[ad_1]
تبلیسی کا اولڈ ٹاؤن دریا کے دونوں طرف آباد ہے‘ گلیاں پہاڑی اور اونچی نیچی ہیں‘ دائیں بائیں دونوں طرف دامن کوہ ٹائپ پہاڑ ہیں‘ اوپر منال کی طرح خوب صورت ریستوران ہے جس کے ٹیرسز سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے‘ آپ گاڑی اور بس کے ذریعے بھی وہاں جا سکتے ہیں اور کیبل کار بھی لے سکتے ہیں‘ کیبل کار میدان کے قریب سے چلتی ہے اور جنگل اور پہاڑ کے درمیان سے ہوتی ہوئی چوٹی پر پہنچ جاتی ہے‘ ٹاپ سے شہر کا نظارہ حیران کن ہے‘ رات کے وقت تاحد نظر روشنیاں ہی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں جب کہ دن کے وقت دور دور تک سرخ چھتیں اور سبز جنگل نظر آتا ہے‘ وہاں چھوٹی سی ہاؤسنگ اسکیم بھی ہے‘ یہ تبلیسی کا مہنگا ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
تبلیسی کے نیچے زیرزمین لاوے کا دریا بہتا ہے لہٰذا یہاں سلفر کے چشمے ہیں‘ ان چشموں پر ’’سپا‘‘ بنے ہوئے ہیں‘ آپ تھوڑی سی رقم خرچ کر کے ’’سلفر باتھ‘‘ انجوائے کر سکتے ہیں‘ شہر کا قدیم ترین سپا میرے ہوٹل کے بالکل ساتھ تھا‘ یہ عثمانی دور میں تعمیر ہوا اور آج تک آباد ہے تاہم یہ یاد رکھیں اس کے اندر نہانے والے تمام لوگ ’’الف ننگے‘‘ ہوتے ہیں‘ میں 2014 میں یہ تجربہ کر چکا تھا‘ میں ’’یک مشت‘‘ اتنی بڑی تعداد میں ننگے دیکھ کر ششدر رہ گیا تھا اور بڑی مشکل سے اپنی ستر پوشی برقرار رکھنے میں کام یاب ہوا تھا چناں چہ میں نے اس بار یہ غلطی نہیں کی‘ اسی حصے میں دو قدیم پل ہیں‘ یہ ’’برج آف لو‘‘ کہلاتے ہیں۔
سیاح ان پلوں پر کھڑے ہو کر تالوں پر اپنے نام لکھتے ہیں اور چابی دریا میں پھینک دیتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے اب ان کی محبت کبھی زوال پذیر نہیں ہو گی‘ میں نے دونوں پلوں کے جنگلوں پر ہزاروں کی تعداد میں تالے دیکھے‘ جنگلا تالوں کے بوجھ تلے پچک رہا تھا‘ تمام تالے دل کے ڈیزائن کے تھے تاہم ان کے رنگ مختلف تھے‘ ان پلوں کے اوپر ’’مدر آف جارجیا‘‘ کا سایہ بھی ہے‘ یہ ’’اسٹیچو آف لبرٹی‘‘جیسا مجسمہ ہے‘ جارجین لوگوں کا خیال ہے یہ ہماری ماں ہے جو ہر صورت میں ہماری حفاظت کرتی ہے۔ ’’لو برجز‘‘ سے پانچ سو گز کے فاصلے پر جدید ’’پیس برج‘‘ ہے‘ ہم اسے امن کا پل کہہ سکتے ہیں‘ یہ پل لوہے اور شیشے کا خوب صورت امتزاج ہے۔
جارجیا کا ہر سیاح کم ازکم ایک بار اس پر کھڑے ہو کر تصویر ضرور بنواتا ہے‘ کیبل کار پیس برج کے قریب ہے۔ جارجیا کے کھانے بہت لذیذ اور صحت مند ہیں‘ یہ چیز نان کو ’’کھاچا پری‘‘ کہتے ہیں تاہم ان کے نان میں چیز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یہ بہت لذیذ ہوتا ہے‘ یہ لوبیے سے لوبیانی نام کی ایک ڈش بھی بناتے ہیں اور یہ بھی بہت مزیدار ہوتی ہے‘ اخروٹ وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں لہٰذا یہ اس کا آٹا سلاد‘ روٹی اور سالن میں ڈالتے ہیں اوراس سے ان کے کھانے مزید لذیذ ہو جاتے ہیں‘ ان کی ایک ڈش کھن کالی (Khin Kali)کہلاتی ہے اور یہ بھی انتہائی مزیدار ہوتی ہے تاہم اس میں گوشت استعمال ہوتا ہے لہٰذا اسے احتیاط سے کھائیں اور پہلے چیک کر لیں یہ گوشت حلال ہے یا نہیں؟ زیادہ مناسب ہو گا آپ سبزی کی کھن کالی کھائیں۔
