15

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدورکے اوقات

[ad_1]

عام آدمی مہنگائی میں پس رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف اپنے ملازمین کی بہبود پر توجہ دے رہی ہیں۔ ملک بھر میں غیر سرکاری سیکٹر میں کام کرنیوالے مزدوروں کے لیے حکومتوں کے پاس دینے کوکچھ نہیں ہے۔ اگرچہ وفاق اور صوبوں نے غیر ہنرمند مزدورکی کم ازکم اجرت 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے مگر اس معاملے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت صرف اسلام آباد میں اپنے کم ازکم اجرت کے فیصلے پر عملدرآمد کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزارت محنت نے کارخانوں، بازاروں، پٹرول پمپس اور پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ کی فرموں میں کم ازکم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہی صورتحال صوبائی حکومتوں کی ہے۔ چاروں صوبوں میں نجی اداروں میں کام کرنیوالے غیر ہنرمند ملازمین کی کم ازکم اجرت 37 ہزار روپے کردی گئی مگر یہ فیصلہ محض اخبارات کی فائلوں اور ٹی وی چینلزکے نیوز ٹکرز تک محدود ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ کا معاملہ تو اتنا برا ہے کہ سرکاری محکموں کی عمارتوں کی سیکیورٹی پر مامورگارڈ کی اجرت گزشتہ سال کم سے کم اجرت کے قانون سے بھی کم ہے۔

نجی شعبہ کے افسروں اورکارکنوں کی پنشن میں گزشتہ کئی برسوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا اور وزارت محنت اولڈ ایج بینیفٹ انشورنس (E.O.B.I) اپنے مینڈیٹ کے باوجود دیگر شعبوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو اپنے دائرہ کار میں شامل کرانے کے لیے کچھ نہیں کررہی۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک لاکھوں مزدور اس بہترین اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا پاسکے۔ اب سندھ میں کارکنوں کے لیے ایک نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ سندھ کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ آئی ایل او کی مدد سے سندھ لیبر کوڈ مرتب کیا ہے۔ مزدور رہنماؤں اور ماہر قانون نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ نیا سندھ لیبرکوڈ پہلے کے قوانین کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں کارکنوں کو قوانین کے تحت جو تحفظ حاصل تھا اس نئے لیبرکوڈ کے نفاذ سے وہ بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 190 کے قریب Enactmentاور رولز میں ورکرزکی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ اسی طرح آجر اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی مختلف تعریفیں ملتی ہیں، جس کی بناء پر مزدورکی تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جس کا نقصان مزدورکو ہی ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر خاصے عرصے سے اس بات پر زور دیا جارہا تھا کہ لیبرکوڈ کو مختصر اور جامع ہونا چاہیے۔ حکومت سندھ کے افسروں نے آئی ایل او کے ماہرین کی مدد سے Sindh Labour Code 2024 تیارکیا۔

سندھ کی حکومت نے سندھ لیبرکوڈ کے مسودہ کو آجروں اورکارکنوں کی تنظیموں میں تقسیم کرایا۔ اس مسودہ میں 20 کے قریب قوانین شامل ہیں جن میں انڈسٹری اورکمرشل ایمپلائمنٹ (اسٹینڈنگ آرڈر آرڈیننس) اور انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ وغیرہ شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ لیبرکوڈ کا مسودہ تقریباً 318 صفحات پر مشتمل ہے مگر سندھ لیبرکوڈ کا مطالبہ کرنے والے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ پہلے سے نافذ قوانین سے زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہے اور اس کوڈ کے مطالعے سے قوانین کے بارے میں مزید کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ اس مسودے میں کارکن کی تعریف کو بھی خاصا پیچیدہ کردیا گیا ہے۔

مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کوئی ورکر خواہ اس کے کام کی نوعیت کچھ بھی ہو، ورکر ہنرمند ہو یا غیر ہنرمند، خواہ ورکر انتظامی اور انٹیلیکچوئل کام کرتا ہو یا جسمانی محنت کا کام کرتا ہو، وہ ورکرکی تعریف میں آئے گا۔ ان رہنماؤں کا مزید استدلال ہے کہ اسٹینڈنگ آرڈیننس 1968میں ورکرکی واضح تعریف متعین کی گئی ہے خواہ اس کے کام کی نوعیت کچھ بھی ہو ۔ قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی ورکرکے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کو بھی غیر ضروری الفاظ شامل کر کے گنجلک کردیا گیا ہے۔ اس طرح کنٹریکٹ لیبر اور تھرڈ پارٹی ہائرنگ کا معاملہ بھی خاصا متنازع ہے۔

مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں کنٹریکٹ سسٹم اور Hiring Third Party کے طریقہ کار کے نفاذ سے مزدوروں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ان رہنماؤں کا استدلال ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے ٹریڈ یونین کو کمزور کرنے کے لیے مستقل ملازمت کے بجائے کنٹریکٹ سسٹم اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے ملازمت دینے کے طریقہ کارکو اختیار کیا گیا۔ پہلے یہ طریقہ غیر ہنرمند مزدوروں کی ملازمت کے لیے تھا۔ تمام ملازمین اس طریقہ کار کی لپیٹ میں آگئے۔

اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ورکرز مثلاً ڈاکٹروں، انجینئروں، پروفیشنلز حتیٰ کہ نجی تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھی مستقل ملازمت کے بجائے اسی طریقہ کار کے تحت ملازم رکھا جاتا ہے، یوں یہ افراد 25، 25 سال ملازمت کے باوجود میڈیکل کور،گریجویٹی اور پرووڈنٹ فنڈ سے محروم رہے۔ اس نظام کی بناء پر ان مزدوروں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ اپنے ادارے کی سی پی اے یونین کی رکنیت حاصل نہیں کرسکتے، یوں یہ لوگ مستقل غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے ہیں، جو پروفیشنلز ہوتے ہیں وہ زیادہ تنخواہ اور مراعات کے لیے اپنا ادارہ چھوڑکر دوسرے ادارے میں بارگیننگ کرکے نئی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔

اس ساری صورتحال سے ان ورکرزکی نہ صرف صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ ان کی صحت پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں۔ محنت کشوں کی نمایندہ تنظیموں نے سندھ لیبرکوڈ کے مسودے کو مسترد کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ سندھ کے لیبر ڈپارٹمنٹ نے اس اہم مسودے کی تیاری میں مزدور تنظیموں سے مشاورت نہیں کی۔ مزدور رہنماؤں کا استدلال یہ بھی ہے کہ لیبر قوانین کو بہتر بنانے اور یکجا کرنے اور اس پرقانون سازی کرنے کے لیے جامع سہ فریقی مشاورت ضروری ہے۔

یہ رہنما اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ٹھیکیداری نظام کو کسی بھی شکل میں قانونی حیثیت دینے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ ان رہنماؤں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ صوبہ بھر میں لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے اور تمام مزدوروں کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے اور ہر شعبے میں مزدوروں کو یونین سازی کا حق بھی دیا جائے۔

کراچی میں گزشتہ دنوں سافٹ ویئر انجینئر کو اس کے مالک نے 3 ماہ تک تنخواہ ادا نہیں کی تھی، اس انجینئر کے والد شدید بیمار تھے۔ اس نوجوان نے مسلسل اپنی تنخواہ کا مطالبہ کیا مگر جب کچھ نہ ہوا تو اشتعال کی حالت میں اس شخص نے مالک کو شدید زخمی کردیا۔ مالک اسپتال میں ہلاک ہوگیا اور ایک پروفیشنل محض حالاتِ کار خراب ہونے کی وجہ سے قاتل بن گیا۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل کے قاتل بننے کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو لیبر قوانین کو سادہ اور آسان بنانا چاہیے اور قوانین پر عمل درآمد کے لیے سخت طریقہ کار اختیارکرنا ہوگا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں