا کی زینت بنی تھیں کہ حکومت ’’ عزم استحکام‘‘ کے حوالے سے ایک آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائے گی جس میں تمام جماعتوں کو بریفنگ دی جائے گی اور انھیں اعتماد میں لیا جائے گا، لیکن تادم تحریر اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
اس مجوزہ اے پی سی میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی شرکت پر آمادگی ظاہرکی تھی۔ مبصرین و تجزیہ نگار یہ توقع کر رہے تھے کہ اے پی سی میں پی ٹی آئی کی شرکت حکومت اپوزیشن محاذ کی شدت میں کمی آئے گی، برف پگھلے گی تو پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی غلط فہمیاں دورکرنے کا موقع میسرآئے گا جس سے ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوگی اور معاشی ابتری میں بہتری کے آثاروامکانات پیدا ہوں گے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ہے بلکہ محاذ آرائی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے اکثریتی فیصلے نے بھی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے۔
موجودہ حکومت کو ڈر ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے کی صورت میں وہ ایوان میں دوتہائی اکثریت سے محروم ہو جائے گی اور پھر آئینی ترامیم نہیں کرسکے گی۔ حکومت کی خواہش اورکوشش ہے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں اس سلیقے سے رکاوٹیں پیدا کی جائیں کہ ’’ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ کے مصداق پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہی رہے۔
پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جو آسان کام نہیں۔ حکومت کی اتحادی پی پی پی اور خود (ن) لیگ کے بعض رہنماؤں کی جانب سے پابندی کے فیصلے کو غیرضروری اقدام قرار دیا جا رہا ہے کہ اس سے سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ ماضی میں ایسے فیصلوں کے ہمیشہ منفی نتائج برآمد ہوئے۔ حکومت اور اپوزیشن کو کو سانپ اور لاٹھی کا کھیل کھیلنے کے بجائے افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔
[ad_2]
Source link