جارجین لوگ شراب بہت پیتے ہیں‘ ان کی سب سے اسٹرانگ شراب ’’چاچا‘‘ کہلاتی ہے‘ اس میں الکوحل کی مقدار 70 فیصد تک ہوتی ہے چناں چہ لوگ ایک آدھ شارٹ کے بعد ٹلی ہو جاتے ہیں‘ وائین بہت زیادہ اور بے شمار قسموں کی بنتی ہے‘ ان کا دعویٰ ہے دنیا میں سب سے پہلے وائین ان لوگوں نے بنائی تھی شاید اسی لیے جارجیا کو ’’ہاؤس آف وائین‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ ان کا دعویٰ ہے وائین (انگور کی شراب) کا فارمولا جارجیا سے مصر اور پھر ساری دنیا میں گیا تھا‘ سگ ناگی (Signagi) جارجیا میںوائین کا دیس کہلاتا ہے‘ یہ شہر تبلیسی سے دو اڑھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔
مجھے جمعہ کے دن سگ ناگی جانے کا اتفاق ہوا‘ پورے علاقے میں تاحد نظر انگور کے باغات تھے اور ان باغات میں ’’وائنریز ‘‘(شراب کے کارخانے) تھیں‘ مجھے سگ ناگی کے مضافات میں شومی (Shumi) نام کی وائنری میںجانے کا اتفاق ہوا‘ وائنری کے گرد انگوروں کی دو ہزار قسمیں اگی تھیں‘ ہر قسم کی قطار کے شروع میں گلاب کے پودے تھے‘ ہمیں گائیڈ نے بتایا اگر انگور پر کوئی بیماری (وائرس) حملہ آور ہو تو گلاب اس کی حفاظت کرتا ہے‘ یہ وائرس کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے جس کی وجہ سے انگور کا پودا بچ جاتا ہے چناں چہ دنیا بھر میں انگور کی بیلوں کے ساتھ گلاب لگایا جاتا ہے اور اس کے طفیل زیادہ تر وائینز میں گلاب کی خوشبو آتی ہے‘ گائیڈ نے ہمیں وائین بنانے کا قدیم طریقہ بھی دکھایا‘ لکڑی کے بہت بڑے پیالے میں کنواری لڑکیاں انگور کے دانوں کو اپنے سرخ وسفید پیروں تلے کچلتی تھیں۔
انگور کا رس زمین میں دفن گھڑوں میں جمع ہوتا تھا‘ گھڑوں کے منہ باندھ دیے جاتے تھے‘ رس چھ ہفتے تک فرمن ٹیشن کے عمل سے گزرتاتھا اور بعدازاں اسے عمل تتحیر سے گزار کر گھڑوں اور بوتلوں میں بھر لیا جاتا تھا اور پھر انھیں سال دو سال کے لیے ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھ دیا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ‘ یہ قدیم طریقہ تھا لیکن اب فیکٹری میں جدید طریقے سے شراب بنائی جاتی ہے‘ ہمیں فیکٹری کے میوزیم میں بھی لے جایا گیا‘ ہم نے وہاں پانچ ہزار سال پرانا پودا‘ 33 سو سال پرانا مٹکا اور اڑھائی اڑھائی ہزار سال پرانے پیمانے اور پیالے دیکھے‘ گائیڈ کا کہنا تھا یہ پیمانے اور مٹکے آج تک کی تاریخ کے قدیم ترین برتن ہیں تاہم پانچ ہزار سال پرانے پودے سے چار سو سال پہلے ایک پودا اگایا گیا تھا‘ وہ پودا آج بھی فیکٹری کے لان میں موجود ہے اور اس پر ہر سال پھل بھی لگتا ہے۔
گائیڈ کے مطابق اس انگور سے سالانہ 60 بوتلیں بنتی ہیں‘ اس شراب کا نام جینس (بنیاد) ہے اور اس کی ایک بوتل کی قیمت 3 ہزار ڈالر (نو سے دس لاکھ روپے) ہے‘ گائیڈ نے ہمیں اس شراب کا مٹکا بھی دکھایا‘اس کے مطابق اس چھوٹے سے مٹکے میں ہاف ملین ڈالر کی شراب تھی‘ یہ لوگ بائیو آرگینک شراب بھی بناتے ہیں‘ اس شراب کے پودوں کو کیمیکلز‘ کھاد اور کیڑے مار ادویات سے بچا کر رکھا جاتا ہے‘ شراب سازی کے عمل کے دوران بھی کسی قسم کا کیمیکل استعمال نہیں ہوتا لہٰذا یہ شراب ’’پیور‘‘ ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اس کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے‘ ہمیں بتایا گیا عام طور پر وائین کی تیاری میں 28 ماہ لگتے ہیں‘ اسے شروع میں مٹکوں میں بند کر کے چھ سے آٹھ ماہ کے لیے زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے‘ اس کے بعد اسے بوتلوں میں بھر دیا جاتا ہے اور یہ بوتلیں لکڑی کے اسٹینڈز پر دو سال کے لیے الٹی رکھ دی جاتی ہیں۔
بوتلوں کے منہ پر لوہے کے ڈھکن چڑھا دیے جاتے ہیں‘ یہ ڈھکن جب مکمل طور پر سیاہ ہو جاتے ہیں تو پھر بوتلوں کو سیدھا کیا جاتا ہے‘ انھیں دھو کر صاف کیا جاتا ہے اور ڈھکن اتار کربوتل کے منہ پر کارک لگا دیے جاتے ہیں اور یوں بوتلیں بازار میں اترنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے ہزاروں بوتلوں کو الٹا لٹکے دیکھا جب کہ باقی شراب زمین کے اندر گھڑوں میں دفن تھی‘ گھڑوں کے اوپر شیشے کے ڈھکن تھے اور ڈھکنوں پر چونے کا لیپ تھا‘ گائیڈ نے بتایا چونا شراب کو ہر قسم کے جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے‘ گائیڈ اس کے بعد ہمیں اسٹور میں لے گئی‘ وہاں دو ہزار قسم کی وائین قطار اندر قطار لگی تھی۔
اس کا کہنا تھا یہاں دس ملین ڈالر کی شراب موجود ہے‘شراب سازی کا یہ عمل تہہ خانے میں کیا جاتا ہے‘ روشنی اور گرمی سے شراب خراب ہو جاتی ہے‘ فیکٹری کا ماحول بہت خوب صورت تھا‘ تین سائیڈز پر انگوروں کی ہزاروں بیلیں تھیں‘ یہ پھلوں سے لدی ہوئی تھیں‘ اس کے بعد فیکٹری کے لان شروع ہو جاتے تھے‘ لانز میں پھل دار اور سایہ دار پودے تھے‘ ساتھ پانی کی چکی تھی اور دائیں بائیں لکڑی کے خوب صورت ہٹس تھے‘ وہ ماحول واقعی خوب صورت تھا‘ ہم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کرکافی پی اور مخمور ہو کر جی بھر کر گائیڈ اور ماحول کی تعریف کی‘ شراب کی فیکٹری میں کافی کا اپنا ہی مزا تھا۔
جارجیا کے اس سفر کے دوران میری ملاقات کرنل ظفر سے بھی ہوئی‘ کرنل ظفر کا تعلق 58کیولری کے ساتھ تھا‘ یہ دس سال قبل یو این مشن پر جارجیا آئے اور اپنا تن اور من اس پر قربان کر دیا‘ فوج سے استعفیٰ دیا‘ جارجین خاتون سے شادی کی اور باقی زندگی کے لیے یہاں سیٹل ہو گئے‘ شاہد رسول کے ہاسٹلز کی مینجمنٹ ان کے پاس ہے‘ یہ بہت دل چسپ اور مطمئن انسان ہیں‘ لاہوریے گجر ہیں‘ گجر ٹرائب کیوں کہ جارجیا سے ہندوستان آئے تھے‘ کرنل صاحب نے اس نقل مکانی کا انتقام جارجیا واپس آکر لے لیا‘ یہ ہندوستان کا گجر خون واپس جارجیا لے آئے۔
(جاری ہے)
[ad_2]
Source link